• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید ان لوگوں کو اپنی مصروفیات نما لغویات کی وجہ سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر اپنے کرتوتوں، بیانوں، فرمانوں کا جائزہ لے کر سوچیں کہ نسبتاً سنجیدہ قسم کے لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ان سب قائدین اور جمہوری مجاہدین نے مل جل کر خشوع و خضوع سے اس ملک کو جہاں پہنچا دیا ہے اس پر لفظ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی گورنر راج کی افواہ پر بلاول نے کہا تھا کہ عمران خان میں ہمت ہے تو سندھ میں گورنر راج لگا کر دکھائے اور آج شیخ رشید فرما رہے ہیں کہ اپوزیشن میں ہمت ہے تو ’’او آئی سی‘‘ کانفرنس روک کر دکھائے اور عام پاکستانی یہ سوچ رہا ہے کہ اگر ان سب میں ہمت ہے تو پٹڑی سے اترے ہوئے پاکستان کو واپس پٹڑی پر چڑھا کر دکھائیں اور میرا ذاتی خیال ہے کہ پٹڑیاں بیچ کھانے والے یکجا ہو کر بھی یہ کام نہیں کرسکیں گے کیونکہ اس کار خیر کے لئے جو ہمت، بصیرت، تجربہ، کمٹمنٹ، عزت، قیادت، وفاداری، صبر، احساس ذمہ داری، خلوص وغیرہ درکار ہے، وہ ان مہم جوئوں اور موقع پرستوں کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ ان سب کی زندگیاں بنیادی طور پر دو باتوں کے گرد گھومتی ہیں۔

اول: اقتدار حاصل کیسے کرنا ہے۔

دوم: اور زیادہ سے زیادہ عرصہ تک اسے قائم کیسے رکھنا ہے۔

اور ان دو کاموں کے لئے مندرجہ بالا خصوصیات نہیں ... ڈھٹائی، مکر و فریب، جوڑ توڑ، جھوٹ در جھوٹ، منافقت، توڑ پھوڑ، خرید و فروخت، گالی گلوچ، الزام دشنام، بدامنی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آج ملک میں انہیں باتوں کی فراوانی اور ریل پیل ہے۔ جو چند خصوصیات میں نے اوپر گنوائی ہیں، ذرا ان پر غور کرتے ہیں۔ مثلاً :

یہ ہمت، جرأت، بہادری وغیرہ کیا بلائیں ہیں؟

پہلی بات تو یہ کہ جھنجھلاہٹ، غصہ اور گالی گلوچ کا ہمت،جرأت، بہادری کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یہ لفنگوں، تلنگوں، موالیوں اور رنگ بازوں کا کام ہے۔ ہمت، جرأت، بہادری دراصل زبانوں یا بازوئوں میں نہیں ’’دماغوں‘‘ میں ہوتی ہے اور جن کے دماغوں میں ہوس اقتدار اور لوٹ مار کی خواہش کے علاوہ اور کوئی شے موجود ہی نہ ہو.... وہ کیا اور ان کی ہمتیں کیسی۔

رہ گئی بصیرت جسے آج کل وژن بھی کہا جاتا ہے تو یہ نام ہے ان چیزوں کو دیکھنے کا جو دکھائی نہیں دیتیں لیکن موجود ہوتی ہیں تو جنہیں ’’اسلام آباد‘‘ کے علاوہ اور کچھ دکھائی ہی نہ دیتا ہو، ان سے بصیرت کی توقع کہ یہ وہ محب وطن ہیں جنہیں ملک کی پروا نہیں، صرف اس کے دارالحکومت سے دلچسپی ہے۔ رہ گیا ’’تجربہ‘‘ تو یہ کمال کی شے ہے جو انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ حماقت یا غلطی کو دوہرانے سے انکار کردیتا ہے لیکن ان سب کو غور سے دیکھو کہ کئی کئی بار کی گئی حماقتیں ذوق و شوق سے دہرانے میں مصروف ہیں جبکہ قیادت یا قائد وہ ہوتا ہے جوجانتا ہو کہ وہ خود کہاں جا رہا ہے؟ کیوں جا رہا ہے اور زادِ راہ کے طور پراس کے پلے کیا ہے؟ ہلے گلے کی قیادت کرنے والے لیڈر نہیں مداری ہوتے ہیں اور قیادت بھی صرف انسانوں کی ہوتی ہے، بھیڑ بکریوں کو صرف چراگاہوں میں چرایا جاتا ہے۔ اور ’’خلوص‘‘ کیا شے ہے؟ ’’خلوص‘‘ روح کا چہرہ ہوتا ہے... خلوص نام ہے خود کو سزا دینے یا انکار کرنے کا، دوسروں کو خود پہ ترجیح دینے کا، ایک کے مقابل پیٹ پر دو پتھر باندھنے کا ... تو ان میں سے کوئی ہے جو اس معیار پر تھوڑا بہت بھی پورا اترتا ہو۔

وفاداری ... اپنے وطن اور ہم وطنوں کے ساتھ وفاداری۔ کتے، کبوتر اور گھوڑے کی وفا ضرب المثل ہے اور اگر کسی رہنما میں اتنی بھی وفا نہیں تو اس کی پیروی سے باز رہو ورنہ تمہاری اولادوں کو بھی اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی اور یہ کام شروع ہے۔

ذمہ داری، احساس ذمہ داری کیا ہے؟تو عظمت اور قیادت کی اصل قیمت ہی ذمہ داری اور احساس ذمہ داری ہے اور یہی کسی بھی انسان کے قد وقامت کو ماپنے کا اصل اور حقیقی پیمانہ ہے تو ہماری سیاسی کمیونٹی اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں .... ہر جگہ اس میں بری طرح ناکام۔ قیادت کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ عوام کے لئے وہ سب کچھ کرے جو وہ خود اپنے لئے نہیں کرسکتے۔

صبر اور ضبط کا قحط ہے۔ جنہیں اپنی زبانوں پر کنٹرول نہیں، انہیں اپنی لگامیں سونپ دینا قدرت کے قہر اور غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، ہم اسے مسلسل بھگت رہے ہیں لیکن سمجھنے سے انکاری ہیں اور کبھی نہ بھولنے والی بات یہ ہے کہ صبر قدرت کا شعار ہے۔

رہ گئی بات عزت کی تو اس پر تبصرہ کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ بے تحاشہ بے عزتی کے عوض، کچھ عرصہ کے لئے اقتدار والی عزت ہی تو ہماری سیاست اور جمہوریت کا جوہر ہے۔

واہ میرے لیڈرو!

’’ہمت ہے تو سندھ میں گورنر راج لگا کر دکھائو‘‘

’’ہمت ہے تو ’’او آئی سی‘‘ کانفرنس روک کر دکھائو‘‘

اور میں کہتا ہوں ..... تم سب کے سب اکٹھے ہو کر عوام کی حالت تبدیل کرکے دکھائو . . . . . سب بچوں کو سکول بھیج کر دکھائو، بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کرکے دکھائو . . . . . منہ کے بل گرتے ہوئے ’’روپے‘‘ کی رفتار روک کر دکھائو . . . . .عوام کو تحفظ دے کر دکھائو . . . . . ملکی قرضے چکا کر دکھائو . . . . . حرام خوری اور اقربا پروری ختم کرکے دکھائو لیکن تم تو خود دیکھنے کے قابل نہیں..... تم کیا دکھائو گے؟۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین