• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یادِ ماضی کو تو چھوڑیں حال ہی میں سیالکوٹ و خانیوال میں ہونے والے انتہا پسندی بلکہ دہشت گردی کے واقعات کو ہی سامنے رکھیں تو کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری شتر بےمہار سفاکیوں کی یہ داستانیں عالمی سطح پر دیکھی سنی نہیں جا رہیں؟ چنانچہ مسلمانوں کیساتھ بڑھتی ہوئی نفرت کے ذمہ دار دوسروں سے زیادہ مسلمان خود ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کی غلط اور یادِ ماضی میں غلطاں رہنے کی پالیسی نے صورتحال کو اِس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ آج ہر قسم کی دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ منسلک اور مسلمانوں کو بلا امتیاز دہشت گرد سمجھ لیا جاتا ہے۔ متمول، طاقتور، باتہذیب و باعمل اقوام کی نظر میں مسلمان اقوامِ عالم کے امن کیلئے خطرہ ہیں، گو کہ مسلم اقوام کا استدلال قدرے مختلف ہے لیکن اس کے باوجود اس عام تاثر سے صرفِ نظر کرنا آسان نہیں جو مسلمانوں کے متعلق بن چکا ہے۔

پاکستان ہو یا دیگر اسلامی ممالک، قومی وقار اور حمیت جیسے الفاظ ان ملکوں نے فقط کتابوں تک ہی رکھ چھوڑے ہیں، کیا ان حالات میں ضروری نہیں ہے کہ اس نکتے کو سیرت النبیؐ کی روشنی میں سمجھا جائے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ جب بھی ان الفاظ کی حرمت قائم کرنے کا عملی وقت آیا، مسلمان ممالک نے ثابت کر دیا کہ ان کی مجموعی سوچ اور سماج میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ ان الفاظ کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ آج کے دور میں جب امریکہ، برطانیہ اور یورپی اقوام کے نزدیک ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے انتہائی اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان سمیت دیگر مسلم اقوام کا اصرار ہے کہ ’’آزادی کی جدوجہد‘‘ اور دہشت گردی میں امتیاز کیا جانا چاہیے۔ یقیناً مسلمان ملکوں کا یہ مطالبہ غلط بھی نہیں ہے لیکن پھر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جب امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اس نے اپنے حلیف یورپی ممالک کی طرف سے کئی ایک مسلمان ممالک بشمول پاکستان پر یہ دباؤ ڈالا کہ پاکستان بھی اقوامِ متحدہ کے تحت القاعدہ اور طالبان کیخلاف جنگ میں شریک ہو تو اس وقت دوسروں سمیت پاکستان نے بھی دہشت گردی کی نئی امریکی تعریف کو من و عن تسلیم کر لیا تھا (یعنی دہشت گردی اور آزادی کی تحریک میں امتیاز نہ رکھنا) اور اب ایک دفعہ پھر مسلمان دبے سہمے لہجے میں خود کو اعتدال پسندی کے حامل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیے جانے کی سعی موہوم کر رہے ہیں لیکن آج کی تصویر یوں ہے کہ امریکہ و یورپی اقوام یہی تاثر دیتے ہیں کہ ہمارا ٹارگٹ اسلام یا مسلمان نہیں دہشت گرد ہیں!

اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اچھا بُرا وقت سبھی اقوام پر آتا ہے، کبھی کوئی ایک قوم سپر پاور ہوتی ہے تو کبھی یہ ’’تاج‘‘ کسی دوسری قوم اور مذہب کے ماننے والوں کے سر پر سج جاتا ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا، مسلمان بھی دنیا کی سپر پاور تھے۔ آج کے وقت کی مشکل یہ ہے کہ سوویت روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد طاقت کا توازن ایک ہی سپر پاور امریکہ کے پلڑے میں آچکا ہے، چنانچہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ سپر پاور کوئی بھی ہو، اس کی ’’زبان‘‘ اور مطالبات و احکامات لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ بڑی حد تک ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں، چنانچہ ایسے ماحول میں منقسم اور رو بہ تنزل مسلم امہ کو اپنی باعزت بقا کیلئے ہنگامی بنیادوں پر بعض ناگزیر فیصلے کرنا ہوں گے ۔ مثلاً قانون و انصاف پر مبنی معاشروں کا قیام، جھوٹ، مکرو فریب، بددیانتی سے پاک اور بنیادی انسانی حقوق کے قیام پر مشتمل اپنے معاشرتی ماحول کو پُرامن بنانے کی جدوجہد جہاں دینی اور ریاستی معاملات میں یکسر امتیاز رکھ کے ہر معاملے میں اجتہاد کو اہم ترین ضرورت مان کر مہذب دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی پالیسی کو مقدم ترین سمجھا جائے۔ بےجادہ ومنزل مسلمان ملکوں کی ایک ماضی قریب کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب 2015میں ترکی نے روس کا ایک جنگی جہاز یہ توجیہ پیش کر کے تباہ کر دیا کہ وہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا، جبکہ روس کا موقف تھا کہ ہمارے طیارے کے پائلٹ نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی۔ اب ہم لاعلم لوگ یہی سمجھتے رہے کہ روس کے اس طیارے کو گرانے میں ترکی کا ہاتھ ہے، حالانکہ “ہاتھ‘‘ تو کسی اور کا تھا، لیکن ’’کندھا‘‘ ترکی کا استعمال کیا گیا تھا اور اس بات کی گواہی امریکہ، برطانیہ و یورپ کا آزاد میڈ یا پکار پکار کر دے چکا ہے۔ روس کے صدر پیوٹن اس واقعہ سے بہت پہلے عندیہ دے چکے تھے کہ داعش کے پیچھے یعنی اس کے سپورٹر بھی امریکہ و برطانیہ یا یورپ کے بعض ممالک ہیں اور اس سارے بندوبست کا مطلب قبضے کی ہوس ہے۔ اس سوچ میں بھی یقیناً کوئی دو آرا نہیں کہ کئی معاملات میں مغربی استعمار مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں بھی روا رکھے ہوئے ہے لیکن وسیع کینوس پر دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں اس کی بنیادی ذمہ داری بھی مسلم اُمہ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ مغربی حکومتوں کی طرف سے اس قسم کے اقدامات کی وجوہات میں بھی کہیں نہ کہیں ’’ہماری‘‘ اپنی کوتاہیاں اور غلط حکمتِ عملیوں کا دخل ہے جن کی بنا پر بلا امتیاز ہر مسلمان کیخلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔

تازہ ترین