مولانا کامران اجمل
اللہ تعالیٰ نے امت کے بعض افراد کو بعض صفات میں ایسا مشہور فرمایا کہ وہ چیزیں ان کا خاصہ شمار ہونے لگیں اور ان کی دیگر صفات سے لوگوں کی نظریں یکسر ہٹ گئیں ، ان کی شہرت اس میں بہت زیادہ ہوئی ،یہاں تک کہ ایسا لگنے لگا کہ اس فن کے صرف وہی مردِ میدان ہیں ، حالانکہ اس فن کے دیگرلوگ بھی مزید موجود ہوں اور خود ان میں بھی دیگر صفات موجود ہوں ، مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر رحمت امت کی بات اس قدر غالب آئی کہ ان ہی کو ’’ارحم امتی‘‘ کہا گیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امور دینیہ میں شدت کے ساتھ جوڑا گیا ، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حیاء کی صفت اس قدر صادق ہوئی کہ خطبات تک میں ان کے بارے میں ذکر کیا جانے لگا کہ سب سے زیادہ حیا کرنے والے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ، اور سب سے زیادہ عدل پر مبنی فیصلہ کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ قرار پائے ، حالانکہ ایسا خدانخوانستہ ان احادیث کا مطلب نہیں ہے کہ ایک میں جو صفت ہے وہ دوسروں میں نہیں ، یا ان میں صرف یہی ایک صفت ہے، بلکہ مقصد ان کا اس سلسلے میں مشہور ہونا اور بہت زیادہ آگے بڑھ جانا ہے ، یہاںتک کہ اس صفت کو تشبیہ کے لیے بھی انہی کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ۔
یہی حال امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ہے کہ وہ فقاہت میں اس قدر مشہور ہوئے کہ دنیا نے ان کی دیگر صفات : ان کے استغناء ، ان کی دینی غیرت وحمیت ، ان کے تقوی وللہیت ، ان کے زہد و ورع، ان کی کاروباری خصوصیات ، ان کی دیانت داری ، ان کی شفقت ومحبت ، ان کی طلبہ کے ساتھ خصوصی غم خواری ، ان کی طلبہ کی پڑھائی میں مدد ونصر ت ، ان کی سخاوت ، اپنے بچوں کے اساتذہ کی خصوصی قدر دانی ، ان کی قرآن کریم سے والہانہ محبت ، ان کی کثرت تلاوت ، ان کے کشف کے واقعات ، ان کی وضع داری ، ان کی حرمت خداوندی کی پاسداری ، ان کے دلائل کی مضبوطی وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو مستقل حیثیت رکھتی ہیں ، جن پر باقاعدہ لکھا جاسکتا ہے ، لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کی شہرت چونکہ فقہ میں خوب خوب ہوئی، اس لیے کسی کی توجہ ان باتوں کی طرف زیادہ نہیں ہوا کرتی ، اسی طرح سے ایک صفت جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے، وہ علم حدیث ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نہ صرف روایت ِحدیث بھی کیا کرتے تھے، بلکہ جرح وتعدیل میں بھی امام صاحب رحمہ اللہ باقاعدہ کلام کیا کرتے تھے ، اسی لیے ائمہ جرح وتعدیل نے ان کے کلام کو نقل بھی کیا ہے اور باقاعدہ اس سے فائدہ بھی اٹھایا ہے ۔
امام صاحبؒ کی عظمت ِشان کو تو امت کے جلیل القدر علماء نے احادیث سے بھی ثابت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی قوم (یعنی فارس ) میں سے ایک شخص اٹھے گا اور وہ دین کو لے کر آگے بڑھے گا، اگرچہ علم ثریا ستارے کے پاس ہی کیوں نہ ہو ‘‘، حضرات محدثین اس حدیث کا مصداق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو قرار دیتے ہیں ، لیکن امام صاحب رحمہ اللہ کو اس کے علاوہ بھی اور بےشمارخصوصیات حاصل ہیں ۔
پھر صرف اتنا ہی نہیں ،بلکہ کسی امام کی ثقاہت ، ان کی عظمتِ شان کے لیے جو چیزیں لازم ہیں ،امام صاحب رحمہ اللہ کو وہ بدرجہ اتم حاصل ہیں ، مثلاً ائمۂ جرح وتعدیل کا اصول ہے کہ اگر کسی عالم کےجرح وتعدیل کا کوئی قول کسی مشہور ائمہ میں سے کسی کے خلاف ہو تو ان کی امامت کی شہرت کی وجہ سے یہ جرح معتبر نہیں ہوگی ، امام صاحب رحمہ اللہ میں یہ بات بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ، اس لیے کہ دیگر ائمہ ثلاثہ یا تو امام صاحب کے براہ راست شاگرد ہیں یا کسی واسطہ سے شاگرد ہیں ، اور ظاہر سی بات ہے کہ جب امامت میں درجہ برابر ہو تو پھر استاد شاگرد میں فرق مراتب کا خیال رکھنا ضروری ہوگا ۔
دوسری بڑی جلالت شان جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو حاصل ہے ،وہ ان کا تابعی ہونا ہے کہ یہ فضیلت دیگر ائمہ میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے ، صرف امام صاحب رحمہ اللہ کو تابعیت کا شرف حاصل ہے ، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : سب سے بہترین زمانہ میرا ہے ، پھر جو اس کے بعد ،پھر جو اس کے بعد ہو ، حضرات محدثین نے اس سے مراد صحابہ کرامؓ اور حضرات تابعینؒ لیے ہیں ۔
تدوین فقہ کا سہرا بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سر ہے ، انکار کرنے والے لاکھ انکار کرتے رہیں، لیکن تاریخ کا مطالعہ رکھنے والے اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ خود حضرات ائمہ مجتہدین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقاہت کی گواہی دی ہے ، بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے تو یہاں تک فرمایا ’’لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لیے کنبے کی طرح ہیں‘‘ ۔اس سے پہلے اگرچہ فقہ موجود تھی اور صحابہ کرامؓ میں بھی فقہائے صحابہؓ موجود تھے ، حضرات تابعین میں بھی فقہاء موجود تھے ، لیکن باقاعدہ تدوین اگر کسی نے اس علم کی فرمائی ہے تو وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں ، اور دیگر حضرات نے فقہی ترتیب انہی سے لے کر اپنی کتابوں میں اختیار کی ہے ،جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ابواب کی ترتیب امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ سے لی ہے ، فقہ میں امام صاحب کی بصیرت اس قدر تھی کہ امام مالک رحمہ اللہ نے یہ تک فرمادیا : ’’اگر امام صاحب کسی ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو اتنے دلائل ان کے پاس موجود ہوں گے کہ وہ اسے سونے کا ثابت کر دکھائیں گے ‘‘ اور عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’اگر کسی کو اپنی رائے سے دینی مسئلہ بتانے کی اجازت ہے تو وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں ‘‘، امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میں نے ابوحنیفہ ؒسے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں دیکھا ‘‘، قاضی شریک رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’ امام صاحبؒ فقہ میں بہت دقیق نظر رکھتے تھے ‘‘او ر امام مالک رحمہ اللہ کی عادت تھی کہ ہ فرضی مسائل بالکل نہیں بتاتے تھے ، جب کہ امام صاحب ؒ کے فرضی مسائل بہت زیادہ تھے یہاںتک کہ خود انہوں نے لاکھوں مسائل کا استنباط کیا ہے ، لیکن اس کے باوجود تواضع کا حال یہ تھا کہ مسائل پر خود فتویٰ نہیں دیا کرتے تھے ، بلکہ انہوں نے اپنی ایک شوریٰ بنا رکھی تھی جس میں اپنے زمانے کے بڑے بڑے ماہرین فن کو جمع کررکھا تھا جن کی تعداد بعض حضرات کے بقول چالیس سے زیادہ تھی ،اگر ان کے ناموں کو صرف لے لیا جائے تو بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل کی قبولیت کے لیے کافی تھا ، لیکن امام صاحبؒ نے ایسا نہیں کیا ،بلکہ مسئلے پر بحث کی جاتی ، بلکہ بسا اوقات ایک ایک مسئلے پر مہینوں بحث ہوتی جب کسی مسئلے پر اتفاق ہوتا تو اسے لکھ لیا جاتا، اگر اختلا ف ہو تا تو اختلافی نوٹ کے ساتھ اسے ذکر کیا جاتا ،اور یہ سب حضرات اپنے فن میں خود امامت کا درجہ رکھتے تھے ، کوئی قرآن کریم کی تفسیر میں شہرت رکھتے تو کوئی حدیث میں امامت کا درجہ رکھتے تھے ، کوئی عربیت کے امام تھے تو کوئی علم کلام کے ماہر ، کوئی مناظرہ کی دنیا کے شہسوار تھے تو کوئی صرف ونحو میں چوٹی پر براجمان ، یہی وجہ تھی کہ جب کوئی امام صاحبؒ کے بارے میں غلطی کا ذکر کرتا تو بعض ائمہ غصہ ہوتے اور فرماتے ابوحنیفہ ؒ نے غلطی کی ! وہ کیسے غلطی کر سکتے ہیں، حالانکہ ان کی مجلس میں فلاں فلاں موجود تھے، وہ کیسے غلطی کرسکتے ہیں ؟۔
امام ابو حنیفہ ؒ جس طرح ان خصوصیات کے حامل تھے ، اسی طریقے سے حدیث میں بھی امام صاحب رحمہ اللہ کا بہت بڑا درجہ تھا ، کسی بھی محدث کی عظمت شان کے لیے بڑی چیز ان کے اساتذہ ہیں ، حدیث میں ان کے شاگردوں کی تعداد ہے ، ان کی عالی سند ہے ، ان کی حدیث کے بارے میں احتیاط ہے ، ان سے مروی روایات کی سندیں ہیں ، امام صاحب رحمہ اللہ کو یہ سب چیزیں حاصل ہیں، دیگر ائمہ میں امام صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی اسانید وحدانی بھی ہیں جب کہ کسی امام کی سند وحدانی (ایک واسطے) والی نہیں ہے ، دیگر محدثین جن کی کتابوں کو حدیث کے باب میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے تو ان کی کتاب میں سب سے عالی سند ثلاثی (تین واسطے والی) ہے ، خود امام بخاری رحمہ اللہ جیسے عظیم الشان محدث کی سب سے عالی سند ثلاثی ہے ، اور اس میں بھی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی اکثر اسانید حنفیہ ہی سے منقول ہیں ، امام صاحب رحمہ اللہ کی کتاب الآثار میں اکثر روایات ثنائیات (دو واسطوں والی )ہیں ۔
پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث کے نقل کے بارے میں اس قدر محتاط تھے کہ ان کے ہاں شرط تھی کہ روایت نقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حدیث جس وقت سنی ہے، اس وقت سے لے کر اس کے سنانے تک اس کے تمام الفاظ یاد رہیں ، اگر درمیان میں کوئی الفاظ بھول گیا تو وہ روایت بیان نہیں کرسکتا ، اسی وجہ سے امام صاحب رحمہ اللہ نے روایتیں بھی کم بیان کی ہیں اور جو بیان بھی کی ہیں ان کے ناقلین اتنے بڑے محدثین ہیں کہ جن کی جلالت شان خود حدیث میں مسلّم ہے ، مثلاً عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اس کی تعریف کرتے ہیں ، امام ابویوسف رحمہ اللہ ، امام محمد رحمہ اللہ ، امام زفر رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر علماء نے ان سے کتاب الآثار کو نقل کیا ہے ۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اس احتیاط کو بعض ناسمجھ یہ کہہ بیٹھے کہ امام صاحب کا حدیث سے واسطہ نہیں ، حالانکہ امام صاحب ؒاگر قلتِ حدیث کی وجہ سے اس درجہ پر پہنچیں گے تو ان صحابہ کرامؓ کے بارے میں کیا رائے رکھی جائے گی جن سے روایت بہت ہی کم منقول ہیں ،ان کی قلت احتیاط کی بنیاد پر ، اور فقہ میں اس قدر بصیرت کے ہر مسئلے کے لیے دلیل موجود ہو ، اور فقہ کے لاکھوں مسائل کا استنباط کیا جارہا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لاکھوں مسائل صرف چند احادیث سے ہی مستنبط کیے گئے ہوں، درحقیقت ایسی صورت میں اگر کہنے والا امام صاحب کی توہین کرنا چاہتا ہے تو وہ توہین نہیں کررہا، بلکہ امام صاحب کی تعریف کررہا ہے کہ فقہی بصیرت اتنی تھی کہ چند احادیث سے لاکھوں مسائل نکال لیے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے امام ابوحنیفہ ؒکے فقہی مذہب کو وہ قبولیت عطا فرمائی کہ آج بھی دنیا میں اہل سنت میں سب سے زیادہ پیروکار فقہ حنفی ہی سے تعلق رکھتے ہیں ، یہ تاریخی ریاستوں کا بنیادی مذہب تھا ، سلطنت عثمانی ، ،مغلیہ سلطنت ، وسطی ایشیائی ممالک میں آج بھی فقہ حنفی رائج ہے ، اور اس کے پیرو کار خدمتِ دین میں مصروف ہیں ، یہ سب پیروی ایک ایسے شخص کی ہوئی جو خود عرب میں سے بھی نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق فارس سے اٹھے ، دین کی ترویج کی اور علم کو اوج ثریا تک پہنچایا ، اللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں کے اجر وثواب میں ان کا حصہ فرمائے۔(آمین وصلی اللہ علی النبی الامی الکریم )