کرناٹک کے وزیر بی سی ناگیش نے دعویٰ کیا کہ انتہا پسندوں کے سامنے ڈٹ جانے والی مسکان نے وہاں کھڑے لڑکوں کو ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگا کر مشتعل کیا۔
ریاست کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کہا ہے کہ زعفرانی رنگ کا مفلر پہنے لڑکے مسلمان طالبہ مسکان کو گھیراؤ کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن جب مسکان نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو وہ مشتعل ہو گئے۔
بھارتی وزیر نے یہ بھی کہا کہ مسکان نے وہاں موجود لڑکوں کو اُکسایا ورنہ اس سے قبل تو ایک طالبعلم بھی ان کے نزدیک نہیں تھا۔
پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش نے کہا کہ کیمپس میں ’اللہ اکبر‘ یا ’جئے شری رام‘ کے نعروں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔
بھارتی وزیر نے کہا کہ مسکان نے تعلیمی ادارے میں اللہ اکبر کا نعرہ کیوں لگایا؟ وہاں موجود لوگوں کو کیوں مشتعل کیا؟
یاد رہے کہ کرناٹک میں گزشتہ روز باحجاب لڑکی مسکان کو ہندو انتہا پسندوں نے کالج جاتے ہوئے ہراساں کیا تھا۔
اس واقعے پر دنیا بھر میں مختلف انداز سے تبصرے اور تجزیے کئے جارہے ہیں، ہندوستان میں بھی اس پر بحث تیز ہوگئی ہے۔
ایک طرف جامعہ دیوبند نے ہندو انتہاپسندوں کے مقابل نعرہ تکبیر لگانے والی لڑکی کو سراہا اور اس کے لیے 5 لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا تو دوسری طرف بھارتی مسلم رہنما اسد الدین اویسی نے باحجاب طالبہ مسکان کو فون کرکے شاباشی دی ہے۔
اسی اثنا میں کانگریسی رہنما پریانکا گاندھی نے لڑکی ہوں، لڑسکتی ہوں کے ہیش ٹیگ کے ساتھ باحجاب مسلم طالبہ کے حق میں بیان دیا۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنا بند کرو ،حجاب ہو ، گھونگٹ ہو یا جینز خواتین کو اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کا اختیار ہے۔