• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاوید عنایت اللہ مغل

وادیِ مہران باب الاسلام سندھ کو یہ شرف اور اعزاز حاصل ہے کہ یہ خطہ اسلام کے آغاز ہی میں دین کے نور سے منور ہوا اور اسلام کا پیغام اس سرزمین تک پہنچا۔ باب الاسلام سرزمین سندھ عرفان و تصوف کا سرچشمہ رہی ہے۔صوفیائے کرام و بزرگان دین کو اس علاقے سے گہرا تعلق رہا ہے۔ ان برگزیدہ شخصیتوں نے مختلف طریقوں سے دین کی تبلیغ اور اسلام کے زریں اصولوں کا پرچار کیا۔ یہ تمام اولیائے کرام اور صوفیائے عظام اس شجر مبارک کی شاخیں اور ٹہنیاں ہیں، جس کی مضبوط جڑیں اسوۂ نبویؐ کے چشمۂ نور سے سیراب ہوئیں۔ 

مشہور صوفی بزرگ اور وادی مہران کے مرد قلندر حضرت لعل شہباز قلندرؒ اللہ کے ایسے برگزیدہ بندے ہیں، جنہیں سندھ کی سرزمین کا چپّہ چپّہ یادکرتا ہے۔ حیدرآباد کے شمال مغرب میں کیرتھر پہاڑیوں کے دامن میں واقع سہون تاریخی اہمیت کا حامل شہرہے۔ یہ سندھ کے عظیم صوفی بزرگ لعل شہباز قلندرؒ کی آرام گاہ ہے۔ قدیم شہر سیوستان کو سہون بھی کہتے ہیں۔ تحفۃ الکرام کے مصنف بیان کرتے ہیں کہ سہون کو ایک شخص سہوان نے آباد کیا تھا۔ یہ سہوان سندھ کی اولاد میں سے تھا۔اسی سندھ کی وجہ سے اس پورے علاقے کو صوبہ سندھ کہا جانے لگا۔ 

شروع میں یہ شہر الور کے ماتحت تھا۔اس کے بعد ٹھٹھہ کے والیوں کی حکومت میں شامل کرلیا گیا۔ جب شاہ بیگ ارغون نے سندھ کی حکومت حاصل کی تو یہ شہر اس کے ہاتھ میں چلا گیا، مگر شاہ بیگ نے اسے ٹھٹھہ سے الگ کردیا، تاکہ انتظام میں آسانی ہوسکے۔ اس کے بعد جب شاہ حسن ارغون کی حکومت کا زمانہ آیا تو اس نے اسے پھر ٹھٹھہ میں شامل کرلیا۔ آپ کا اسمِ گرامی محمد عثمان تھا،مگر آپ نے لال شہباز قلندر کے نام سے شہرت حاصل کی۔ محمد عثمان نام رکھنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کے والد حضرت سیّد محمد کبیر الدینؒ کے کوئی اولاد نہیں تھی۔

چناںچہ ایک خواب میں انہوں نے حضرت علیؓ کو دیکھا اور عرض کیا کہ یاامیرالمومنینٖ! آپ میرے حق میں اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے فرزند عطا فرمائے۔ حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹا عطا فرمائے گا، مگر میری ایک بات یاد رکھنا کہ جب فرزند تولد ہوگا تو اس کا نام محمد عثمان رکھنا اور جب وہ384 دن کا ہوجائے تو اسے لے کر مدینے میں حاضری دینا اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں سلام کے بعد حضرت سیدنا عثمان ؓ کے مزار پر لے جانا اور سلام عرض کرنا۔‘‘ 

چناں چہ یہ خواب پورا ہوا اور جب آپ پیدا ہوئے تو والد نے ان کا نام محمد عثمان رکھا اور جب 384 دن پورے ہوئے تو مدینۂ طیبہ میں حاضری دی اور حسبِ وصیت تمام کام انجام دیے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ تین سو چوراسی دن کی قید میں یہ اشارہ تھا کہ لفظ قلندر کے بھی 384 عدد نکلتے ہیں، بہرحال لفظ قلندر کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں اور بھی متعدد روایات زباں زد خاص و عام ہیں۔

حضرت لعل شہباز قلندرؒ نام مشہور ہونے کے سلسلے میں بہت سی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔اسی طرح لفظ قلندر سے پہلے لعل شہباز کے لفظ کے لگائے جانے کی بھی بہت سی وجوہ اور واقعات ہیں۔ ایک بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ سفید لباس پہنا کرتے تھے، مگر ایک مرتبہ دہلی میں ایک مولوی صاحب اپنے وعظ میں سرخ رنگ کا ذکر کررہے تھے اور فرما رہے تھے کہ حضرت امام حسنؓ کو سرخ رنگ بہت پسند تھا، چناںچہ اسی دن سے آپ نے سرخ رنگ اختیار کرلیا اور ایک قصّہ یہ بھی مشہور ہے کہ آپ عالمِ جذب میں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے کھیل رہے تھے، انہیں آسمان کی طرف اچھالتے تھے اور پھر اپنے کُرتے کا دامن پھیلا کر انہیں دامن میں لے لیا کرتے تھے۔ 

کسی شخص نے کہا کیا پتھروں سے کھیل رہے ہیں؟ اللہ والوں کو تو لعلوں سے کھیلنا چاہیے۔آپ نے یہ بات سن کر کُرتے کا دامن چھوڑ دیا اور وہ پتھر جو کُرتے کے دامن میں تھے، سب لعل بن کر زمین پر گرگئے اور چاروں طرف سرخ روشنی سی پھیل گئی، آپ اس دن سے لعل شہبازکہے جانے لگے۔ یہ نام دو طرح لکھا ہوا کتابوں میں ملتا ہے۔ ایک ’’لعل شہباز قلندر‘‘ اور دوسرے ’’لال شاہ باز قلندر‘‘ غرض صحیح حال تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ محمد عثمان کو لعل شہباز قلندر یا لال شاہ باز قلندر کہنے کی اصل وجہ کیا تھی،کچھ لوگ آپ کے نام کے ساتھ مخدوم بھی استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو مخدوم کا لقب ملتان سے ملا تھا،جب کہ آپ ملتان میں حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کے پاس منازل سلوک طے فرمارہے تھے۔

آپ کا اسمِ گرامی عثمان تھا، لیکن عام طور پر لعل شہباز قلندر کے لقب سے مشہور ہیں۔ یہ لقب آپ کو آپ کے مرشد نے دیا تھا۔آپ حضرت امام محمد باقرؒ کی اولاد میں سے ہیں۔ سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد حضرت بابا ابراہیمؒ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر ان سے شرفِ بیعت حاصل کیا اور ایک سال کی مختلف عبادتوں اور ریاضتوں کے بعد انوار الٰہی سے اپنے قلب کو روشن و منور کرکے بابا ابراہیم ؒ سے خلافت حاصل کی اور بہت دن تک آپ شیخ منصور کی خدمت میں بھی رہے۔ اس کے بعد بھی روحانی کسب کمال کے لیے آپ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں گھومتے رہے اور مختلف اولیاء اور صوفیائے کرامؒ کی صحبتوں سے مستفیض ہوئے، جن میں شیخ فرید گنج شکرؒ، حضرت زکریا ملتانیؒ، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ، جلال الدین بخاریؒ، خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں اور شیخ صدر الدین عارفؒ سے بھی آپ کی ملاقاتیں رہیں۔

سیوستان میں آکر آپ جس محلے میں مقیم ہوئے، وہ فاحشہ عورتوں کا محلہ تھا۔ اس عارف باللہ کے قدم مبارک کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں برائیوں کا بازار سرد پڑگیا۔ نیکی اور پرہیزگاری کی طرف قلوب مائل ہوئے اور بدکار عورتوں نے آپ کے دستِ حق پرست پر توبہ کی۔ مخدوم شہباز قلندرؒ نے سیوستان میں رہ کر بگڑے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا، ان کے اخلاق کو سنوارا، انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی،اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنا سکھایا۔

آپ بہت بڑے عالم اور بہت سی زبانوں کے جاننے والے تھے اور علوم صرف ونحو میں پوری مہارت رکھتے تھے۔میزان الصرف اور صرف صغیر کتابیں جو عام طور پر مدارس عربیہ میں پڑھائی جاتی ہیں، وہ آپ کی تصنیف ہیں اور آپ ہی سے منسوب کی جاتی ہیں۔ میزان الصرف تو آج بھی درسِ نظامی میں شامل اور عربی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔

حضرت لعل شہبازقلندرؒ چوںکہ مذہبی علوم کے عالم تھے اور فارسی و عربی زبان پر پورا عبور رکھتے تھے،اس لیے اکثر اہلِ علم آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور مسائل و قواعد میں آپ سے استفادہ کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملتان میں حضرت زکریا ملتانیؒ نے جو مدرسہ قائم کیا تھا،اس میں آپ نے کچھ عرصہ درس و تدریس کی خدمت بھی انجام دی اور صرف و نحو کے شائقین خاص طور پر آپ سے سبق لیا کرتے تھے۔ آپ شعرو سخن سے بھی دل چسپی رکھتے تھے، بلکہ اپنے دور میں صوفی شعرا میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ 

صوفیائے کرام کی محفلوں میں آپ کا عارفانہ کلام ذوق وشوق سے سنا جاتا تھا۔آپ عثمان تخلص فرماتے تھے اور اس نام سے بڑی محبت رکھتے تھے، عقیدت مندوں نے آپ کو متعدد القاب و خطاب دیے اور وہ سب آپ کی حیات ہی میں بہ کثرت استعمال ہونے لگے، مگر آپ اس وقت بہت خوش ہوتے تھے، جب کوئی شخص آپ کو محمد عثمان یا عثمان مروندی کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔ مقالات الشعراء شائع کردہ سندھی ادبی بورڈ نے آپ کی ایک غزل نقل کی ہے، جو اپنی معنویت کے اعتبار سے آج بھی مشائخ حضرات اور صوفیائے کرام کے حلقوں میں مقبول و معروف ہے۔ جس کے ایک شعر میں آپ فرماتے ہیں۔

کہ عشقِ دوست ہر ساعت درونِ نار می رقصم

گہی برخاک می غلطم گہی برخار می رقصم

اس کے علاوہ اور بھی آپ کی غزلیات کا ذکر ملتا ہے اور وہ حضراتِ صوفیاء میں مقبول بھی ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی تمام تر شاعری عشق و محبت سے بھرپور ہے اور ہر شعر اپنے اندر درد کی ایک داستان لیے ہوئے ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی زندگی کے آخری ایام میں جو خصوصاً پہلی شعبان سے شروع ہوا،اُس وقت حضرت کی نگاہیں ہر وقت آسمان پر رہتی تھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے کہ ’’مجھے اپنی رحمت میں چُھپالے۔

اے اللہ، میں نے اسلام کو تیرا پسندیدہ دین یقین کرکے پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اے اللہ! اگر کوشش میں کوتاہی ہوگئی ہو تو معاف فرمادینا۔ اے اللہ! اپنے دین کا بول بالا فرما اور اپنے دین کے راستے پر چلنے والوں کو اپنا دوست بنا۔‘‘ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ بستر پر گر پڑے، جسم سیدھا ہوگیا اور زبان کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے خاموش ہوگئی۔

پورا سال دُور دراز کے شہروں، گائوں اور دیہاتوں سے عقیدت مند آکر قلندر شہبازؒ کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں اور عرس کے موقع پر مریدوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے، جو یہاں آکر آپ کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔