• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”میں صدر کو ہر روز دیکھتا ہوں۔ میرا مکان صدر کی شبینہ قیام گاہ کے قریب ہی واقع ہے… میں نے بارہا صدر کے گہرے زرد چہرے پر مرتسم تفکر کی گہری لکیریں اور اس کی آنکھوں میں چھپی اداسی دیکھی ہے۔ صدر کے چہرے پر سجی مسکراہٹ میں اس کے اندرونی کرب کی خبر لگانا آسان نہیں ہوتا…“ عظیم امریکی شاعر والٹ وٹمن نے یہ سطریں 1863ء میں ابراہم لنکن کے بارے میں لکھی تھیں۔ میں بھی چاہتا تھا کہ پاکستان کے صدر آصف زرداری کے بارے میں ایسے ہی احترام اور اپنائیت کے ساتھ کچھ لکھوں اور انہیں، ایمرسن کے لفظوں میں، ان افراد میں شمار کروں جو جلسہ عام کی چکا چوند میں گرجنے دھاڑنے کی بجائے لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ گالی، دشنام اور طعنے برداشت کرتے ہیں اور خاموشی سے اداروں کی ایسی مضبوط بنیادیں رکھتے ہیں جن پر قوم کی آئندہ عظمت کی دیواریں اٹھائی جا سکیں۔ مگر ایسا کرنے میں دقت یہ ہے کہ آصف علی زرداری ایک منتخب سیاسی رہنما ہیں اور پاکستان میں سیاست دانوں کی تعریف لکھنا خوشامد کے ذیل میں آتا ہے۔ ہماری صحافتی روایت میں حمد و ثنا کے حقیقی حقدار صرف وہ سپوت رہے ہیں جو آئین کو روندتے ہوئے ایوان اقتدار میں جا دھمکیں، جو اپنی پتلون پر نفیس سی چھڑی سے داد شجاعت دیتے شاہراہ آئین پر سے گزریں اور پارلیمنٹ میں منحنی حزب اختلاف کی طرف دیکھ کر مکے لہرائیں۔ سیاست دانوں کی قسمت میں تو یہ لکھا ہے کہ کسی سورما کی غلطیوں کا شکار ہونے والے نوے ہزار قیدی غنیم کے چنگل سے رہا کرائیں اور اس خدمت کے صلے میں اڈیالہ کی پھانسی پر جھولیں۔ کسی برخود غلط نپولین کی کلف زدہ مہم جوئی کے ستم رسیدگان کو کارگل کے برف پوش جہنم سے نکال لائیں اور اٹک قلعے کے زندان میں سربہ زانو بٹھائے جائیں۔
سیاست دانوں پر حریت قلم آزمانے کی روایت اپنی جگہ، مگر آج موقع ہی کچھ مختلف ہے۔ آصف علی زرداری کے منصب کی آئینی میعاد پوری ہورہی ہے۔ نئے صدر مملکت کا انتخاب ہو چکا ہے۔ صدر زرداری پاکستان کے پہلے صدر ہیں جو آئینی طریقے سے منتخب ہوئے اور آئینی طریقہ کار کے مطابق آئندہ صدر کے لیے ایوان صدارت خالی کر رہے ہیں۔ چشم فلک نے یہ منظر کب دیکھا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم (مسلم لیگ کے سربراہ) رخصت ہونے والے صدر (پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن) کے اعزاز میں دعوت دیں اور اس میں ایک آدھ کے سوا سب جماعتوں کے نمائندے شریک ہوں گویا مئی 2006ء میں طے پانے والا میثاق جمہوریت آمریت کے خلاف عارضی حکمت عملی نہیں تھا۔ سیاسی قیادت کے مابین وسیع البنیاد آئینی مفاہمت کی بنیادیں اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں جتنی آدھی رات کے گیدڑ بیان کرتے ہیں ۔ آصف علی زرداری پاکستان کے پہلے منتخب صدر ہوں گے جنہیں پانچ برس تک مملکت کا محافظ اور فوج کا کمانڈر انچیف رہنے کے بعد ایوان صدر سے رخصتی پر گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا۔ ان سے پہلے صرف پرویز مشرف کے حصے میں گارڈ آف آنر آیا تھا۔ لیکن آصف زرداری کا ایک اعزاز ایساہے جو پرویز مشرف کا فلک بھی نہیں سوچ سکتا ۔ 8ستمبر کو آصف زرداری کو پاکستان کے تمام جمہوریت پسند شہری سلام پیش کریں گے ۔ گارڈ آف آنر تو مارے باندھے کی ایک رسم ہے ۔ شہریوں کا سلام قومی احترام کا اعلیٰ ترین نشان ہے اور صرف منتخب رہنما اس اعزاز کے مستحق ہوتے ہیں۔
آصف علی زرداری 1987ء میں بے نظیر بھٹو کے شریک حیات کی حیثیت سے قومی افق پر نمودار ہوئے تھے۔ جمہوری عمل میں سیاسی جماعتوں کی مخالفت معمول کا حصہ ہے۔ تاہم پاکستان کے مخصوص تاریخی پس منظر میں پیپلز پارٹی کی مخالفت محض جمہوری حق اختلاف سے کچھ آگے کی چیز رہی ہے۔ پیپلز پارٹی پاکستان میں آمریت کے خلاف جمہور کے حق حکمرانی کا استعارہ رہی ہے۔ دائیں بازو کی قوتیں ایک مدت تک پیپلز پارٹی کی مخالفت کے شوق میں آمریت کی مرغ دست آموز رہی ہیں۔ گمان کیا جانا چاہیے کہ اب یہ مکروہ روایت ختم ہو رہی ہے۔ بھٹو صاحب کے بعد بے نظیر نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی تو نام نہاد انکلوں کے ذریعے بھٹو کی قبر پر توپ رکھ کے انہیں نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ پھر ان مہربانوں کو آصف علی زرداری مل گئے جو بوجوہ ایک کمزور ہدف تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما کی اس قدر تسلسل کے ساتھ اور اتنی طویل مدت تک کردار کشی نہیں کی گئی جیسی آصف علی زرداری کے حصے میں آئی۔ غالباً خان عبدالغفار کو چھوڑ کر کسی سیاسی رہنما کو سیاسی عناد کی بنیاد پر اتنی طویل قید و بند کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آصف علی زرداری کو بدعنوانی کا استعارہ بنا دیا گیا۔ سیاسی مقدمات کا فیصلہ عدالتوں میں نہیں، تاریخ کے کٹہرے میں ہوتا ہے۔ تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ آصف زرداری پر کوئی ایک الزام ثابت نہیں ہو سکا۔
بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو پورا ملک ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا تھا ۔دوسرے صوبوں کے رہنے والے اندازہ نہیں کر سکتے کہ سندھ میں جذبات کی کیا کیفیت تھی ۔ آصف علی زرداری نے ”پاکستان کھپے“ کے دو لفظوں سے وفاق کو ایک بڑے بحران سے بچا لیا۔ اکبر بگٹی بے نظیر بھٹو نہیں تھے لیکن اکبر بگٹی کے قتل سے وفاق پاکستان اب تک نہیں سنبھل سکا ۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا المیہ شمار ہو گا کہ آصف علی زرداری کا تاریخی نعرہ ’پاکستان کھپے‘ بھی احمقانہ تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ۔ طالع آزما ؤں سے سیاست کی نزاکتیں سمجھنے کی توقع نہیں کی جاتی۔ 2008ء کے موسم گرما میں بہت کم حلقوں کو اندازہ تھا کہ پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد آصف علی زرداری صدارت کے امیدوار ہوں گے۔ ان کا یہ جرم کبھی بھلایا نہیں گیا کہ انہوں نے صدارت کا منصب سنبھال کر ٹین پارٹ مستریوں کا اسکرپٹ خراب کر دیا۔ آصف زرداری کا بطور صدر سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوریت کا پارلیمانی تشخص بحال کیا۔صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات کا توازن ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے ۔آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم کے ذریعے جمہوریت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پارلیمانی جمہوریت میں اختیارا ت کا سرچشمہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری نے وزیر اعظم کے منصب کو اس کے اختیارات لوٹا کر پاکستان کی شاندار خدمت کی۔ جمہوریت دراصل قومی نصب العین پر ایک وسیع البنیاد مفاہمت کا نام ہے۔ پاکستان میں یہ تصور بے نظیر بھٹو نے متعارف کرایا لیکن انہیں اس فلسفے کا عملی نمونہ پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
آصف زرداری نے اپنی پانچ سالہ صدارت میں جمہوری مفاہمت کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ اب ہمارے سیاسی عمل میں انتقام کی روایت کا احیا ٴ بہت مشکل ہوگا۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ اور حزب اختلاف کی طرف سے ہر نوع کی الزام تراشی اور بدگوئی کے مقابلے میں ایسے تحمل کا مظاہرہ کیا، جس کی ہماری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔قومی مالیاتی ایوارڈ میں قومی قیادت کی مدبرانہ رہنمائی کر کے آصف زرداری نے وفاق پاکستان کی ایک بڑی خدمت انجام دی۔ سب سے اہم یہ کہ آصف زرداری کو غیر سیاسی اداکاروں اور طالع آزماؤں کی شبانہ روز سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ایک دن ایسا نہیں گزرا کہ حکومت کو چین کا سانس لینے دیا گیا ہو۔ کبھی ایمبولینس میں واپس بھیجنے کی دھمکیاں دی گئیں اور کبھی ان کی حب الوطنی پر کیچڑ اچھالا گیا۔
آصف علی زرداری مثالی سیاسی رہنما نہیں ہیں اور نہ انہیں نظریہ ساز رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہیں انتظامی تجربہ بھی نہیں تھا۔ عوام سے رابطے کا فقدان ان کی قیادت کا ایسا کمزور پہلو تھا جو بالآخر پیپلز پارٹی کی انتخابی ناکامی پر منتج ہوا۔ وہ ایک عملی شخص ہیں اور دانش وارانہ پیچیدگیوں میں زیادہ درک نہیں رکھتے۔ آصف علی زرداری کی سیاست بنیادی طور پر پیوستہ پدر سری رسوخ اور سیاسی داؤ پیچ سے عبارت ہے۔ تاریخ میں ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا زیادہ صحیح محاکمہ سامنے آئے گا لیکن محاکمہ صرف آصف زرداری کا نہیں ہو گا۔ ستمبر آ گیا ہے۔ چند ہفتوں میں پت جھڑ شروع ہو گا تو نومبر اور دسمبر آئیں گے۔ نوح کے بیٹوں، برادران یوسف اور قرطبہ کے قاضی کی وہ کہانیاں کوچہ و بازار میں سنائی دیں گی جو منصب کے بلند بام اور اقتدار کی باجبروت فصیلوں میں ان کہی رہتی ہیں۔ اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔
تازہ ترین