کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت کو بیل آؤٹ پیکیج دینا اب کسی کیلئے ممکن نہیں ہے،پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ ایم کیو ایم کے مطالبات میں ایسی کوئی بات نہیں جو ناقابل عمل ہو، سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ حکومتی جلسے کا مطلب ہے کہ وہ یہاں خونریزی کروانا چاہتی ہے، ایک طرف پی ٹی آئی تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن کے ہزاروں کارکن ہوئے تو تصادم ہوسکتا ہے، سینئر صحافی و تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ حکومت کیلئے مسلسل خطر ے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کو بیل آؤٹ پیکیج دینا اب کسی کیلئے ممکن نہیں ہے، وزیراعظم کی گھبراہٹ کا پیمانہ ہر اتحادی کے پاس جانے سے زیادہ ان کی گفتگو ہے، وہ کبھی بندوق کی دھمکی تو کبھی دس لاکھ لوگوں کا ڈراوا دے رہے ہیں، عمران خان وہی حرکت کررہے ہیں جو ہٹلر جرمنی میں اپنی اپوزیشن کو دبانے کیلئے کرتے تھے، اتحادیوں کے ساتھ گفتگو میں وہ ہمارے حق میں نظر آئے ہیں۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس 172سے زائد ووٹ ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں عدم اعتماد میں حکومتی اتحادی بھی ساتھ دیں، الیکشن کے بعد اصلاحات کیلئے وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے، سب کا اتفاق ہے کہ حکومت کو نکالنا ضروری ہے، حکومت مزید ڈیڑھ سال رہی تو ملک دلدل میں دھنس جائے گا، حکومت مزید ڈیڑھ سال چلائی گئی تو اصلاحات نہیں ہوسکیں گی، تحریک عدم اعتماد کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز اتفاق کریں گے کہ بحران کا حل فوری الیکشن میں ہے، ن لیگ دو تہائی اکثریت سے بھی کامیاب ہو تب بھی وسیع البنیاد حکومت بنانا چاہے گی، تمام جماعتوں کااشتراک عمل الیکشن کے بعد بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں، حکومت نے کہا کہ دس لاکھ لوگ لائیں گے اور دباؤ ڈالیں گے، ہم پر بھی فرض ہے کہ اپنے ایم این ایز کے تحفظ کیلئے کارکنوں کو لے کر آئیں، سپریم کورٹ کو حکومتی وزراء کے بیانات پر ازخود نوٹس لینا چاہئے، حکومت رکن اسمبلی کے آزادانہ طور پر حق رائے دہی استعمال کرنے کے آئینی حق پر حملہ آور ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ ایم کیو ایم کے مطالبات میں ایسی کوئی بات نہیں جو ناقابل عمل ہو، ایم کیو ایم کو بھی احساس ہے کہ اس کے مطالبات پر فوری عملدرآمد ممکن نہیں ہے البتہ ٹائم فریم طے ہوسکتا ہے، ایم کیو ایم سمجھتی ہے ملازمتوں میں شہری سندھ کے چالیس فیصد کوٹے پر عمل نہیں ہورہا، ہم اس پر ایم کیو ایم کے شواہد دیکھنے کو تیار ہیں اگر زیادتی ہوئی ہے تو اسے ٹھیک کریں گے، ایم کیوا یم نے جعلی ڈومیسائل کی بات کی اس پر ہمارا بھی تحفظ ہے، لوکل پولیسنگ کی بات کی گئی وہ بھی فوری ہونے والا کام نہیں ہے، جعلی اور بے بنیاد کیسوں کی جہاں تک بات ہے اس پر بھی ہم نے انکار نہیں کیا۔سعید غنی کا کہنا تھا کہ بنیادی قدم دونوں جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد کو ختم کرنا ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ ڈاکومنٹس بنالیں اور دونوں جماعتیں دستخط کرلیں، ایم کیو ایم سے میٹنگ میں ہمارے ساتھ ضمانتی کی کوئی بات نہیں ہوئی،سندھ کے بہت سے ایشوز ایسے بھی ہیں جن کا تعلق وفاق سے ہے،تحریک عدم اعتماد سے قطع نظر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں طویل مدتی ورکنگ ریلیشن شپ ہونی چاہئے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کی اپوزیشن کے ساتھ بن گئی ہے، بی اے پی کا 80فیصد اپوزیشن جبکہ 20فیصد حکومت کی طرف جاسکتا ہے، جی ڈی اے حکومت کے ساتھ ہی رہے گی، اتحادیوں کو اپنے فیصلے کا اعلان کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے ، حکومت جانتی ہے کہ اس کے دس ارکان ن لیگ ،پانچ ارکان پیپلز پارٹی اور چار ارکان مولانا کے ساتھ عہد و پیماں کرچکے ہیں، حکومتی جلسے کا مطلب ہے کہ وہ یہاں خونریزی کروانا چاہتی ہے، ایک طرف پی ٹی آئی تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن کے ہزاروں کارکن ہوئے تو تصادم ہوسکتا ہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ حکومت کیلئے مسلسل خطر ے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، موجودہ صورتحال میں ہر گزرتا گھنٹہ حکومت پر بھاری پڑرہا ہے، اتحادیوں کی اپوزیشن کے ساتھ انڈراسٹینڈنگ ہوچکی ہے،حکومتی حلقوں کو بھی علم ہے کہ اتحادیوں کا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے، اپوزیشن میں بحث چل رہی ہے کہ ان حکومتی ارکان کو سامنے لایا جائے یا نہیں جو حکومت کا ساتھ دینا چاہ رہے ہیں۔فہد حسین کا کہنا تھا کہ حکومت پارلیمنٹ کے باہر لوگ جمع کر کے ایک آئینی عمل میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے، کیا عمران خان خود امپائرز کو بلارہے ہیں کہ وہ آکر معاملہ سلجھائیں۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمنٹ میں مقابلہ سے پہلے سڑکوں پر تصادم کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے، پہلے حکومت نے اعلان کیا کہ اسپیکر تحریک انصاف کے ارکان کے ووٹ قبول نہیں کریں گے، لیکن جب اسپیکر کو اسمبلی سیکرٹریٹ سے بھی یہی رائے دی گئی کہ قانون کے مطابق کسی کو نہ ووٹ دینے سے روکا جاسکتا ہے نہ ہی ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی کا ووٹ نہ گنا جائے تو پھر حکومت نے 27مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر جلسے کا اعلان کردیا۔