ڈاکٹر سیّد عطا اللہ شاہ بخاری
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب، شفیع المذنبین، رحمۃ اللعالمین ﷺ کی امت کو بے شمار انعامات سے نوازا ہے، بلکہ یوں کہئے! کہ اس اُمت پر انعامات کی بارش فرمائی ہے، اس امت کو اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے اعلیٰ‘ اجمل‘ اکمل‘ افضل‘ اشرف اور برتر نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ عطا فرمایا، جنہیں تمام انبیاء کی امامت‘ قیادت‘سیادت اور ختم نبوت کے اعلیٰ ترین اعزاز سے سرفراز فرمایا اور ان کی امت پر وہ لطف و کرم فرمایا جو کسی امت کو حاصل نہ ہوا۔ پھراس امت کو ایسے بابرکت مہینے و ایام عطا فرمائے جس میں عبادت کو ہزار سال کی عبادت کے برابر قرار دیا گیا ،کسی دن کو تمام دنوں کا سردار بنایا گیا اور کسی مہینے کو تمام مہینوں سے افضل و اعلیٰ قرار دیا گیا۔
اس رات رحمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، برکتوں کا نزول ہوتا ہے، خطاؤں کو معاف کیا جاتا ہے
لہٰذا شعبان المعظم بھی ایک ایسا ہی فضیلت و برکتوں سے بھرپور مہینہ ہے۔ اسلامی سال میں شعبان، رجب اور رمضان کے درمیان کا یعنی اسلامی کلینڈر کا آٹھواں مہینہ ہے۔ جس کے لئے سرور دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: شعبان میرا مہینہ ہے، رجب اللہ عزوجل کا اور رمضان میری امت کا۔ شعبان گناہوں کو دور کرنے والا ہے اور رمضان بالکل پاک کردینے والا ہے۔ آپ نے اس مہینے کی فضیلت اپنی اس حدیث میں مزید واضح کردی ’’شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے‘‘۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’اِلٰہی رجب اور شعبان میں ہمیں برکت دے اور ہمیں خیریت کے ساتھ رمضان تک پہنچادے۔ آپ نے اس کی اہمیت کو مزید واضح کیا ’’شعبان، رجب اور رمضان کے درمیان واقع ہوا ہے، لوگ اِس سے غفلت برتتے ہیں ،مگر یہی مہینہ ہے جس میں بندوں کے اَعمال حضرتِ حق کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، میری تمنا ہے کہ میرے اَعمال جب پیش کیے جائیں تو میرا شمارہ روزے داروں میں ہو۔‘‘ اس ماہ مبارک میں آپ ﷺ کے عبادات کے معمولات میں مزید اضافہ ہوجاتا ،اس میں حضور اکرم ﷺ اِس کثرت سے روزے رکھتے تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوگمان ہوتاکہ آپ کبھی ترک نہیں کریں گے، جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہیں ’’حضور اکرم ﷺ کو یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے، رمضان سے ملا دیں۔
حضرت اُم ِ سلمہ ؓ فرماتی ہیں’’ میں نے حضور اکرم ﷺ کو شعبان اور رمضان کے سوا متواتر دو مہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔’’ ماہِ شعبان جہاں مکمل رحمتیں برکتیں سمیٹے ہوئے ہے وہیں ،اس میں ایک رات فضیلت کے اعتبار سے اپنا الگ مقام رکھتی ہے، جو کہ اس ماہ مبارک کی پندرہویں شب ہے، شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو’’شب برأت کہا جاتا ہے۔ جو کہ فارسی زبان کی ترکیب ہے۔ شب کا معنی رات اور برأت کا معنی نجات حاصل کرنا، بری ہونا ہے۔ عربی میں اسے لیلۃ البرات کہا جاتا ہے۔ لیلۃ بمعنی رات جبکہ البرات کا معنی نجات اور چھٹکارا کے ہیں۔ علمائے کرام بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ رات گناہوں سے چھٹکارے اور نجات پانے کی رات ہے ،بایں وجہ اسے شب برأت کہا جاتا ہے۔
حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ نے مکاشفۃ القلوب میں اس شب کے مزید نام بھی تحریر فرمائے ہیں۔ لیلۃ التکفیر (گناہوں کی معافی کی رات)،شب حیات،شب مغفرت،شب آزادی،لیلۃ الشفاعۃ (شب شفاعت)،لیلۃ القسمہ والتقدیر (تقسیم اور تقدیر کی رات) اور اسی طرح صاحب کشاف نے اس رات کے چار نام تحریر کئے ہیں۔ لیلۃ المبارکہ (برکت والی رات)، لیلۃ البراۃ (نجات پانے کی رات)،لیلۃ الصک(پروانہ لکھے جانے والی رات)،لیلۃ الرحمہ (رحمت والی رات)۔
شب برأت کے فضائل وبرکات قرآن مقدس سے ثابت ہیں۔ محدثین اور مفسرین کی بھی رائے یہی ہے جس کے فضائل وبرکات کا انکار گویا دن کے اجالے میں سورج کے وجود سے انحراف ہے۔ مفسرین کرام سورۃ الدخان کی آیت (ترجمہ) ’’بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) ایک بابرکت رات میں اتارا ہے‘‘۔لیلۃ مبارکۃ (بابرکت رات) سے مراد کون سی رات ہے؟حضرت ابن عباسؓ، حضرت قتادہ ؓ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے ،کیونکہ سورۂ قدر میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔
جب کہ حضرت عکرمہؓ اور ایک جماعت کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ پندرہ شعبان کی رات تھی۔ حضور شافع النشور ﷺ کا فرمان عالی شان ہے، جب شعبان کی پندرہویں رات آئے تو رات کو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو، تحقیق اللہ تعالیٰ پندرہویں شب آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اپنے بندوں کو ندا کرتے ہیں کہ تم میں کوئی اپنے گناہوں سے بخشش مانگنے والا ہے تو میں اُسے بخش دُوں، کوئی اگر کشائش ِ رزق کا طالب ہے تو میں اُسے رزقِ فراخ عطا کردُوں، کوئی بیمار ہے تو میں اُسے شفادُوں، اِسی طرح سے اللہ تعالیٰ پکارتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس نصف ماہ شعبان کی شب جبرائیلؑ آئے اور فرمایا: یا رسول اللہﷺ!آسمان کی طرف اپنا سرمبارک اٹھائیے، میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کون سی رات ہے، انہوں نے کہا یہ وہ رات ہے جس رات اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے، اور ہر اس شخص کو بخش دیتا ہے جس نے اس کے ساتھ کسی کو اپنا شریک نہیں ٹھہرایا ،بشرطیکہ وہ جادو گر نہ ہو، کا ہن نہ ہو او رسود خور نہ ہو، عادی شرابی نہ ہو، ان لوگوں کی اللہ تعالیٰ اس وقت تک بخشش نہیں فرماتا، جب تک وہ توبہ نہ کرلیں۔
پھر جب رات کو چوتھائی حصہ گزرگیا تو جبرائیلؑ پھر آئے اور کہا یا رسول اللہﷺ! اپنا سرمبارک اٹھائیے! آپ نے ایسا ہی کیا، آپ نے دیکھا کہ جنت کے دروازے کھلے ہیں اور پہلے دروازے پر ایک فرشتہ پکار رہا ہے، خوشی ہو اس شخص کےلیے جس نے رات کو رکوع کیا، دوسرے دروازے پر ایک اور فرشتہ ندادے رہا ہے! خوشی ہو، اس کےلیے جس نے اس رات میں سجدہ کیا! تیسرے دروازے پر ایک اور فرشتہ ندا دے رہا تھا، خوشی ہو، اس کےلیے جو اللہ کے خوف سے اس رات میں رویا، چھٹے دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا، اس رات میں تمام مسلمانوں کے لیے خوشی ہو، ساتویں دروازے پر فرشتہ ندا دے رہا تھا کیا ہے کہ کوئی مانگنے والا کہ اس کی آرزو او رطلب پوری کی جائے؟
آٹھویں دروازے پر فرشتہ پکار رہا تھا کوئی معافی کا طلب گارہے کہ اس کے گناہ معاف کئے جائیں، حضورﷺ فرماتے ہیں کہ یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے؟ جبرائیل ؑ نے کہا کہ اول شب سے طلوع فجر تک۔ اس کےبعد جبرائیلؑ نے کہا اے محمدﷺ! اس رات میں دوزخ سے رہائی پانے والوں کی تعداد بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر ہوگی، لیکن احادیث مبارکہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس رات کی برکتوں سے محروم ہوتے ہیں، وہ لوگ جو اس مقدس رات میں بھی بخشے نہیں جاتے(۱) قاطع الرحم کہ اقارب سے صلہ رحمی نہیں کرتا، بلکہ بد سلوکی سے پیش آتا ہے۔ (۲) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا۔ (۳) شرابی کی جو شراب میں بدمست رہتا ہے۔ (۴) زنا کار کہ لعنت الٰہی میں گرفتار ہے۔ (۵) عشار کہ ظلماً لوگوں سے محصول لیتا ہے۔ (۶) جادوگر کہ اس فعل شنیع میں مبتلا رہتا ہے۔ (۷) نجومی وکاہن کہ غلط سلط لوگوں کو خبریں دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم و کرم فرمائے اور خوب مغفرت طلب کرنے کی سعادت نصیب فرمائے، اس رات میں کچھ امورمذکور ہیں جن ذکر ونفل کا شغل رکھنا۔ اپنے اور اپنے اہل وعیال واعزا ء واقارب بلکہ جملہ اہل اسلام وایمان کے لئے دعائے عفو وعافیت دارین کرنا، احیاء واموات مسلمین کو فائدہ وثواب پہنچانا وغیرہ یہ وہ باتیں ہیں جو اس مبارک رات میں شریعت مطہرہ محمدیہ کو مطلوب ہیں ، حکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی ؒ فرماتے ہیں کہ اس شب میں آتش بازی بنانا،بیچنا، خریدنا اور خریدوانا، چَلانا اور چلوانا سب حرام ہے۔
لہٰذاہم خود بھی ان کاموں سے بچیں، دوسروں کو بھی بچائیں اور اللہ پاک کی رحمت کے حقداربن جائیں۔ درحقیقت یہ اللہ رب العزت کی طرف سے آپﷺ کی امت کی بخشش و مغفرت کے لیے بہانے ہیں کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے اور آسمانوں پر اس کی بخشش و مغفرت کے فیصلے کر دیئے جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب پر اس رات کی رحمتیں اور خوب برکتیں نازل فرمائے۔ (آمین)