ملک کے آئین کا مکمل اتفاق رائے سے منظور ہونا جس قدر مسرت انگیز واقعہ ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً چند دن قبل دستوری بحران کی جو کیفیات سامنے تھیں ان کے پیش نظر کون کہہ سکتا تھا کہ ہمیں ایک متفقہ آئین مل سکے گا لیکن صدر بھٹو نے جس دُور اندیشی اور تدبیر کا ثبوت دیا ہے اس نے مایوسی کو امید اور جوش و خروش میں جاری رہا۔
انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وہ مصالحت پر یقین رکھتے ہیں اور اختلافات کو ایسے مرحلے تک کبھی نہیں لے جانا چاہتے جہاں سے واپسی ناممکن ہو، ان کے اس تعمیری نقطہ ٔ فکرسے نہ صرف موجود دشواری مسائل حل ہوئے ہیں بلکہ مستقبل کے لئے بھی امید بندھ گئی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ دستوری دستاویز میں سے خامیاں دور کرنے اور مختلف پارٹیوں کے نقطہ ٔ نظر کو جگہ دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی پہلو قابل ترمیم و اصلاح رہ گیا ہے تو صدر بھٹو کے الفاظ میں مصالحت کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ چنانچہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی ترمیم ضروری ہوئی تو صدر بھٹو اور رکن قومی اسمبلی اس پر بھی پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ غور کریں گے۔ یہ ضمانت صرف دستور میں ترمیم کے لئے نہیں بلکہ دراصل پاکستان کی بقاء اور ترقی کے لئے ہے لہٰذا اسے تمام حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اسے قومی سیاست میں نیک شگون قراردیا جائے گا۔ یہ ضمانت موجود ہے تو انشاء اللہ ہمارا دستور ہر دور کے تقاضوں کے مطابق بہتر ہے بہتر بنایا جاتا رہے گا اور اس کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی۔
حزب اقتدار و حزب اختلاف نے باہم اتفاق رائے سے دستور کی منظوری دے کر اہم ترین ملکی ضرورت پوری کی ہے۔ اس وقت پاکستان جن حالات سے دوچار ہے ان میں کرنے کا سب سے بڑا کام یہی تھا کہ پاکستان میں عوام کی حاکمیت اعلیٰ کو تمام شکوک وشبہات سے بالاتر قراردیا جائے اور وفاقی و پارلیمانی جمہوریت کی راہ پر قدم آگے بڑھانے کی تیاری کی جائے۔ اس کے علاوہ ان بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بھی آئین سب سے زیادہ ضروری تھا جو پاکستان کو نت نئے مصائب میں گرفتار کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں اور جن کا کچھ احساس اب بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ بات نہایت مسرت انگیز ہے کہ ان خطرناک حالات میں ہماری بے آئینی مملکت کو آئین کی سرفرازی نصیب ہوئی۔
اس طرح ہمیں وہ سب ذرائع حاصل ہو گئے جنہیں کام میں لاکر ہم پاکستان کے تمام دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اب ہماری پسماندہ قوم ترقی و کامران کی گمشدہ راہوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ہم قائداعظم کے ارشادات کے مطابق پاکستان میں ایسا متحد، منظم اور انصاف و یقین کی دولت سے مالامال معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس کی دنیا میں مثال دی جائے۔
ترقی و خوشحالی کی راہ پر سب سے بڑی رکاوٹ دُورہوگئی ہے لہٰذا خدائے بزرگ و برتر اب ہمیں تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھنے کی توفیق دے تاکہ ہم سب کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہمارا وطن تمام خطرات و مصائب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تحفظ ہو جائے (آمین) مجلس دستور ساز زندہ نہیں پاکستان پائندہ باد۔