لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی زیرِ صدارت پاکستان پیپلز پارٹی، پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور فیڈرل کونسل کے اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال پر طویل مشاورت کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 27فروری کو مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ اگر چہ کچھ سیاسی پارٹیوں نے بھی مارچ کے آخری ہفتے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ اُس وقت بہت دیر ہو چکی ہوگی، پھر رمضان المبارک کا مہینہ بھی شروع ہو چکاہو گا لہٰذا اس دوران عوام کی مشکلات میں بےانتہا اضافہ ہو جائے گا۔
عمران خان کی حکومت ویسے تو سال میں لاتعداد بار منی بجٹ لاتی ہے جو عوام پر عذاب بن کر نازل ہوتتے ہیں مگر گزشتہ ماہ کا منی بجٹ اور قومی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی تو گویا ملک کی آزادی، خودمختاری پر سودے بازی اور عوام کے معاشی قتل کا پروانہ ہی ہے، اس لیے لازم ہو گیا ہے کہ اِس حکومت سے نجات حاصل کی جائے ۔ ستم گروں نے ایک خیالی نیا پاکستان بنایا اور عمران خان کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔ سیاسی خانہ بدوشوں کو اکٹھا کیا گیا، یہ اشرافیہ کا ایک اور تجربہ تھا۔ اس تجربے نے ملک کے بخیے ہی ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ 2018کے انتخابات کی ساکھ روز اول سے ہی متنازعہ ہے، ہمارے ہونہار نئے وزیراعظم نے ملک کی معیشت ٹھیک کرنے کے لیے ابتدائی طور پر وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں، بھینسیں بیچنا شروع کر دیں اور عوام کی زندگی میں معاشی خوشحالی لانے کے لیے بھینسیں، کٹے، مرغیاں اور انڈے تقسیم کرنے کی فلاسفی جھاڑی۔
کھلاڑی نے کہا کہ میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، پھر ہوا کیا؟ ملک کی معیشت ہی آئی ایم ایف کے حوالے کر دی۔ عمران خان کہتے تھے کہ ان کے پاس درجنوں معیشت کے ماہرین ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان معیشت کے ماہرین نے بھنگ میں ملک کی معاشی ترقی کا راز ڈھونڈ لیا۔ لاڈلے نے تو ملک کی نیا ہی ڈبو دی اور خارجہ امور کا شعبہ بھی یوں متاثر کیا کہ بھارتی وزیراعظم مودی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جارحیت کے خلاف کوئی ٹھوس خارجہ پالیسی دینے کی بجائے الٹا اس وقت پیدا ہونے والی قومی یکجہتی کو پارا پارا کر دیا۔ کلبھوشن کی ہی مثال لے لیجئے۔ وہ جاسوس تھا اور سخت سزا کا مستحق تھا۔ عمران خان نے پاکستان کے اس مضبوط مقدمے کو بھی کمزور کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب غریب کو پیٹ بھر کر روٹی بھی میسر نہ ہو پھر وہ کیسے مانے گا کہ ملک کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے؟ آسان سی بات ہے کہ ملک کی معیشت مضبوط ہے یا نہیں کا اندازہ ملک کا ہر فرد اپنی آمدنی سے لگا سکتا ہے۔ آمدنی سے اگرتمام اخراجات پورے ہو جاتے ہیں اور کچھ روپے بچ جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے۔ ماہانہ آمدنی سے اگراخراجات پورے ہو جائیں تو پھر اس کا مطلب یہ لینا چاہیے کہ معیشت مستحکم ہے مگر جب ماہانہ آمدنی چند ہی روز میں ختم ہو جائے تو اس کا مطلب معاشی تباہی ہے۔ آج یہی حالات ہیں کہ عام آدمی کی زندگی دشوار ہو چکی ہے۔ اگر وہ اپنی آمدنی سے بچوں کی فیس ادا کرے تو پھر گھر کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا۔ بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر عام آدمی کے ہوش اڑ جاتے ہیں جبکہ پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے سفر مہنگا ہو گیا ہے، اس کے اثرات سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کپتان نے ملک اور قوم کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اِس وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جائے۔
میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ملک کو قابل اور لائق لیڈر کی ضرورت ہے، گملے میں اگائے جانے والے سیاستدانوں کو جادوگری یا دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعے حکمران تو بنایا جا سکتا ہے مگر وہ لیڈر نہیں بن سکتے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میرا مقصد اپنی پارٹی کے حریفوں یا سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانا نہیں، میرا کہنا یہ ہے کہ لیڈر جنم لیتے ہیں، انہیں اپنی جان اور زندگی کی بجائے اپنے ملک اور قوم کی فکر ہوتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین کو چاہیے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے بغض کی آگ میں جلنے کے بجائے قدرت سے شکوہ کریں کہ لیڈر شپ اور کرشمہ ساز قیادت صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں ہی کیوں آئی؟ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت دراصل خلقِ خدا کی خدمت کو عبادت سمجھتی ہے، اس لیے تو روٹی کپڑا اور مکان کے منشور پر کل بھی عمل پیرا تھی، آج بھی ہے اور کل بھی عمل پیرا رہےگی۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا شہید اور والدہ شہید کے فلسفے پر ثابت قدم ہیں۔ اُن کا موقف یہ ہے کہ تعلیمی قابلیت کے بنیاد پر ملازمت، محنت کی بنیاد پر اجرت سب سے اہم طبقاتی امتیاز سے پاک انسانوں کی عزت، مجھے یقین ہے میری پارٹی کے نوجوان قائد کا یہ بیانیہ اس دھرتی کو زندہ انسانوں کیلئے جنت بنانے کیلئے سنگِ میل ثابت ہوگا۔