• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان آج کل ایک نئے ’’سیاسی ہیجان ‘‘ میں مبتلا ہے۔ پاکستان میں تمام اپوزیشن پارٹیاں عمران خان کے خلاف صف آرا ہیں اور انہیں اقتدار سے بیدخل کرنے کے لیے تحریکِ عدم ِ اعتماد کا سہارا لے رہی ہیں، جس کے تحت اسی ماہ کے آخر میں رائے شماری ہوگی۔ عمران خان کی حکومت کو بنانے اور گزشتہ ساڑھے تین سال تک اسے برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمہ وقت موضوعِ بحث رہا ہے۔ یہ بات کھلم کھلا کہی جاتی رہی ہے کہ جب تک مقتدر حلقوں کی طرف سے عمران حکومت کو سپورٹ حاصل ہے ، اسے کوئی نہیں گرِ ا سکتا۔ حالانکہ اس حکومت کی نااہلی ، نا تجربہ کاری اور بیڈ گورننس سے ملک کا ہر طبقہ نالاں ہے اور جلد از جلد اس حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے ۔ حکومتی امور کا ہر شعبہ چاہے وہ معیشت ہو ، خارجہ پالیسی یا اندرونی امن و امان ہو، صورتِ حال انتہائی دگر گوں ہے۔ سیاسی صورتِ حال تو شدید بحران کا شکار ہے ۔ عمران خان کے غیر سیاسی مزاج نے نہ صرف اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیابلکہ نیب جیسے ادارے کے ذریعے انتقامی سیاست کا نشانہ بھی بنایا گیا بلکہ بقول پرویز الہٰی، جو عمران خان کے حلیف ہیں، عمران خان کے انتقام کا نشانہ بننے والوں میں ان کے اتحادی بھی شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کی اپنی جماعت بھی ان کے متکبّرانہ رویّے کی شاکی ہے خصوصاََ دو اہم رہنما جہانگیر ترین اور علیم خان جو کسی وقت میں ان کے فنانسر اور اے ٹی ایم سمجھے جاتے تھے، وہ بھی اپنے علیحدہ علیحدہ گروپ بنا چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچانے اور اس کے اقتدار کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے والے مقتدر حلقے بھی کپتان کی ضد ، اکھڑ پن اور ہٹ دھرمی کی سیاست کی نذر ہوگئے۔ وہ جنہوں نے اسے قدم قدم پر تجربہ کار اپوزیشن کے ہاتھوں شکست سے بچایا، عمران خان نے بہت سی جگہوں پر نہ صرف انہیں شرمندہ کرایا بلکہ اس ادارے کے اندرونی معاملات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس دوران جب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل افتخار بابر نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ فوج سیاسی امور کے حوالے سے غیر جانبدار اور نیوٹرل ہے تو عمران خان اس قدر سیخ پا ہو ئے، گویا کسی نے ان کا استحقاق مجروح کردیا ہو۔ انہوں نے اگلے ہی دن جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ نیوٹرل ‘‘ تو صرف جانور ہوتے ہیں۔ اس قسم کا ردّ ِ عمل اور رویّہ تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں نے بھی کبھی اختیار نہیں کیا جو عمران خان نے اس ادارے کے خلاف روارکھا، جس نے عمران خان کی حمایت میں اپنی شہرت کو بھی دائو پر لگا دیا تھا۔اگر کسی وقتی مصلحت کےبجائے فوج کے ادارے کو آئینی حدود کے تابع رکھا جائے تو یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے جو نہ صرف ملک میں حقیقی جمہوریت کو پروان چڑھانے کا باعث بنے گا اور افواج پاکستان کی عزت و وقار میں مزید اضافہ کرے گا، حتیٰ کہ ماضی کی ان تمام غلطیوں کا ازالہ بھی کرے گا، جن کے تحت مسلّح افواج کو سیاسی مداخلت کے لیے استعمال کیا گیا۔ میں تو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوںکہ جو سیاسی اور فوجی قیادت اس فیصلے کو عملی جامہ پہنائے گی اس کا مقام تاریخ میں بہت عظیم ہوگا اور اسے اس ملک کے حقیقی نجات دہندوں میں شمار کیا جائے گا۔آج کل کا دور، سرد جنگ کے زمانے سے ویسے بھی بہت مختلف ہے۔ جب امریکہ اور سوویت یونین اپنا اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے فوجی آمروں کی حمایت کے خواہاں ہوتے تھے، جنہیں منتخب جمہوری رہنمائوں کی نسبت کنٹرول کرنا خاصا آسان تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ ان ڈکٹیٹروں کو بے تحاشا امداد بھی دیتے تھے تاکہ وہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔ لیکن اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ افغان جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد امریکہ نے پاکستان کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کردی ہیں۔اس جنگ میں پاکستان کی معیشت اور انسانی جانوں کا ضیاع اس امداد سے کہیں بڑھ کر ہے جو پاکستان کو ملی ۔ ویسے بھی میڈیا کے اس انقلابی دور میں پہلے کی طرح حقائق کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا اور اداروں کے آئینی کردار کو صرف ِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اسپیشلائزیشن کا دور ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ ہر فن مولا کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ زندہ قومیں ہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں۔ ہمیں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ہی فوج کو ہمیشہ کے لیے سیاست سے الگ کر دینا چاہیے تھا تاکہ وہ یکسوئی سے دفاعِ وطن کا فریضہ ادا کرتی اور کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکتا۔ فوج ایک قومی ادارہ ہے یہ کوئی سیاسی جماعت یا حکمران طبقہ نہیں کہ اسے سیاست کے خارزار میں گھسیٹا جائے۔ خیر دیر آید درست آید کے مصداق اگر اس ادارے کے محّب وطن اور فرض شناس اکابرین نے بالآخر یہ تاریخی فیصلہ کر ہی لیا ہے تو ہر پاکستانی شہری کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔                    

تازہ ترین