• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد سے پہلے سیاسی جلسے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جبکہ جسٹس منیب اختر 2 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس کی غیر متعلقہ افراد کو باہر جانے کی ہدایت

سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں رش بڑھا تو چیف جسٹس نے غیر متعلقہ افراد کو باہر جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ کچھ افراد اوپر گیلری میں چلے جائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج ہمارے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں،سینئر وکلا بھی موجود ہیں، اس ماحول میں سماعت نہیں ہو پائے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ ماسک پہننے کا بھی خیال کریں۔

سماعت کا احوال

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ اسپیکر کو 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا گیا۔

آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن کے اندر اجلاس بلانا ہوتا ہے،عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کےسبب کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ رہ جائے،ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔

اپوزیشن کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ اسپیکر نے آئین کے خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جن پر پہلے آرٹیکل 6 لگا ہے اس پر تو عمل کروالیں۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ 14 دن سے زیادہ تاخیر کرنے کا اسپیکر کے پاس کوئی استحقاق نہیں،عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل سپریم کورٹ بار نے کہا کہ رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی،عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو،ہم زیادہ گہرائی میں جانا نہیں چاہتے، یہ تمام نکات اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس سپریم کورٹ میں پیش کیا اور کہاکہ اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کر کے آئین شکنی کی، اسپیکر قومی اسمبلی آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے مرتکب ہوئے،اٹارنی جنرل پاکستان نے کہاکہ آرٹیکل چھ کی لینگویج پڑھ لیجیے، جن لوگوں پر آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں،آرٹیکل 6 سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی بات پر چیف جسٹس پاکستان مسکرا دیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے سے متعلق ہے، آرٹیکل 17 کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں،آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 (2) کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بینظیربھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے،ایک انفرادی ووٹ کو سیاسی جماعت کے بجائے کیسے گنا جاسکتا ہے؟ اپنی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دیں، چیف جسٹس کی وکیل سپریم کورٹ بار کو ہدایت۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ اراکین اسمبلی جس کو چاہیں ووٹ ڈالیں،بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اخترکی آبزرویشن رکاوٹ بن سکتی ہے،سوال یہی ہے کہ ذاتی پسند نا پسند پارٹی موقف سے مختلف ہوسکتی یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ تمام اراکین اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، وکیل سپریم کورٹ بار آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے؟آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

جسٹس منیب نے کہاکہ اگر کوئی ممبر ووٹ ڈالنے جارہا ہوتو کوئی کیسے کہے گا کہ یہ ووٹ ڈالنا ان کا حق نہیں؟ سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟

بلاول بھٹو ، شہباز شریف اور  مولانا فضل الرحمٰن کمرہ عدالت میں موجود

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سپریم کورٹ پہنچے۔

سپریم کورٹ کے باہر رہنماؤں کی آمد کے موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ خواجہ سعد رفیق، سردار اختر مینگل بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔

سیاسی فیصلے آئین و قانون کے تحت ہوتے ہیں، بلاول

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سیاسی بات نہیں کریں گے، ہم سیاسی جدوجہد کریں گے۔

بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ عدالت سے ہی توقع ہے، سیاسی فیصلے آئین و قانون کے تحت ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت سے ہی توقع ہے، سیاسی فیصلے آئین و قانون کے تحت ہوتے ہیں، ہم پارلیمنٹ کو عدالت کی دہلیز پر نہیں لائے، ہم اپنی آئینی اور قانونی جدوجہد وکلاء کے ذریعے کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نےعدالت میں اسپیکر کیخلاف درخواست جمع نہیں کرائی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نےپٹیشن دائر کی، ہمیں فریق بنایا گیا، ادھر سے نکل کر سیاست کا موقع ہوگا۔

آج پہلی بار سپریم کورٹ آیا ہوں، مولانا فضل الرحمٰن

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج پہلی بار سپریم کورٹ آیا ہوں، یہ حکومت ہی ناجائز ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن سے صحافی نے سوال کیا کہ کیا منتخب نمائندے ناکام ہوئے کہ اب معاملات کورٹ تک پہنچ گئے؟

اس کے جواب میں مولانا نے کہا کہ عدالت بھی پاکستان کا ایک ادارہ ہے۔

صحافی نے پھر سوال کیا کہ ہر 3 سال بعد انتخاب ہونا کیا تاریخ کے لیے درست ہے؟ اس پر مولانا نے کہا کہ یہ حکومت ہی ناجائز ہے، میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ آیا ہوں۔

عدالت میں وزیراعظم کے خلاف اس طرح آنا درست ہے کہ سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا آپ ایسی نالائق حکومت کے لیے ہمدردیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے وکلاء نے محنت سے پٹیشن بنائی ہے، شہباز شریف

ن لیگی رہنما شہباز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہمارے وکلاء نے محنت سے پٹیشن بنائی ہے۔

شہباز گِل سپریم کورٹ پہنچے اور گیٹ سے ہی واپس چلے گئے

دوسری جانب معاون خصوصی شہباز گِل سپریم کورٹ پہنچے پھر گیٹ سے واپس چلے گئے۔


قومی خبریں سے مزید