• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل جتنی بھی سیاسی ملاقاتیں ہو رہی ہیں، اُن میں پرچیوں پر لکھ کر بات چیت کی جاتی ہے اور ملاقات کے بعد وہ پرچیاں آگ کی نذر کر دی جاتی ہیں۔ بند کمروں میں ہونے والی اِن ملاقاتوں میں اشاروں کنایوں میں بھی باتیں کی جاتی ہیں جن کا جواب صرف ہاں یا ناں میں ہوتا ہے۔ سیاسی ملاقاتوں میں اشارے زیادہ اس لیے استعمال کیے جا رہے ہیں کہ ایک تو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور دوسرا جدید ٹیکنالوجی سے لیس ماڈرن گاڑیوں نے زیادہ بات چیت کرنے سے محتاط کر دیا ہے، جبکہ میں گارنٹی سے کہتا ہوں، یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ عوام کو جن سوالات کے ارد گرد گھمایا جارہا ہے وہ یہ ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی پانچ سال کی مدت پورے کرے گی یا نہیں؟ عدم اعتماد ہوگا یا نہیں؟ صدارتی نظام آئے گا یا نہیں؟ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں؟ جنرل فیض حمید آرمی چیف بنیں گے یا نہیں؟ پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد آرہا ہے یا نہیں؟ پنجاب میں اگلے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز ہوں گے یا چوہدری پرویز الٰہی؟ بلاول اور زرداری شہباز شریف سے ملنے کیوں آئے، اور تو اور آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن کیوں چوہدری برادران کے گھر کے چکر لگا رہے ہیں، کیا معاملات طے پائے؟ مریم نواز اُس ملاقات میں کیوں موجود نہ تھیں؟ بلاول اور زرداری کیا پیغام لے کر آئے؟ چین سے وزیراعظم پاکستان کیا لے کر آئے؟ وزیراعظم کا چین کے صدر نے استقبال کیوں نہ کیا؟ وزیر اعظم روس کے دورے پر کیوں جا رہے ہیں، وزیراعظم صحافیوں کو بیرونی دوروں پر ساتھ کیوں نہیں لے کر جاتے؟ وزیر اعظم فارن فنڈنگ کیس میں نااہل تو نہیں ہو جائیں گے؟ ایم کیو ایم رہنما شہباز شریف اور پرویز الٰہی سے کیوں مل رہے ہیں؟ جہانگیر ترین گروپ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ عون چوہدری نے اپنے گھر میں سیاسی اکٹھ کیوں کیا؟مریم نواز ضمانت پر ہونے کے باوجود اتنی دبنگ باتیں کرتی ہیں؟ مریم نواز کے پیچھے کن قوتوں کا ہاتھ ہے؟ عمران خان کیوں آنے والے الیکشن سے پہلے شہباز شریف کو نااہل کرانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں؟ شہزاد اکبر کو کیوں ہٹایا گیا؟ فیصل واوڈا کیوں نااہل ہوئے؟ سعودی وزیر داخلہ کے دورۂ پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ اور اس کے فوری بعد ایران کے وزیر داخلہ کو شیخ رشید نے پاکستان کے دورے کی دعوت کیوں دی؟کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اجتماعی لانگ مارچ وہی ثمرات لائے گا جو طاہر القادری اور عمران خان کا لانگ مارچ دھرنا لایا تھا؟ ایسے دھرنے حکمرانوں کی گردن سے سریا نکالنے کے لیے دلوائے جاتے ہیں۔ آصف علی زرداری کا ایک الگ موضوع ہے، ڈالر کہاں جا کر رُکے گا؟ مہنگائی کم ہوگی یا نہیں؟ پیڑول کی قیمتیں کب کم ہوں گی؟ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے حوالے سے اٹھائے گے سوالات میں کتنی صداقت ہے؟ دہشت گردی کی نئی لہر پر کیسے قابو پایا جائے گا؟ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والے بیانیے کا کیا بنے گا؟

یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر زبان پر ہیں لیکن اِن سوالوں کے مستند جواب کسی کے پاس موجود نہیں، ہر کوئی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق پیش گوئیوں میں مصروف ہے۔ مجھے تو موجودہ صورت حال میں آنے والے الیکشن میں مقتدرہ کا شہباز شریف پر بہت زیادہ اعتماد نظر آرہا ہے۔ موجودہ حکومت عشق و محبت کے نتیجہ میں بنائی گئی تھی، اور ہر کوئی جانتا ہے عشق و محبت میں ایک وقت کے بعد کنفیوژن ہی کنفیوژن باقی رہ جاتی ہے۔ آج کل ہر طرف کنفیوژن کا ماحول ہے کہ شاید ہم سے غلطی ہو گئی ہے لیکن ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ میری دانست میں حکومتیں بنانے اور گرانے والے جو کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں لیکن جنرل (ر) کیانی نے یہ اچھی پالیسی بنائی تھی کہ ہر حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں۔ ڈھکوسلوں سے حکومتیں نہیں چلا کرتیں۔ افواہوں کے موسم میں ادارے کمزور ہو رہے ہیں، گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والے عام آدمی کے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور اس کے بعد تحریک انصاف بھی کامیابی کے ساتھ حکومت نہیں چلا سکتی تو پھر آخری آپشن کیا رہ جاتا ہے؟ یہاں تمام تر مسائل ذاتی پسند اور ناپسند کے ہیں، جس کی سزا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دی جارہی ہے۔ ایسے میں ترقی کا سفر کیسے طے ہوگا؟ الیکشن جب بھی ہوا گند بہت مچے گا۔ اِس حوالے سے جناب محمود شام نے بالکل درست لکھا کہ ہمارے لیے حبِ عمران اور بغضِ عمران دونوں ہی نقصان دہ ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ دوسرے کا نقصان کرکے ہی اپنا فائدہ حاصل کیا جائے، دوسرے کو نقصان سے بچاکر بھی تو اپنا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین