اقصیٰ منوّر ملک، صادق آباد
اللہ ربّ العزّت نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ان کا شمار کرنا بھی چاہے، توممکن نہیں۔ ان ہی عطا کردہ اَن گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت ’’زبان‘‘ بھی ہے کہ زبان سے نکلے الفاظ کی اللہ کے یہاں بہت اہمیت ہے، جس کا اندازہ سورہ ق کی ان آیات سے لگایا جا سکتا ہے، ’’جب(وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں، بائیں بیٹھے ہیں، ان کو لکھ لیتے ہیں۔‘‘ یعنی انسان جیسے ہی کوئی لفظ نیکی کا یا بدی کامنہ سے نکالتا ہے، تو دائیں طرف والا فرشتہ نیکی اور بائیں طرف والا بدی لکھنےکے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ اور پھر ایک وقت ایساآئے گا، جب انسان کا یہی ریکارڈ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔
تب سب کو اپنے کہے ہر ہر لفظ کا جواب دینا پڑے گا۔ اِس لیے ہمیں منہ سے اچھی اور بھلائی ہی کی باتیں نکالنی چاہئیں۔ دانا افراد کا کہنا ہے کہ اگرچہ زبان حجم میں چھوٹی ہوتی ہے، مگراللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے کیا گیا گناہ بہت بڑا ہے۔ مثال کے طور پراگرغیبت کی جائے،تو قرآنِ پاک میں اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے، جب کہ حدیث مبارکہﷺ میں زنا سے بدتر قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ جھوٹ بولنے، طعن و تشنیع کرنے، چغل خوری اور کسی پر تہمت لگانے جیسے گناہ بھی اِسی زبان سے سرزرد ہوکر اچھے اعمال کے ضایع ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔ انسان چاہے تو اِسی زبان سے کلمہ پڑھ کر دِل سے تصدیق کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے اور اگر چاہے تو چند کفریہ کلمات سے اپنی ابدی بربادی کا سامان کرلے۔ یاد رکھیے، اگر پاؤں پھسل جائے ،تو انسان کھڑا ہوجاتا ہے، لیکن زبان پھسل جائے، تو الفاظ واپس نہیں آ سکتے ۔ گویا ’’الفاظ‘‘ ہی سب کچھ ہوتے ہیں، اس لیے منہ سے الفاظ سوچ سمجھ کر نکالنے چاہئیں کہ یہ دِل جیت بھی لیتے ہیں اور چیر بھی دیتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان کی تعریف یوں بیان فرمائی، ’’مسلمان وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ یہ حدیثِ مبارکہﷺ بہت جامع ہے۔جس پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث میں سب سے پہلے ’’المسلم‘‘ فرمایا گیا، جس سے مسلمانوں کو غیرت دلانا مقصود ہے کہ تم مسلمان ہوکر بھی تکلیف دیتے ہو۔پھر زبان کو ہاتھ پر مقدم کیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ برخلاف ہاتھ کے، زبان سے مُردہ اور زندہ دونوں ہی افراد کو بُرا بھلا کہا جا سکتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زبان سے کہی بات کا اثر زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے۔
بقول اسماعیل میرٹھی؎’’چُھری کا ،تیر کا، تلوار کا تو گھاؤ بَھرا…لگا جو زخم زباں کا، رہا ہمیشہ ہرا ‘‘۔ہاتھ سے تو انسان کسی کو تب نقصان پہنچاتا ہے، جب وہ سامنے ہو،لیکن زبان سے وہ نہ صرف مخاطب، بلکہ اس کی پچھلی نسلوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حالاں کہ اکثر اوقات الفاظ کی اس تیز دھاری تلوار کے وار سے مضبوط سے مضبوط رشتے ناتے بھی پَل بَھر میں ٹوٹ جاتے ہیں۔
حضرت علیؓ کا قول ہے ’’بندہ اپنی زبان کے نیچے چُھپا ہوتا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہوجاتا ہے ۔حضرت یحییٰ بن معاذ ؓ نے فرمایا، ’’دِل کی مثال ہنڈیا اور زبان، چمچ کی مانند ہے۔ جیسے انسان چمچ کے ذریعے ہنڈیا سے صرف وہی نکال سکتاہے، جو اس کے اندر موجود ہو، بالکل اِسی طرح ہم زبان سے وہی کچھ بول سکتے ہیں، جو دِل میں ہو۔‘‘ لہٰذا اگر کوئی ہمیں بُرا بھلا کہے، تو اسے جواب نہیں دینا چاہیے، کیوں کہ اس کے پاس کہنے کے لیے اس سے بھی بُرے الفاظ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کو بداخلاق، بدزبان اور جھوٹے لوگ پسند نہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان سے ہمیشہ سچّی، اچھی بات کریں ، جس سے دوسروں کو فائدہ ہو، ورنہ خاموشی ہی بہتر ہے۔ زیادہ اور بے مقصد بولنا انسان کا وقار کم کردیتا ہے،جب کہ اپنے ہی کہے لفظوں سے نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔
بے شک کسی کو بُرا بھلا کہنا، تہمت لگانا، ذلیل و رسوا کرنا، جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا بہت آسان ہے، لیکن اُس دِن جب سب ربّ کے خوف سے کانپ رہے ہوں گے، اور اللہ ربّ العزّت نے پوچھ لیا کہ فلاں کو گالی کیوں دی، جھوٹ کیوں بولا، زبان کا بُرا استعمال کیوں کیا، تو ہم کیا جواب دیں گے؟؟اللہ تعالیٰ ہمیں زبان کے درست استعمال کی توفیق عطا فرمائے۔