• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

شاذلیہ یا شادلیہ، تصوّف کا ایک معروف سلسلہ ہے۔ پاکستان کے اہلِ طریقت میں اِس سلسلے کا زیادہ رواج نہیں ہے، تاہم، تُرکی اور کئی عرب ممالک میں شاذلی مشائخ کی بہت سی خانقاہیں ہیں، جن سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں۔یہ سلسلہ،شیخ ابوالحسن علی شاذلی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے، جو ساتویں صدی ہجری کے ایک معروف بزرگ ہیں۔

خاندان، تعلیم

شیخ ابوالحسن شاذلیؒ 593 ہجری، 1196 ء میں شمالی مراکش کے قصبے، سبتہ( SEBTA)میں پیدا ہوئے۔تاہم، یہ شہر اِن دنوں اسپین کے زیرِ قبضہ ہے اور اسے CEUTA کہا جاتا ہے۔یہ علاقہ تاریخ میں الریف ( Rif) کے نام سے بھی معروف ہے۔اُن دنوں یہ بربر قبائل کا مرکز تھا، البتہ آپؒ کے والد ایک معزّز عرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کا نسب، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔بعض روایات کے مطابق، آپؒ کے والد کا وہاں کے شاہی خاندان سے تعلق تھا۔ مؤرخین نے شجرۂ نسب یوں بیان کیا ہے، ابوالحسن علی بن عبد الله بن عبد الجبار بن يوسف۔ 

چھوٹی عُمر ہی میں قرآنِ پاک حفظ کرلیا۔ پھر مقامی اور فاس(Fes) کے علماء سے دینی تعلیم حاصل کی۔کچھ ہی عرصے میں فقۂ مالکی کے ایک بڑے عالم کے طور پر سامنے آئے۔دینی علوم پر اتنا عبور تھا کہ بڑے بڑے علماء سے مختلف مسائل پر کام یاب مناظرے کرتے۔روایات کے مطابق، مطالعے کے اِس قدر شوقین تھے کہ اسی سبب جوانی میں بصارت سے محروم ہو گئے۔ تاہم، کئی سوانح نگاروں کے مطابق، یہ واقعہ بہت بعدمیں اسکندریہ میں پیش آیا تھا۔

راہِ تصوّف کا انتخاب

آپؒ عالم، فاضل ہونے کے ساتھ بہت عبادت گزار بھی تھے۔ ایک روز خیال آیا کہ کیوں نہ وقت کے کسی قطب سے ملاقات کرکے راہِ سلوک طے کی جائے۔ چوں کہ اُن دنوں بغداد کا بہت چرچا تھا، تو اُسی جانب چل پڑے۔ وہاں ایک بزرگ، شیخ ابو الفتح الوسطیؒ سے ملاقات ہوئی، تو اُنھیں اپنی اِس خواہش سے آگاہ کیا، جس پر اُنھوں نے فرمایا،’’ قطب تو تمھارے علاقے ہی میں موجود ہیں، اُن سے اکتسابِ فیض کرو۔‘‘ اِس مشورے پر واپس اپنے علاقے چلے آئے اور عراقی بزرگ کے مشورے پر شيخ عبدالسّلام بن مشيشؒ کی تلاش شروع کردی، جو اُس زمانے کے بہت بڑے عالم اور صوفی بزرگ تھے۔

وہ حضرت شیخ ابو مدین مغربیؒ کے مرید تھے، جن کی حج کے دَوران حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ملاقات ہوئی تھی اور روایات کے مطابق، اُنھوں نے ابو مدینؒ کو خلافت بھی عطا کی تھی۔اُن دنوں شیخ عبدالسّلامؒ شہر کی بجائے ایک پہاڑ پر رہا کرتے تھے، تو حضرت شاذلیؒ بھی اُنھیں تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچ گئے۔ پہلے وضو کیا اور پھر اوپر چڑھنے لگے، دیکھا کہ شیخ صاحبؒ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھے قرآنِ پاک کی تلاوت کر رہے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے پہاڑ بھی وجد میں ہو۔

شیخ نے اُنھیں دیکھ کر فرمایا،’’ تم ناپاکی کی حالت میں ہمارے پاس نہیں آسکتے، جاؤ، پہلے وضو کرو۔‘‘وہ کوئی جواب دینے کی بجائے واپس پلٹے اور دوبارہ وضو کر کے شیخ کے پاس جاپہنچے۔ اُنھوں نے دوسری بار قدرے سخت لہجے میں کہا،’ تمھیں کہا تو ہے، پہلے خود کو پاک کرو، پھر یہاں آؤ۔‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئے کہ دو بار وضو کر چُکا، پھر بھی پاکی کا کیوں کہا جا رہا ہے؟ اِسی اثنا، بجلی کی سی تیزی سے ایک خیال ذہن میں آیا اور وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ 

اب کی بار وضو کے ساتھ اپنے تمام سابقہ خیالات، نظریات اور خواہشات دھو کر شیخ کے پاس گئے، تو اُنھوں نے اپنے قریب بٹھا لیا اور پھر ایسی توجّہ دی کہ حضرت شاذلیؒ کے بقول،’’ اللہ نے میری اندرونی آنکھ کھول دی۔‘‘آپؒ کئی برس شيخ عبدالسلام بن مشيشؒ کی صحبت میں رہے اور پھر اُن سے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔آپؒ نے دیگر مشائخ سے بھی فیض حاصل کیا اور اویسی طریق پر بھی سلوک کی منازل طے کیں۔کسی نے پوچھا،’’آپؒ نے روحانی تربیت کہاں سے حاصل کی ؟‘‘ تو جواب دیا،’’ مَیں نے حضرت عبد السّلام بن مشیشؒ کی صحبت میں رہ کر فیوض وبرکات حاصل کیے،تاہم، اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عُمرفاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ ، حضرت علی المرتضیٰ ؓ،حضرت جبرائیلؑ، حضرت میکائیلؑ، حضرت اسرافیلؑ اور حضرت عزرائیلؑ سے بھی روحانی طور پر فیض پایا۔‘‘

سفر، آزمائشیں

حضرت شاذلیؒ چند برس بعد مرشد کے حکم پر تیونس چلے گئے، جہاں شادلہ کے مقام پر ٹھہرے۔ اِسی مقام کی نسبت سے آپؒ ’’ شادلہ‘‘ یا ’’شاذلیہ‘‘ کہلائے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے اِس مقام کو آپؒ کا جائے ولادت قرار دیا ہے، جو درست نہیں۔ اِس نقل مکانی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مراکش میں حالات سازگار نہیں رہے تھے اور بعض روایات کے مطابق، شیخ عبدالسلام بن مشیشؒ شہید کردیے گئے تھے۔

بہرحال، آپؒ نے شاذلیہ میں زوایہ( خانقاہ) قائم کرکے طالبین کی تربیت شروع کردی اور سب سے پہلے 40 مریدین کا انتخاب کیا، جو ’’چالیس دوست ‘‘کے نام سے مشہور تھے۔جب کہ وہاں کے مشائخ سے بھی ملاقاتیں کرکے اپنی روحانی پیاس بُجھاتے رہے۔ اِس ضمن میں شیخ ابو سعید الباجیؒ کا نام نمایاں ہے۔ فرماتے ہیں،’’ جب مَیں تیونس میں داخل ہوا، تو وہاں کے شیوخ کے پاس بھی گیا، مگر اُن میں سے کسی کو ایسا نہ پایا، جو جانتا ہو کہ مَیں کس چیز میں اُلجھا ہوا ہوں، سوائے شیخ الصالح ابو سعید الباجیؒ کے، لہٰذا مَیں نے اُن کی پیروی کی اور اُن سے بہت فائدہ اٹھایا۔‘‘ 

ابو سعید الباجیؒ مریدین کا وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ جب وفات پائی، تو اُن کے مریدین بھی حضرت شاذلیؒ کے دامنِ فیض سے وابستہ ہوگئے۔آپؒ کو تیونس میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اور طالبین دُور دُور سے آپؒ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ یہ صُورتِ حال جہاں بہت سے افراد کے لیے حسد کا باعث تھی، تو وہیں حکم رانوں نے بھی اسے ایک سیاسی خطرے کے طور پر لیا۔آپؒ پر طرح طرح کے علمی نوعیت کے الزامات عاید کیے جانے لگے اور پھر بات مقدمے تک جا پہنچی۔ حکومت اُنھیں قید یا شہید کرنے کے درپے تھی، تاہم، آپؒ وہاں کے حاکم کے بھائی کے مشورے پر کچھ ساتھیوں کے ساتھ تیونس سے اسکندریہ( مِصر) چلے گئے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ بعض علماء کی مخالفت کے باوجود تیونس کے سلطان، ابو زکریا حفصی آپؒ کا معتقد تھا اور اُس نے آپؒ کو کسی صُورت پریشان نہیں کیا تھا، بلکہ آپؒ نے ایک خواب کی بنیاد پر تیونس سے اسکندریہ ہجرت کی۔فرماتے ہیں،’’ مَیں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، تو آپؐ نے فرمایا’’اے علی، مِصر جاؤ اور وہاں چالیس صدیقین کے درجات بلند کرو۔‘‘ مَیں نے عرض کیا،’’اے اللہ کے نبیؐ، وہاں گرمی بہت ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’ بادل تم پر سایہ کریں گے۔‘‘ 

مَیں نے پھر گزارش کی،’’ پیاس سے ڈرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’ آسمان تمہارے لیے بارش برسائے گا۔‘‘پھر آپؐ نے اس سفر میں میرے لیے بہت سی کرامات کی بھی نوید دی۔ چناں چہ مَیں نے اپنے پیروکاروں کو مِصر جانے کی تیاری کی ہدایت کی۔‘‘ لیکن مصر میں بھی حالات اُن کے لیے سازگار نہیں تھے۔ ابھی وہاں پہنچے بھی نہیں تھے کہ تیونس سے وہاں کے حکم رانوں کے نام خطوط آنے لگے، جن میں آپؒ کے خلاف بھڑکایا گیا تھا، اسی سبب آپ ؒکو ابتدائی دنوں میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر جلد بچھائے گئے جال ایک ایک کرکے ٹوٹتے گئے، یہاں تک کہ مصر کے حکم ران آپؒ کے معتقد ہوگئے اور آپؒ کو رہائش و خانقاہ کے لیے اسکندریہ میں وسیع زمین کا نذرزانہ پیش کیا۔

شخصیت، تعلیمات

آپؒ گندمی رنگ کے حامل، دبلے پتلے اور دراز قد تھے۔اندازِ گفتگو بے حد شیریں تھا۔ اعلیٰ درجے کے گھوڑے پر سوار ہوتے، عمدہ لباس زیبِ تن کرتے۔ فرماتے تھے،’’ اللہ کو پہچانو اور پھر جیسے چاہو، رہو۔ پس، جس نے اللہ کو پہچان لیا، اگر وہ اچھی طرح کھائے، تو کوئی حرج نہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ نے بہت مقبولیت سے نوازا تھا، جب گھر سے نکلتے، تو لوگوں کا ہجوم ساتھ ہوتا۔ کئی حج کیے۔اُس دور کے بہت سے صوفیا میں کام کاج کو دنیا داری سمجھا جاتا تھااور وہ مریدین کو مانگ تانگ کر جیسے تیسے وقت گزارنے کی تعلیم دیتے تھے، مگر آپؒ نے اس کی سختی سے ممانعت کی۔ بہت خود دار تھے۔ 

اپنی روزی روٹی کا خود بندوبست کرتے اور مریدین کو بھی اس کی ہدایت کرتے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کا کوئی ذریعۂ معاش نہ ہوتا، تو اُسے اپنی مریدی میں قبول نہ کرتے۔ترکِ دنیا کے خلاف تھے۔فرماتے تھے، دنیا کے کام کاج میں مصروف رہتے ہوئے ہی اللہ کو یاد رکھو۔ ایک روز کسی کو مجاہدے کے طور پر گرم پانی پیتے دیکھا، تو اُسے نرمی سے تنبیہ کی،’’ میرے بیٹے! ٹھنڈا پانی پیو، اِس طرح تمھارے جسم کے تمام اعضا اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے۔‘‘

کہتے تھے،‘‘ دنیا کے کام کاج سے مت بھاگو، ایسا نہ ہو کہ تاریکی(فقر) تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے۔‘‘ قہوہ بہت شوق سے پیتے تھے، بلکہ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ قہوہ آپؒ ہی کی ایجاد ہے اور آپؒ کے سبب اِسے بہت فروغ ملا۔کہا جاتاہے کہ آپؒ نے ایک سفر کے دوران کچھ پرندوں کو عجیب سے سرورو مستی میں دیکھا، تو اس کا سبب تلاش کرنے کی طرف متوجّہ ہوئے۔ معلوم ہوا، یہ سب اُن پتیوں کا کمال ہے، جو اُن پرندوں کی خوراک بنتی ہیں،تو آپؒ نے بھی اُن پتیوں یعنی قہوے کا استعمال شروع کردیا۔

جہاد

حضرت ابوالحسن شاذلیؒ صرف خانقاہ نشین یا کوئی واعظ ہی نہیں تھے، بلکہ ایک مردِ مجاہد بھی تھے۔صلیبی جنگوں کے دوران عوام کو جہاد میں حصّہ لینے کی ترغیب دیتے اور خود بھی عملی طور پر المنصورہ کی جنگ میں شامل ہوئے، جو فرانس کے بادشاہ لوئس کی سربراہی میں حملہ آور صلیبی فوج کے خلاف لڑی گئی تھی۔ آپؒ اپنے مریدین کے ساتھ اگلی صفوں میں رہ کر دادِ شجاعت دیتے رہے۔ اِس جنگ میں مسلمانوں کو کام یابی حاصل ہوئی تھی۔باقاعدہ جنگ سے قبل آپؒ نے سپاہیوں کے سامنے ایک پُرجوش خطبہ بھی دیا۔

حزب البحر

حضرت ابوالحسن شاذلیؒ نے زیادہ کتب نہیں لکھیں۔کسی نے کتاب نہ لکھنے کی وجہ پوچھی، توجواب دیا،’’میرے ساتھی ہی میری کتابیں ہیں‘‘تاہم، اِس کے باوجود اُن کی بعض کتب نے بہت مقبولیت حاصل کی، خاص طور پر ’’حزب البحر‘‘ تو تواتر کے ساتھ اہلِ تصوّف اور عوام میں مقبول ہے۔امام عبدالوہاب شعرانیؒ سمیت بہت سے علماء اور بزرگوں نے لکھا ہے کہ دعائے حزب البحر آپؒ کو سفرِ حج کے دوران نبی کریم ﷺ نے خواب میں سِکھائی تھی۔ بزرگانِ دین نے اِس دعا کے بہت سے فوائد کا ذکر کیا ہے، جیسے وسعتِ رزق اور حفاظت وغیرہ۔ حضرت شاذلیؒ مریدین کو ہدایت کرتے کہ ’’حزب البحر اپنے بچّوں کو سکھاؤ۔

بے شک، اِس میں اسمِ اعظم ہے۔‘‘اِس دعا کے پڑھنے کے بہت سے طریقے ہیں، تاہم، یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جعلی صوفیوں اور عاملوں نے اِس وظیفے یا دُعا کے نام پر بہت سے لوگوں کو گم راہ کیا ہے۔ ایک طرف تو وہ اُن کے ایمان سے کھیلتے ہیں، تو دوسری طرف، اُن کی جیب بھی خالی کرتے ہیں، لہٰذا، اِس طرح کے وظائف صرف اُن علماء اور بزرگانِ دین ہی کی ہدایات کے مطابق پڑھنے چاہئیں، جو قرآن وسُنت کی پیروی میں معروف ہوں۔چوں کہ شاذلی سلسلے میں عملیات وغیرہ باقی سلاسل کی نسبت زیادہ ہیں، اِس لیے بھی عوام کو محتاط رہنا چاہیے کہ جو شخص خود کو شاذلی سلسلے کا مسند نشین کہلواتا ہے، کیا وہ واقعی اِس سلسلے کی حقیقی تعلیمات کا پابند ہے یا صرف اپنے مفادات کے لیے اِس کا نام استعمال کیا جارہا ہے۔

وفات

حضرت شاذلیؒ 656ہجری، 1258ء میں اسکندریہ سے حج کے لیے روانہ ہوئے، مگر راستے ہی میں حمیترا(Humaithara) میں بیمار ہوئے اور 63 برس کی عُمر میں انتقال کرگئے۔ وفات سے قبل غسل کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، دوسری رکعت کے آخری سجدے میں تھے کہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ وہیں آپؒ کا مزار ہے۔ یہ مقام مصر کے معروف شہر، اسوان سے 228 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آپؒ کے تین بیٹے، شہاب الدّین احمد، ابو الحسن علی، ابو عبداللہ محمّد اور زینب نام کی ایک بیٹی تھی۔