• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو درپیش چیلنجز کا حل قیام پاکستان کے مقاصد میں پنہاں

پاکستان 14اگست 1947کو وجود میں آیا لیکن مسلمانانِ ہند نے اپنے لیے اس آزاد اور جداگانہ مملکت کے حصول اور اس کے خدوخال کا اَٹل فیصلہ کئی سال پہلے 23 مارچ 1940کو ہی کرلیا تھا۔ 23مارچ 1940کے دن متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے پہلی بار عظیم الشان اجتماع میں اپنی سیاست اور منزل کا تعین کرتے ہوئے ان علاقوں پر مشتمل الگ وطن کا مطالبہ کیا جہاں مسلمان اکثریت میں تھے۔ 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک کے وسیع و عریض میدان میں جمع مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شیر بنگال اے کے فضل حق کی قرار داد کو اپنے دل کی آواز تسلیم کیا۔ 

پورے ہندوستان سے آئے نمائندوں نے اس کی توثیق کی۔ واقعہ صرف اتنا نہیں۔پس منظر میں صدیوں کی محرومیاں اور اپنی شناخت کے خواب تھے ۔ یہ ایک طویل سفر ہے جس کی ابتدا شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی دینی تحریک‘ سرسید احمد خان کی علمی و سماجی تحریک اور علامہ اقبال کی فکری رہنمائی سے ہوئی جب کہ کامیابی قائد اعظم محمد علی جناح کی پرعزم قیادت میں حاصل ہوئی۔ 

اس قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا۔ اس کی تائید میں خان اورنگ زیب خان، حاجی عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابر ین نے خیالات کا اظہار کیا۔ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں قرارداد کو پہلی بارقرارداد پاکستان کہا۔ یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی بنیاد بن گئی اورصرف سات برس کے عرصہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کرہ ارض پرحقیقت بن کرسامنے آگیا۔ 

برصغیر میں انگریز راج کی طرف سے اقتدار مقامی نمائندوں کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں قراردا سے محض چار سال قبل جو پہلے عام انتخابات ہوئے ان میں مسلم لیگ کو کامیابی نہیں مل سکی تھی، جس کے باعث اس کی آزاد مملکت کی ضرورت کی جدوجہد کو شدید نقصان پہنچا تھا اور ساتھ بھی یہ کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ چکے تھے ، ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔ 

کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی۔ سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان اکثریت میں تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔ پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی جماعت کی جیت ہوئی تھی۔ غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جا رہی ہے۔23 مارچ 1940 کو یہ مایوسی ختم ہو گئی۔ 

قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے، یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔ دوسرے دن انہی خطوط پر بنگال کے وزیراعظم مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی۔ 

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا، جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں کے طور پر حد بندی نہ ہو۔ قائد اعظم محمد علی جناح جانتے تھے کہ تحریک پاکستان ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تحریک ہے۔ بادشاہوں کے منظور نظر‘انگریز استعمار کے وفادار جاگیردار، زمیندار اور سرمایہ دار مسلمان رہنما قوم کو سماجی سطح پر منظم کرنے کے حامی رہے لیکن ہندوستان کے مسلمان آزادانہ سیاسی کردار ادا کریں یہ ان مراعات یافتہ طبقات کے لئے قابل قبول نہ تھا۔

1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس زمانے کے الیکٹ ایبلز قوم کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ یہ 23مارچ کا دن تھا جب قرار داد لاہور پیش ہوئی‘منظور کی گئی تو یہی قرار داد پاکستان کہلائی۔ قائد اعظم نے اس روز کے بعد عام لوگوں سے رابطے تیز کئے۔ یہی وجہ تھی کہ تین سال پہلے مردہ سمجھی جانے والی مسلم لیگ میں جان پڑ گئی اور اگلے انتخابات میں اسے اس قدر نشستیں ملیں کہ کانگریس کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی۔ مسلم لیگ مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔

اس روز کو یوم پاکستان کے طور پر منانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان جن چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے انہیں قیام پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں طے کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ قرارداد پاکستان کی روشنی میں برصغیر کے کچلے اور افلاس زدہ مسلمانوں کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا تھا۔ بدقسمتی سے، آج ہم بحیثیت مجموعی قوم کی ترقی اور رہنمائی کا فریضہ فراموش کر کے ذاتی اغراض کے اسیر ہو گئے ہیں۔

آج کا دن ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ہمیں اجتماعی طور پر پاکستان میں ان تصورات اور روایات کو فروغ دینا ہوگا جو اہل پاکستان کو دنیا میں آزاد و خود مختار قوم کے طور پر اُبھاریں۔