• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اگرچہ اس وقت اپوزیشن کے لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی ممکنہ تحریک کے حوالے سے ہونے والے سیاسی جوڑ توڑ کی خبریں چھائی ہوئی ہیں لیکن وزیر اعظم عمران خان کی مکمل توجہ ملک کے معاشی استحکام اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے پر ہے۔ اس سلسلے میں رواں ماہ کے آغاز میں انہوں نے پہلے، قوم سے اپنے تاریخی خطاب میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کا اعلان کیا اور اس سے اگلے دن نئے انڈسٹریل پیکیج کا اعلان کر کے اپنی ترجیحات واضح کر دیں۔ یہ اقدامات جہاں تحریک انصاف کی حکومت کے سیاسی اعتماد کے مظہر ہیں وہیں ان سے ملک کی بہتر ہوتی معاشی صورتحال کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے پیش کئے گئے نئے انڈسٹریل پیکیج میں دو بنیادی نکات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ سرمائے کو پیداواری سرگرمیاں بڑھانے کے لیے گردش میں لایا جائے جبکہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کاروبار کرنے کے لیے افسر شاہی کے ضابطوں کو بہتر بنایا جائے تاکہ یہ انڈسٹریلائزیشن میں رکاوٹ بننے کی بجائے اس کے لیے سہولت فراہم کرنے کا باعث بن سکیں۔ اندسٹریل پیکیج میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں میں سرمایہ کاری پر خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح بیمار صنعتی یونٹوں کی بحالی کے لیے سرمایہ کاری پر بھی مراعات دی گئی ہیں اور اس حوالے سے سرمایہ کاری کرنے والوں سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ٹیکس کی شرح کو کم کرکے ٹیکس نیٹ بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ اس پیکیج سے صنعتی شعبے کو ترقی کرنے اور درپیش چیلنجز سے نپٹنے میں مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں جہاں صنعتی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے گی وہیں ملکی برآمدات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ وزیر اعظم کے صنعتی پیکیج کے تحت بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی کے لیے تجویز کردہ اقدامات سے گزشتہ دہائی میں مشکل حالات کے باعث بند ہونے والے صنعتی یونٹس کی بحالی میں مدد ملے گی۔ ان بیمار صنعتی یونٹس میں سے کچھ کی بحالی پر پہلے سے ہی کام جاری ہے لیکن اب دیگر غیر فعال صنعتی یونٹس کی بحالی کی بھی قوی امید پیدا ہو گئی ہے۔ بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی سے جہاں پیداواری حجم میں اضافہ ہو گا وہیں ایک لاکھ کے قریب ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور برآمدی حجم بڑھنے سے مزید ڈیڑھ ارب ڈالر کا قیمتی زرِمبادلہ حاصل ہو گا۔حکومتی اقدامات کی وجہ سے ایکسپورٹ سیکٹر میں بہتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم 21 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کا ہدف حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں مجموعی برآمدات کا حجم 25.88 فیصد اضافے کے ساتھ 20.54 ارب ڈالر سے زائد رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔وزیر اعظم کے انڈسٹریل پیکیج کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بہترین مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں براہِ راست یا کسی مقامی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کی شکل میں سرمایہ کاری کرنے پر پانچ سال تک کے لیے ٹیکس ادائیگی میں چھوٹ دی گئی ہے تاکہ وہ بلا خوف وخطر اپنا سرمایہ پاکستان لا کر ملک کی معاشی ترقی میں کردار اد ا کر سکیں۔ یہ اقدام اس لحاظ سے بھی قابل تحسین ہے کہ پاکستان صنعتی طور پر تب ہی ترقی کر سکے گا جب بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنا سرمایہ لے کر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ اسی طرح وزیر اعظم نے آئی ٹی انڈسٹری اور فری لانسنگ کے شعبے پر بھی خصوصی فوکس کرتے ہوئے اچھے اقدامات کئے ہیں۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کا آئی ٹی سیکٹر اپنے ہمسایہ ممالک کی طرح تیزی سے ترقی کرے گا جس سے ملک میں روزگار کے مواقع بڑھنے کے ساتھ ساتھ زرِمبادلہ کے حصول میں بھی بہتری آئے گی۔ قبل ازیں آئی ٹی انڈسٹری کو بھی پالیسی سازی کی سطح پر روایتی انداز میں دیکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے یہ سیکٹر تیز ترین شرح نمو کی استعداد رکھنے کے باوجود اس رفتار سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا جیسا کہ اسے بڑھنا چاہیے تھا۔ اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں اب تک 70 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس سیکٹر میں مزید شرح نمو کی کافی گنجائش موجود ہے۔ اس کے لیے آئی ٹی سیکٹر کو مراعات دینے کے ساتھ ساتھ آئی ٹی پروفیشنلز کے لیے بوٹ کیمپ لگانے اور یونیورسٹیوں کی سطح پر سیلیبس کو بہتر بنانے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس سے قبل کسی حکومت نے برآمدات بڑھانے اور صنعتی ترقی کے لیے کوئی لانگ ٹرم پلاننگ نہیں کی تھی جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر ہمیشہ دبائو کا شکار رہتے تھے اور پاکستان کو اپنی درآمدات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دوست ممالک یا آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اپنی انڈسٹریل بیس بڑھائے بغیر غربت کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکا۔ ہمیں اگرمعاشی آزادی اور پائیدار ترقی کی منزل حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے پاکستان کی مینوفیکچرنگ بیس کو جی ڈی پی کے 25 فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے جو اس وقت 13 فیصد تک محدود ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آنا شرو ع ہو گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی مہم جوئی میں بھی تیزی آئی ہے کیونکہ انہیں یہ نظر آ رہا ہے کہ اس حکومت نے اگراپنے پانچ سال پور ے کر لیے تو شاید پھر اپوزیشن کو اگلے پانچ سال بھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے وزیر اعظم عمران خان کی طرح میں بھی آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔

تازہ ترین