• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سخت مایوسی ہوئی!!

مہینوں پہلے لکھے اپنے دو عدد مضامین ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی، مگر پھر عرصے بعد دو تحریریں شایع ہوئیں، تو اُمید بندھ گئی۔ اب آتی ہوں میگزین کی طرف، جس میں پڑھنے والوں کی دل چسپی اور ذوق کومدِنظر رکھتےہوئےکیا چُن چُن کر موضوعات سامنے لائے جاتے ہیں۔ منور مرزا کے قلم کا جواب نہیں۔ رئوف ظفر، شفق رفیع، منور راجپوت، ڈاکٹر سمیحہ راحیل اور آپ کے طرزِ تحریر کی تو مَیں مداح ہوں۔ (شہناز حمید، راول پنڈی)

ج: ہزار ہا بار عرض کیا ہے کہ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھیں، کاغذ کی بیک سائیڈ سادہ چھوڑ دیں۔ مگر، آپ لوگوں کو اپنے شکوے شکایات ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ ارے بھئی، متعدد قابلِ اشاعت تحریریں بھی محض اس وجہ سے شایع نہیں ہوپاتیں کہ وہ انتہائی گنجلک انداز سے لکھی گئی ہوتی ہیں اور آپ کا یہ خط بھی صرف اس وجہ سے 90 فی صد ایڈٹ کردیا گیا ہے کہ الفاظ کی دھینگا مشتی میں ایڈیٹنگ کی کوئی سبیل ہی نہیں بن پائی۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کی تحریروں کے ناقابلِ اشاعت ہونے کی بڑی وجہ بھی آپ کی یہی عادت ہوگی۔

مَردوں کے عالمی یوم پر قلم آرائی

دنیا کے ’’حالات و واقعات‘‘ پر عقابی نظر رکھنے والے منور مرزا ’’جی20- اور کوپ اجلاس‘‘ کا حال احوال سناتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ عالمی طاقتوں کے اجلاس میں افغانستان کا ذکر تک نہیں ہوا۔ ثروت جمال اصمعی نے اپنے قلم سے محبوبِ خدا حضرت محمدﷺ سے متعلق عقیدت و محبت کے گُل بکھیرے۔ اقصیٰ منور ملک ’’دَر توبہ کھلا ہے‘‘ جیسے قلمی پارے سے باور کروا گئیں کہ ہمارا سوہنا رب بہت بہت مہربان ہے۔ امتحانات اور نتائج کے نام پر جو ڈرامے اور نمبرز کی بندر بانٹ ہوئی، وہ سب ہی کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ شفق رفیع کی دُہائی بالکل درست تھی۔ طارق ابوالحسن افغانستان میں پاکستانی سفیر، منصور احمد خان سے بات چیت کررہے تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ذیابطیس، پری میچور بچّوں اور اسپیشل افراد سے متعلق مضامین شامل کیے گئے۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں بادلوں کے سجیلے ڈولے پر، دلہن کے روپ میں ماڈل آمنہ ملک چھائی دکھائی دیں۔ فاروق اقدس، خوش جمال، کشمالہ طارق کے اوراقِ زندگی وا کرتے دکھائی دیئے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں غالباً پہلی بار مَردوں کے عالمی یوم پر قلم آرائی کی گئی۔ روبینہ فرید کے طرزِ تحریر کے کیا کہنے۔ ’’ناول‘‘ کو ہمیشہ کی طرح بائے پاس کیا۔ محترمہ بےنظیر بھٹو سے متعلق رفعیہ ملاح کے مضمون کا ثانی نہ تھا۔ اختر سعیدی بھی اپنے خُوب صُورت الفاظ سے سنڈے میگزین کے گلشن کو مزید مہکا گئے۔ واقعی، تبصرہ کرناتوکوئی اُن سے سیکھے۔ ناقابلِ فراموش کےدونوں واقعات منفرد اور سبق آموز تھے۔ لو جی، بالآخر ملتان کے پیر جنید علی چشتی کا نام بھی ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر بڑی شان سے چمکا۔ دیکھ کے بہت اچھا لگا۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میر پور خاص)

ج: غالباً آپ کا نام بھی اِسی آن بان شان سے ایک سے زائد بارچمک چُکا ہے۔

قلوب کو حصار میں جکڑا

اُمید کرتی ہوں کہ آپ اور ادارے سے وابستہ سب لوگ بخیریت ہوں گے۔ نثر کے محترم استاد، پروفیسر شوکت واسطی فرمایا کرتے تھے کہ ’’لکھاری اُس وقت تک حقیقی لکھاری نہیں بنتا، جب تک کہ روزانہ 3 سے 4 ہزار الفاظ نہ لکھتا ہو اور جس کو کتب بینی کا شوق نہیں، اُسے تمام عُمر لکھنا نہیں آسکتا۔‘‘ یہاں حال یہ ہے کہ جریدے کے مندرجات پر تبصرے کی توفیق ہوتے ہوتے مہینے گزر جاتے ہیں۔ بہرحال، شمارے میں موجود ثروت جمال اصمعی اور اقصیٰ منور کے مضامین نے قلوب کو اپنے حصار میں جکڑا، تو شفق رفیع کی تحریر بھی ہمیشہ کی طرح لاجواب تھی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ سے فاروق اقدس کی محنت جھلکتی ہے، عمدہ معلومات بھی حاصل ہو رہی ہیں۔ پیرزادہ شریف الحسن اور روبینہ فرید کے مضامین چشم کُشا تھے۔ رفیعہ ملاح نے بھی ایک بہترین نگارش ہمارے نام کی۔ ناقابلِ فراموش کے واقعات متاثر کُن تھے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے تو کیا کہنے، مستقل نامہ نگاروں کی ہمّت کو داد دینا چاہتی ہوں۔(اُمّ ِ حبیبہ نور، چکوال)

ج:بخدا تین صفحات کےخط سے ہم یہ چند سطریں ہی سمجھ پائے ہیں۔ آپ اور آپ کے بھائی صاحب راجہ افنان احمد اپنی طرف سے بہت ہی نستعلیق خط لکھتے ہیں کہ بعض الفاظ پڑھ کے تو ہمیں ندامت ہونے لگتی ہے کہ ’’ہائیں! یہ لفظ ہم نے آج تک کہیں پڑھا ہی نہیں۔‘‘ مگر… پھر تحقیق و جستجو کے بعد پتا چلتا ہے کہ درحقیقت ایسا کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔

پُرتاثیر تحریر تھی

شمارہ سامنے ہے، ماڈل کی پَھٹی پَھٹی آنکھیں دیکھیں، تو خیال آیا کہ شاید منہگائی کی لمبی چھلانگوں سے یہ بھی حیرت کی شکار اور خوف زدہ ہیں۔ منور مرزا حسبِ معمول اپنے بھرپور موڈ، پوری تیاری کے ساتھ آئے اور اکانومک مینجمنٹ کا اُصول خُوب سمجھایا۔ معاشی ترقّی کے لیے قومی یک جہتی ضروری ٹھہری اور ہمیں سُوجھا کہ اس کے لیے ایک قوم ہونا بھی لازم ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کافی منفرد اور دِل چسپ تھا۔ اشاعتِ خصوصی خُوب تر۔ منور راجپوت نے نوبیل انعام سے متعلق دُور کی کوڑیاں جمع کیں، دِل کو تسلّی ہوئی یہ جان کر کہ اُردو اَدب کا دامن کافی وسیع و عریض ہے۔ نوبیل پرائز کا حق دار بھی ٹھہرتا ہے، بس پرائز کمیٹی کی نااہلی ہےکہ ہیرے کی قدر جوہری ہی کو ہوتی ہے۔ سوئیڈن والے جوہر شناس نہیں۔ اب وہ نہ جانے اپنی اس کوتاہ بینی کا کیا جواز پیش کرتے ہیں، لیکن ایک سبق ضرور ملتا ہے کہ نوبیل صاحب جاتے جاتے بھی اہلِ علم و ہُنر کے لیے خیر و جستجو کے دروازے کھول گئے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے فیچر فکرآمیز رہا۔ عبدالمجید ساجد نے تجزیہ کیا کہ پاکستانی معاشرہ شعور و آگہی کےحوالےسے ابھی زیرِتعمیر ہے۔ ممتاز مسعود کی بات یاد آ گئی کہ ’’حفاظت کا تردّد ختم ہوا، ندامت کا دَور کبھی ختم نہ ہوگا‘‘۔ وادیٔ گل کی چاندنی لے کر آگے بڑھے۔ آئی جی جیل خانہ جات ذرا سے پیار اور تھوڑی سی توجّہ سے جیل میں انقابی اصلاحات کے لیے کوشاں ہیں، پڑھ کر اَش اَش کرتے رہے۔ شاعری کے سرفراز، احمد فراز کے بارے میں پڑھنا اچھا لگا۔ منتخب نظمیں ڈائری کی زینت بنیں۔ اگلے شمارے کا پہلا صفحہ سوال لیے ہوئے تھا، ’’گرے لسٹ کا چکّر کب ختم ہوگا؟‘‘ ’’مَیں کی جاناں؟‘‘ کہتے آگے بڑھ گئے۔ عدم اعتماد کی کہانی سُنی، ہر رشتہ ہی اعتماد مانگتا ہے۔ اعتماد کے بغیر کوئی رشتہ پائیدار نہیں ہوتا۔ ’’متفرق‘‘ میں قاضی ظہورالحسن نے پلاننگ کی عدم موجودگی پر کھری کھری سُنائیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر تاثرات تھے۔ ’’شان دار ملبوس، شان دار شخصیت‘‘۔ ’’وادیٔ کیلاش‘‘ کی ایک جھلک نے مسحور کر دیا۔ ڈائجسٹ کی کہانی ’’اُجاڑ مسکن‘‘ بہت پسند آئی۔ اِسی طرح پچھلے شمارے میں شایع شدہ تحریر ’’پاگل‘‘ بھی تنہائی پسندی اورلوگوںکے رویّےبیان کرتی ایک پُرتاثیر تحریر تھی، جب کہ ’’جھپٹا‘‘ بھی دلی کیفیات کی عکّاس تحریر تھی۔ وہ کیا ہے ؎’’ایک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکیلے ہیں.....‘‘ (عشرت جہاں، لاہور)

ج:پسند اپنی اپنی… کچھ قارئین کو ’’پاگل‘‘ ’’جھپٹا‘‘ وغیرہ پسند نہیں آئیں، تو وہ اُن کی رائے ہے اور ہمارے لیے تو ہر ایک ہی کی رائے مقدّم ہے۔

دِل جیت لیا ہے

اُمید ہے، سنڈے میگزین کی تمام ٹیم ایمان و صحت کی بہترین حالت میں ہوگی۔ بہت معذرت کہ آپ کی خاص ہدایت (ایک خط شایع ہونے سے پہلے دُوسرا ارسال نہ کیا جائے) کے باوجود یہ خط لکھ رہی ہوں۔ ویسے اس گستاخی کے پیچھے ایک بہت ہی زبردست وجہ ہے کہ تازہ جریدہ بہت ہی دل چسپ ہے۔ اتنا کہ قلم خودبخود ہی تبصرے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ سب سے پہلے صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی بات کروں، جو بلاشبہ سرچشمۂ ہدایت ہی ہے۔ ’’فیچر‘‘ میں منوّر راجپوت اور ’’کہی اَن کہی‘‘ میں مَن پسند فن کار کی موجودگی نے دِل خوش کردیا۔ عارف الحق عارف آج کل کہاں غائب ہیں۔ نئی کتابیں، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش اور آپ کا صفحہ سب نے مل کر میرا دِل جیت لیا ہے۔ (ایمن علی منصور، کراچی)

ج: پتا نہیں کون سا تازہ جریدہ آپ کو اس قدر دل چسپ لگاکہ قلم خودبخود اُٹھ کھڑاہوا۔ ہم باوجود کوشش کے نہیں سمجھ پائے۔

ہر ہفتے آمد

جریدہ موصول ہوا، پڑھا، اچھا لگا۔ توریت اور انجیل کے اصل نسخے دُنیا میں کہیں موجود نہیں، حیرت ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ثروت جمال اصمعی نے مذاہب کا بہترین تقابلی جائزہ لیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ تو اس سرعت سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا، آخر اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں نمبرز کی بندربانٹ کی تفصیل رقم کی گئی۔ بھئی، جب امتحان ہی چار مضامین کا ہوگا، تو پھر ایسا تو ہوگا۔ منصور احمد خان اور طارق ابوالحسن کی ’’گفتگو‘‘ خُوب رہی۔ ذیابطیس کی جانچ کے لیے اسکورنگ والا کلیہ زبردست تھا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ سے بھی کیا کیا انکشافات نہیں ہوئے۔ ’’ناول‘‘ دُھندلے عکس کا جواب نہیں، سچ پوچھیے، تو اٍسی کی بدولت مَیں ہر ہفتے خط لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ ’’ہر فن کی معراج کائنات کے مصوّر تک پہنچنے کی راہ ہے۔‘‘ واہ، کیا کمال جملہ لکھا گیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مرد و عورت کے مساوی حقوق کا خُوب خیال رکھا جاتا ہے۔ ’’مَردوں کے عالمی یوم‘‘ پر تحریر دل خوش کرگئی۔ اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے افغانستان اور ایران کو موضوعِ گفتگو رکھا۔ محمّد احمد غزالی نے امام محمّد غزالی رحمۃ اللہ سے متعلق لاجواب تحریر ہماری نذر کی۔ منصور اصغر راجا بھی علّامہ اقبال کے حوالے سے شان دار نگارش لائے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس کے صفحے میں بہت بہتری آگئی ہے۔ ’’پھیپھڑوں کے سرطان‘‘ اور’’اورل سرجری‘‘ سے متعلق معلوماتی تحریروں کا جواب نہ تھا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے ’’جہانِ دیگر‘‘ کی صُورت شام، استنبول اور ایران کو چھان مارا۔ عالیہ کاشف عظیمی نے کہی اَن کہی میں سیّدہ ثنا نصرت سے متعارف کروایا اور ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ تو گویا ’’دُرِّ نایاب‘‘ہے۔ محمّد فاروق چوہان کا مضمون روایتی سا تھا اور اس دفعہ ’’مِنی پاکستان‘‘ پیارا گھر ٹھہرا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’گفتار کا غازی‘‘ بھی دل چسپی سے پڑھی۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو عُمدہ ہے ہی، اس پر کیا حاشیہ آرائی کریں۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاہا، لاہور)

ج:آپ بے شک ہر ہفتے تشریف لائیں، لیکن خدارا! 5، 5 صفحات کی رام کہانیوں کے ساتھ مت آئیں کہ ہم نے ’’آپ کا صفحہ‘‘ آپ کے نام کردینے کا ہرگز کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ان دو خطوط کو بھی ایڈٹ کرتے کرتے ہاتھ دُکھنے لگے ہیں۔

چَھا گئے ہیں!!

جریدے میں گوہر تاج کا انٹرویو بہت پسند آیا تھا۔ کتابوں پر تبصرہ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ اسماء خان دمڑ کے خط کا تو کوئی جواب ہی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے مضامین بےحد پسند آتے ہیں۔ محمّد احمد غزالی بھی چھا گئے ہیں۔ کہی اَن کہی کے انٹرویوز بہت شوق سے پڑھتی ہوں، ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کنول بہزاد، ثاقب صغیر اور حسن رانجھا کے افسانے بہترین ہوتے ہیں۔ (عابدہ ارشد علی بٹ، غازی روڈ، لاہور)

ج:یا تو آپ کہیں بہت ہی پیچھے رہ گئی ہیں یا محکمہ ڈاک آپ کوخاصاپیچھے لےگیاہے۔ ہم تو ویسے ہی خطوط کی زیادہ تعداد کے سبب ایک، ڈیڑھ ماہ کے فرق سے چل رہے ہوتے ہیں۔ مگر، اب جب کہ ہم نومبر، دسمبر کے شماروں پر تبصرے شایع کررہے ہیں، آپ اگست، ستمبر کے شماروں پر تبصرے لیے چلی آئی ہیں، لہٰذا آپ کابیش تر خط تو ایڈیٹنگ ہی کی نذر ہو گیا۔

         فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ہم خاصے مصروف تھے، ورلڈ کپ کے باعث، لیکن جس انداز میں پاکستانیوں نے ٹاپ کلاس پرفارمینس دے کر ہندوستانیوں کو آئوٹ کلاس کیا، اُس کے بعد ایک عدد’’پاکستانی کڑک فوجی سیلوٹ‘‘ پیش کرنا تو بنتا ہے گرین شرٹس کو۔ جہاں تک بات ہے میگزین کی، تو ڈاکٹر سمیحہ راحیل کے قلم سے ’’شامِ استنبول، براستہ تہران‘‘ کے حصّہ اوّل نے تو اپنے سحر ہی میں جکڑ لیا۔ دوسرے حصّے کا بےتابی سے انتظار ہے، ’’لوحِ ایّام‘‘ پڑھ کر ہمارے ذہن میں ایران کا کچھ اچھا تاثر نہیں اُبھرتا تھا، لیکن اب ڈاکٹر سمیحہ راحیل کی جانب سے بڑا سافٹ سگنل ملا ہے، تہران سے متعلق۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کی دسویں قسط میں جا کر وہ موڑ آیا،جس کا انتظار تھا، جب کہ ہم نے اس چکّر میں نو اقساط پڑھ ڈالیں۔ ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر نے زبردستی قہقہہ لگانے پر مجبور کردیا، ’’اُف! اتنے فینسی ملبوسات!!‘‘ یہ تو اسماء دمڑ کے کام آسکتے ہیں، اُسے ہی ویاہ کھڑکانے کی جلدی ہے۔ ابھی سے تیاری شروع کرے گی، تو شاید سال، چھے ماہ میں کھڑک بھی جائے۔ ہاہاہا… ارے، آپ نے میک اپ آرٹسٹ کا بھی انٹرویو کروالیا، چلیں، اگر اُن کے مشورے یاد رہے، تو عمل بھی کرلیں گے۔ہاہاہا… ویسےسیّدہ ثناء نصرت کا اپنا میک اپ ہمیں بہت پسند آیا۔ منور راجپوت پانچ کتابوں پر بہترین تبصرے کے ساتھ موجود تھے۔ بہنا کا مشورہ ہے کہ مَیں ’’کاکولیات‘‘ خرید لوں، سو روپے کی ہے ناں اس لیے۔ ہاہاہا…’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے افغانستان کے انتہائی پریشان کُن حالات بیان کرکے ذہن الجھادیا۔ ویسے اب کپتان کے بعد طالبان کو بھی خبر ہوگئی ہوگی کہ ڈوبتے کو سہارا دینا کسی قدر اوکھا کام ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘، امّی کا پسندیدہ صفحہ پانچ ڈشز کی تراکیب سے مزیّن تھا۔ اب تو ہم بھی ان تراکیب کی بڑی قدر کرتے ہیں کہ یہی تو وہ عظیم تراکیب ہیں، جن کی وجہ سے امّی میگزین کے لیے ’’نو اینٹری‘‘ کا آرڈر نہیں دے پارہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شہرِ قائد سے مسٹر عدنان مسندِ اعلیٰ پر براجمان دکھائی دیے۔ واہ سائیں! کیا زبردست خط لکھتے ہیں آپ۔ چند مشورے ہمیں بھی دیجیے، آخر اتنا اچھا،اتنا رواں خط لکھاکیسے جاتا ہے۔ خطوط میں سیّد زاہد نے وادئ مہران کے پیڑوں پر ’’انگور کھٹّے ہیں‘‘ کی مثال فٹ کی، کیوں انکل،آپ کو شوگر ہے کیا؟ ورنہ پیڑے منہگے تو بالکل نہیں ہیں۔ اور ہاں، خاندانی نواب صاحب کا خط مَیں سب سے پہلے پڑھتی ہوں،چھوٹا اور اچھا سا ہوتا ہے ناں اس لیے۔ (نورالہدیٰ محمد اسلم ،جھڈّو، وادئ مہران)

ج:تمہیں آتا تو ہے، اتنا اچھا، اتنا رواں خط لکھنا، تمہیں کاہے کی پریشانی ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* آپ کے سلسلے ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کے لیے اپنے والدین سے متعلق ایک تحریر بھیج رہی ہوں۔ اشاعت کی درخواست ہے۔ (شائستہ عابد)

ج: ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلے میں مختصر پیغامات شایع کیے جاتے ہیں، مفصّل تحریریں نہیں۔ آپ کی تحریر صفحہ ’’اک رشتہ، اک کہانی‘‘ کے انچارج کو دے دی گئی ہے۔

* ’’نواب زادہ بے کار ملک‘‘ کا تو نام دیکھ کر ہی ہنسی کا دورہ پڑجاتا ہے اور پھر جس طرح آپ اُن کی ’’چھترول‘‘ کرتی ہیں، قسم سے ہم تو وقفے وقفے سے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کا سلسلہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ بھی مجھے بہت ہی پسند ہے۔ (فہیم مقصود، والٹن روڈ، لاہور)

ج: چلو، ہمیشہ ہنستی بستی ہی رہو۔

* اس بار تو ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل، ماڈل ہی نہیں لگ رہی تھی۔ ہاں، پہناوے مناسب تھے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ عمدہ تبصروں سے مرصّع ہوتی ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ریاض ندیم کی غزل کا ایک مصرع تھوڑا بےوزن سا لگا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں کتّے سے متعلق کہانی نے بہت جذباتی سا کردیا۔ اور ہاں ایک قاری نے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے سیّد الاوراق‘‘ کا جو نام تجویز کیا، وہ بہت ہی پسند آیا۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)

ج: ہمارے یہاں ایک ایک مصرع ایک مستند شاعر کو باقاعدہ چیک کروایا جاتا ہے۔ ممکن ہے، پروف کی کوئی غلطی رہ گئی ہو۔

* آپ نے جریدے میں میرے مضمون کو جگہ دی، مَیں تہہ دل سے آپ کا ممنون ہوں۔ (محمّد عارف شیخ)

* 28 نومبر کے ایڈیشن میں صفحہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی دونوں کہانیاں پڑھ کے اندازہ ہوا کہ کہانیوں کی سُرخیاں، اسکیچز اور لکھاریوں کے نام الٹ پلٹ گئے ہیں۔ آپ لوگوں کو صفحات تیار کرنے کے بعد لازماً ری چیک بھی کرنے چاہئیں۔ (ریحان حسن خان)

ج: جی، آپ نے سو فی صد درست کہا۔ اور صفحات ایک بار نہیں، متعدّد بار چیک ہوتے ہیں، اس کے باوجود ایسی غلطی ہوئی، جو قطعاً نہیں ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال، صفحہ انچارج کی غیر ذمّے داری پر اُن کی سرزنش کی گئی ہے اور اس ضمن میں ہم خود نہ صرف دونوں لکھاریوں بلکہ قارئین سے بھی معذرت خواہ ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk