• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مکمل ہونے کے ساتھ ہی بحالی ٔ جمہوریت کا پہلا اور اہم مرحلہ ہم نے طے کر لیا ہے، عوامی نمائندوں کی طرف سے انتقال اقتدار کی منزل اور زیادہ قریب آگئی ہے پہلے مرحلے سے بہ حسن و خوبی گزر کر دوسرے مرحلے میں گہماگہمی ہونے پر پورے ملک میں ایک اطمینان و خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 7دسمبر کو جمہوریت کی حیات افروز کرنیں نمودار ہوئیں اور ارض پاکستان کا ذرہ ذرہ چمک اٹھا آنے والے ہر دن کے ساتھ جمہوریت کا اجالا پھیلتا جا رہا ہے اب سلطانی جمہور کی منزل قریب آگئی ہے۔ وہ دن دور نہیں ہے جب سارا ملک اور اس کا ایک ایک گوشہ جمہوریت کی پالیسیوں سے دمک اٹھے گا۔

اقتدار سنبھالتے ہی صدر یحییٰ خان نے اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ حکومت کے اختیارات ان کے پاس ایک امانت ہیں اور وہ اس امانت کو بہت جلد عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف لوٹا دیں گے۔

صدر یحییٰ خان اپنے اس وعدے میں کس قدر سچے رہے کتنے پرخلوص تھے اس کے لئے اب کسی دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے 7؍دسمبر اور پھر 17دسمبر کے انتخابات ان کے اخلاص اور ان کی صداقت کا ایک ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت بن چکے ہیں اگر صدریحییٰ خان کی نیت میں ذرا بھی فتور ہوتا اور ملک و ملت کے مفاد کے سوا انہیں کوئی اور چیز عزیز ہوتی تو بلاشبہ آج ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا اور خدا جانے جمہوریت کی صبح کے طلوع ہونے میں اورکس قدر تاخیر ہو جاتی۔ 

یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا فضل ہوا کہ آمریت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ایک ایسی شخصیت کے ہاتھ میں حکومت کا اختیار ہی نہیں کہ جس میں کے مقاصد سب سے زیادہ عزیز ہیں، جسے خود آمریت سے نفرت ہے جو عوام ہی کے ذہن سے سوچتی ہے اور جس کے دل کی دھڑکنیں عوام کے دلوں سے ہم آہنگ رہی ہیں۔صدر یحییٰ خان کا وہ کارنامہ دنیا کی تاریخ کے انوکھے اور منفرد کارناموں میں شمار کیا جائے گا اور اس برصغیر کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ 

ان کے اس کارنامے نے پاکستان کو عظمت و وقار کی بلندی پر پہنچا دیا اور انتخابات کے فوراً بعد دنیا بھرمیں دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت کے وجود میں آجانے کا چرچا ہو گیا ہے۔ تاریخ کے اس عظیم واقعے کا سب سے زیادہ منفرد پہلو یہ ہے کہ ایک فوجی جنرل نے جب کہ اسے اپنے شخصی اقتدار کو قائم و برقرار رکھنے کے تمام مواقع حاصل تھے اور جس کے لئے ملک کا انتشار و انارکی سب سے بڑا بہانہ بنا سکتی تھی۔ آمریت کی راہ کو ٹھکرا کر جمہوریت کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے اپنے عوام سے جمہوریت کا وعدہ کیا اور اس وعدے کو پورا کر دکھایا ۔ تاریخ میں ایک ایسے عظیم جمہوری کردار کی مثال شاید ہی مل سکے۔

پاکستان کے دور جمہوریت میں داخل ہونے کے گہرے اثرات ایک طرف خود اس ملک کے مستقبل اور اس کی آئندہ نسلوں پر پڑیں گے۔ دوسری طرف تاریخ کا یہ عظیم واقعہ پوری مسلم دنیا پر بھی اثر انداز ہو گا اور تمام مسلم ممالک کے لئے ایک مشعل ہدایت بن جائے گا۔ یہ ہماری بڑی سعادت ہے کہ پاکستان کو خاص طور پر مسلم دنیا کے اندر ایک نئے جمہوری دور کی قیادت و رہنمائی کا مقام حاصل ہو گیا ہے۔

مسلم دنیا کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی استحکام اور اتحاد ہے۔ صدر یحییٰ خان نے پاکستان میں جمہوریت قائم کرکے جس راستے کی نشاندہی کردی ہے۔ وہ اتحاد اور استحکام کی طرف لے جاتا ہے اس لئے ان کے اس کارنامے کو نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمان نہایت قدر و عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ خصوصاً پاکستانی عوام کے دل صدر یحییٰ خان کی خدمت پر قدر و شکر ہے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں۔ 

آج ہم اپنے عوام کے ساتھ ان کی خدمت میں اس مملکت کے صدر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے گہرے جذبات قدر شناسی کے ساتھ سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ تہہ دل سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوںنے اس ملک و ملت کی فی الواقع ایک بڑی خدمت انجام دہی ہے۔ قائداعظم نے اگر ہمیں پاکستان دیا تھا تو صدر یحییٰ خان نے جمہوریت کی وہ دولت ہمیں واپس دلادی ہے جو ہم سے چھین لی تھی اور جس کے بغیر پاکستان کا وجود اور اس قوم کی آزادی بالکل بے معنی ہو کر رہ گئی تھی۔

اس موقع پر ہم افواج پاکستان اُس کے سپاہیوں، افسروں، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں کو بھی پورے خلوص کے ساتھ خراج قدر و تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے صدر یحییٰ خان کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی اور پرامن و آزادانہ انتخابات منعقد کرائے ہیں پوری تندہی، احساس ذمہ داری اور حب الوطنی کے جذبے سے سرچار ہو کر حصہ لیا۔ اس طرح ہماری افواج کاکردار بھی دنیا بھر کے لئے ایک کابل تقلید مثال اور نمونہ بن چکا ہے وہ نہ صرف ملک کی بقاء اتحاد و سالمیت کی محافظ ہیں بلکہ آج انہیں بجا طور پر محفوظ جمہوریت بھی کہا جا سکتا ہے۔

آج ہم ملک کے عوام اور ووٹروں کو بھی اپنی طرف سے خراج تحسین پیش کرتے ہیںکہ ان ہی کی تڑپ، ان ہی کا جذبہ اور ان ہی کا عزم تھا جس نے آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام میں ایک اہم ترین کردار ادا کیا۔ 7؍دسمبر اور 17دسمبر کو انہوں نے آزادی و دیانتداری کے ساتھ اپنے سیاسی شعور اور ضمیر کی آواز سے پوری طرح ہم آہنگ ہو کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور ان لوگوں کو منتخب کیا جن سے متعلق ان کی ایماندارانہ رائے یہ تھی کہ وہ جمہوریت کو چلا سکتے ہیں اور ان کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں ۔ اپنی رائے استعمال کرنے والا ہر و وٹر جمہوریت کے اس عمل میں حصہ لینے پر مبارکباد کا مستحق ہے۔

آخر میں ہم الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ان کے عملے کی خدمات کا بھی اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ بالغ رائے دہی کی میعاد ر ہونے والے پہلے انتخابات میں انتظامات کا اس قدر اطمینان بخش ہونے اور مجموعی طور پر انتخابی عملے کا پوری تندہی، غیرجانبداری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینا فی الواقع قابل فخر ہے ان کی خدمات کو ہر شخص قدرکی نگاہوں سے دیکھتاہے دل کی گہرائی سے ہماری یہ دعا ہے کہ بحالی ٔ جمہوریت نے باقی اہم مراحل بھی خوش اسلوبی سے طے ہو جائیں اور پاکستان ایک مثالی جمہوری مملکت بن کر دنیا کے نقشے پر چمکے۔