السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
یک جان، دو قالب ہیں
رنگ برسے، بھیگے چُنر والی رنگ برسے … سالِ نَو کا دوسرا شمارہ اپنے تازہ چمن میں ’’کلر آف دی ایئر 2022ء‘‘ ویری پیری (پیری وینکل بلیو)، کاسنی مائل نیلا لیے نمودار ہوا، تو اس ٹھنڈے، پُرسکون، خاموش و رومانی رنگ نے یوں طمانیت، طراوت و تازگی کا احساس دلایا کہ گنگنا اُٹھے ؎ اب طمانیت بہت محسوس ہوتی ہے مجھے..... ہوگیا ہم سخن نیلا سمندر اور میں۔ اس پر آپ کی روح پرور تحریر نے پیراہنوں کی دل کشی کو ایسے چار چاند لگائے کہ کیا کہنے۔ ’’جشنِ سالِ نَو کے منفرد انداز‘‘ سے رائو محمّد شاہد اقبال رُوشناس کروا رہے تھے، توسندھ کے چند تاریخی مقامات بھنبھور، مکلی، شاہ جہانی مسجد اور کینجھر جھیل کا مطالعاتی دورہ محمّد کاشف نے کروایا۔ ’’ایک عورت کا درد کیاجانو‘‘ سال 2021ء میں ’’وجودِ زن‘‘ پر بیتی ہر کہی اَن کہی کو رئوف ظفرنے اپنے عُمدہ رائٹ اَپ میں سمویا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ فرید کی تحریر ’’پلک جھپکتے میں کٹتے ہیں روز و شب، مہ وسال‘‘ ایک خُوب صُورت تحریر تھی۔ ادب/ نگارشات کا کمال احاطہ کیا، ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر نے۔ سلور اسکرین، ٹی وی اسکرین، سائنس /آئی ٹی ،کھیل کھلاڑی سب تجزیات ایک سے بڑھ کر ایک معلوم ہوئے۔ رانجھا صاحب کا افسانوی رنگ ’’اُمید‘‘دل میں اُمید کی جوت جگا گیا۔ اور میگزین کی جان و رُوح ’’آپ کا صفحہ‘‘ کہ ہم یک جان، دو قالب ہی تو ہیں۔ ہمیشہ کی طرح خُوب چمکتا دمکتا، چہکتا مہکتا ہی پایا۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ایک شاہ کار، مکمل دستاویز
اُمید کرتی ہوں کہ آپ اچھی ہوں گی۔ شاید مَیں پورے ایک سال بعد آپ سے مخاطب ہو رہی ہوں۔ بس گزر ہی گیا، گزشتہ سال بھی۔ سالِ نَو ایڈیشن کے ’’حرفِ آغاز‘‘ میں آپ کا پورے سال کا مختصر جائزہ ہمیشہ کی طرح سال بَھر کا سب سے خُوب صُورت و دل نشیں، جامع و مکمل رائٹ اَپ تھا۔ کسی بھی پہلو سے کسی تشنگی کا کوئی احساس نہیں ہوا۔ خصوصاً اختتام پر ڈاکٹر شاہدہ حسن کے دل آویز اشعار نے تو جیسے سماں باندھ دیا۔ دیگر تمام سلسلے وصفحات بھی اپنی اپنی جگہ شان دار انداز میں مرتّب کیے گئے۔ غرض کہ جریدہ بظاہر چھوٹا سا، لیکن حقیقتاً ایک مکمل دستاویز، شاہ کار تھا۔ جس کی صدقِ دل سے تعریف وتوصیف آپ کاحق بنتاہے۔ رہا’’آپ کا صفحہ‘‘ تو اس پر وہی ہما ہمی اور گہما گہمی نظر آئی۔ آپ کےبرجستہ جواباً سے سب ہی بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)
ج: آپ سال بھر کہاں اور کیوں غائب رہیں، پہلے تو اس سوال کا جواب دیں کہ اس بزم میں ایک اکلوتی آپ ہی تو ہماری ہم نام ہیں۔
آخر کام تمام کیا…
منورمرزا ’’عالمی اُفق‘‘ پر چھائے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع نے منہگائی کا ذکر کیا اور منی بجٹ کو ہارٹ اٹیک سے تشبیہ دی۔ میر تقی میرکا مصرع ہے ؎ اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ جواباً میں کہتا ہوں ؎ دیکھا، اس بیمار حکومت (بیماریٔ دل) نے آخر کام تمام کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے بھی اس نالائق حکومت کو اچھا لتاڑا۔ ’’آفات‘‘ میں وحید زہیر 2021کی سب ہی چھوٹی، بڑی آفات کا احوال بیان کر رہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر عرفان عزیز نے وفاقی اردو یونی ورسٹی کی حالتِ زار پر توجّہ مبذول کروائی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سالِ نَو کی مناسبت سے افسانہ ’’اسیر‘‘ شایع کیا گیا، اچھا افسانہ تھا۔ اختر سعیدی کے تو ایک ایک مصرعے پر ’’آمین ‘‘ کہتا رہا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات بہترین تھے۔ اگلے شمارے کے خُوب صُورت سلسلے میں حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمتہ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر کیا گیا، پڑھ کر ایمان تازہ ہوا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ پر منور مرزا کی گرفت تو مضبوط نظر ہی آئی، ’’پیارا گھر‘‘ کے بیش تر مضامین بھی پسند آئے۔ 30جنوری کا شمارہ بھی سامنے ہے۔ ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ میں مولانا جلال الدین رومیؒ کا ذکر کیا گیا۔ پہلا حصّہ پڑھنے کے بعد اگلا حصّہ پڑھنے کو دل مچل رہا ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور راجپوت نے صدارتی نظام کا صحیح تجزیہ کیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر محمّد افضل میاں نے سرطان پر بڑا معلوماتی مضمون تحریر کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثمرین مسعود کا آزادیٔ کشمیر کے حوالے سے لکھا گیا افسانہ شان دار تھا،مگراس بار بھی آپ کا صفحہ ‘‘ میں میرا خط شامل نہیں تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج:متعدّد بار درخواست کی گئی ہے کہ ایک تحریر شایع ہونے سے پہلے دوسری نہ بھیجیں، مگر لوگ ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں، تو پھر مجبوراً ہمیں اسی طرح3،3خطوط کا ملغوبہ بنا کر شایع کرنا پڑتا ہے۔
کافی خوش شکل ماڈلز
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں ہی میں خاص الخاص صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھے۔ ’’2022ء اور پاکستان‘‘ خارجہ پالیسی سےمتعلق ایک بہترین تجزیاتی تحریر تھی۔ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے روحِ رواں، مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے اپنے انٹرویو میں درست کہا کہ ممنوعہ جال نے سندھ کا ساحل بانجھ کردیا، اب بلوچستان نشانےپرہے۔اہم تاریخی مواقع کی مناسبت سے یادگاری ڈاک ٹکٹس پرمضمون ریکارڈ میں رکھنے کے لائق ہے۔ ’’کچھ احوال بنکاک کا…‘‘ پڑھ کر تو ہمارا دل بھی مچلنے لگا کہ جیسے بھی ممکن ہو، بنکاک دیکھنے ضرور جائیں۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات عالیہ لکھ رہی ہیں۔ اس کے باوجود ماڈلز کافی خوش شکل آرہی ہیں۔ معروف موٹیویشنل اسپیکر، خواجہ رضوان شجاع کا انٹرویو خُوب رہا۔ صدارتی نظام کاتجربہ اگر عوام کے مفاد میں ہے،تو ضرور ہونا چاہیے بلوچستان کے قدیم شہرِ خموشاں سےمتعلق بھی پڑھا، معلوماتی مضمون تھا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کےنام‘‘ کی دوسری قسط میں ناچیز کا پیغام بھی شامل ہوگیا، بےحد شکریہ۔ سیّد زاہد علی کے خط کے جواب میں آپ نے اُنہیں نواب زادہ صاحب کےبعد دوسرا سیانا قرار دیا، جب کہ نازلی فیصل تو میری تعریف و توصیف کررہی تھیں۔ ویسے یہ اُن کا حُسنِ نظر ہے، محمّد سلیم راجا نے کمال کردیا۔سال بھر کے مضامین کی فہرست پیش کرڈالی۔ ویسے پچھلے تین چارسالوں میں راجا صاحب تو سنڈے میگزین سے وابستہ تمام ہی افراد کے دلوں میں گھر کرچُِکے ہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج:شہزادے صاحب کے دل میں راجا صاحب گھر نہیں کریں گے، تو کون کرے گا۔ اور جی ہاں، آپ نے صحیح نوٹ کیا، ماڈلز کافی خُوش شکل آرہی ہیں، لیکن اب ہمارا اچھی ماڈلنگ دیکھ کر بھی رائٹ اَپ لکھنے کو دل نہیں کرتا۔ برس ہا برس سے ایک ہی کام کرتے کرتے جی اوب سا گیا ہے۔
’’آدمی‘‘ کے ساتھ آئے ہیں
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نےحوثی باغیوں کے متعلق اچھی معلومات فراہم کیں۔ بہت عرصے بعد علی احمد کُرد کی گفتگو سُننے کو ملی۔ بہت ہی عُمدہ اورکمال باتیں کہیں،انٹرویو پڑھ کے لُطف آگیا۔ سرِورق کی ماڈل اور اُس کاجوڑا دونوں پسند آئے۔ عرفان جاوید کا شکریہ کے ’’آدمی‘‘ کے ساتھ آئے ہیں اور پورے سنڈے میگزین پر چھا سے گئے ہیں۔ پیارے گھر میں دستر خوان سجا ہوا تھا، دیکھ کر طبیعت فریش ہوگئی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی پسند آئے۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مولانا جلال الدین رومی پرمحمّد احمد غزالی کا لکھا ہوا مضمون پڑھا، واللہ کیا کمال تحریر لکھی گئی،پڑھ کے دل باغ باغ ہوگیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور راجپوت نے صدارتی نظام پر جو کچھ بھی تحریر کیا، وہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرا ہے۔ یوں لگا، جیسےماضی کی کوئی فلم سی چل گئی ہو۔ سرِورق کی ماڈل سے متعلق تو آپ نے کہہ دیا ؎ چہرہ کتاب ہو جیسے..... تو پھر کہنے کو باقی کیا رہ گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اچھا جا رہا ہے،معیارخاصابلندہوگیاہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کا بھی جواب نہیں،موسم کالُطف دوبالا کردیاآپ نے۔’’نئی کتابیں‘‘ کے تبصرےپسندآرہےہیں۔ سعیدی صاحب کریں یا منوّر راجپوت۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ اچھے انداز میں مرتّب کیا گیا۔ ملک محمّد رضوان کے خط تو پڑھنےکو نہیں مل رہے، مگر پیغام پڑھنے کو ملا، اچھا لگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج:ملک محمد رضوان خط لکھ نہیں رہے، تو آپ کو پڑھنے کو بھی نہیں مل رہے، پیغام انہوں نے لکھ بھیجا تھا، تو آپ نے پڑھ بھی لیا۔
بہاریں، مہکاریں، چاہتیں، مُسکراہٹیں
اتوارکی اس خُوب صُورت صبح کی ساری بہاریں، مہکاریں، چاہتیں، مُسکراہٹیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور میری دُعائیں، سب آپ کے اور سنڈے میگزین کے تمام لکھاریوں اورقارئین کےلیےہیں کہ جریدہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتاہے۔ ایک سےبڑھ کرایک سلسلہ چُھٹی کا پورا دن خوش گوار سا کر دیتا ہے۔ (شرلی مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ،شکار پور)
دریائے نیلم کے کنارے …
ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ سالِ نو ایڈیشن سے پہلے ختم ہوگیا۔ ناول پڑھ کےگمان ہوتا تھا کہ شاید کرن عباس نے یہ ناول دریائے نیلم کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہو، کیوں کہ کشمیر کے پورے سفر کے دوران یہ دریا ساتھ ساتھ چلتا ہے،کہیں تو اس کا پانی نہایت شفّاف ہے اور کہیں کچھ گدلا، دُھندلا سا۔ بالکل ناول دُھندلے عکس کی طرح۔ ناول ٹھیک تھا، مگر فلسفیانہ باتوں کی بھرمار سے کچھ بوجھل سا ہوگیا۔ پھرساری اقساط میں ایک ہی اسکیچ چَھپتا رہا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اب کوئی تاریخی ناول شروع کریں۔ ممکن ہو تو پرانے ناول نگاروں ہی میں سےکسی کا ناول شروع کردیں۔ عالمی حالات کے نبض شناس، منور مرزا کامضمون بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ خلائی سائنس دان کا یہ کہنا کہ اب دوسرے سیّاروں پر بھی انسانی بستیوں کا خواب پورا ہوجائےگا،ہمارے خیال میں تو ممکن نہیں، کیوں کہ انسان کااپنی بناوٹ کے لحاظ سے کسی دوسرے سیّارےپررہنا ناممکنات میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رحم و کرم سے صرف زمین ہی کو رہنے کے قابل بنایاہےتوہمیں چاہیےکہ اسی پرامن ومحبّت سے رہیں اور روزِ قیامت کو ذہن میں رکھیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا …ہسدیاں رات لنگی، پتا نہیں سویر دا۔ اور آخر میں ’’سالِ نَو ایڈیشن‘‘ کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا نام بھی شامل کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، ڈاک خانہ باغ بان پورہ، لاہور)
ج:کسی شایع شدہ ناول کی دوبارہ اشاعت سنڈے میگزین کی پالیسی کے خلاف ہے۔ سو، ناول تو کسی نئے ناول نگار ہی کاشروع کیا جا سکتا ہے۔
عقل مند قاری کا دلی سُکون …
ہردل عزیز سنڈے میگزین پوری آب و تاب کے ساتھ دِلوں کو منوّر کرنے آ پہنچاہے۔ وائو!! افسانوں، غزلوں او رخطوط کےامتزاج سےدل شادہوگیا۔ تمام لکھاری بھائی، بہنوں کو سلام پیش کرتی ہوں اور آپی نرجس ملک اور اُن کی ٹیم کی کاوشوں کی داد دیتی ہوں۔ دُعاگو ہوں کہ اللہ عزّو جل سب کو دونوں جہاں کی خوشیاں، راحتیں عطا فرمائے۔ اقصیٰ منور ملک نے قارئین کے لیے پندو نصائح اور خُوب صُورت الفاظ کاجو چنائو کیا، پڑھ کے دلی سُکون ملا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حنا سردار، مریم ناز اور شائستہ فیض کی تراکیب کا جواب نہ تھا۔ ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں نورالہدیٰ محمّد اسلم کی چٹھی نے بہترین چٹھی کا اعزاز پایا، مبارک ہو۔ سچّی بات کہوں تو بیش تر خطوط نگاروں مثلاً چچا چھکّن، محمد اسحاق راہی، ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، نواب زادہ خادم ملک، فہیم مقصود، اسماء خان دمڑ، اقصیٰ منور ملک، پیر جنید علی چشتی اور راجہ افنان وغیرہ کی قلمی مہارت اور تجربہ ہی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کو خُوب سے خُوب تر بناتے ہیں۔ بعدازاں، اُن کی جس انداز میں حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہ بھی موتیوںمیں تولنےلائق ہے۔ نیز، جریدے کے لیے تحریروں کا انتخاب، سُرخیوں کا انداز، تصاویر کامعیار،خطوط کی ترتیب دیکھ کر ہر عقل مند قاری دلی سُکون پاتا ہے۔ اللہ پاک آپ پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے۔ (امّ حبیبہ، چکوال)
ج: دُعائوں میں یاد رکھنے کا بے حد شکریہ۔ مگر… خط کی بیش تر باتیں (جو ایڈٹ کر دی گئیں) ہمارے سر کے بہت اوپر سے گزرگئیں۔ سمجھ تو خیر ’’ہر عقل مند قاری کا دلی سُکون‘‘ بھی نہیں آیا، لیکن اب کچھ تو آپ کافلسفہ بھی چَھپنا ہی چاہیے تھا۔
فی امان اللہ
کبھی خوشی کبھی غم، نقارئہ زندگانی کے ہیں زیر و بم۔ کہ انسان کا دل شاد ہوتو نغمۂ نشاط گاتا ہے اور اگر ناشاد ہوتو پھر نغمۂ غم۔ زیرِتبصرہ شمارے کی حسینۂ سرِورق کسی اُداس فلمی ہیروئن کی طرح سَر تے بانہہ رکھ کر شاید زیرِ لب گنگنا رہی تھی ، ’’سُنی اے تو کُوک میری، سُن کدی ہُوک وے…‘‘ شمارے کے ابتدا سے، ’’عالمی افق‘‘ کے پیش لفظ میں منور مرزا نے اِک اہم نکتہ پیش کیا کہ گزشتہ صدیوں میں فوجی برتری پر زور دیا جاتا تھا، اب عوام صرف اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور بس۔وحید زہیر نے ’’آفات‘‘ میں یہ خبر دی کہ ’’2021ء میں پاکستان کسی بڑی آفت سے محفوظ رہا۔‘‘برادرم! 2018ء سے وطن عزیز میں جو آفت آئی ہوئی ہے، بھلا اس سے بڑھ کر المیہ بھی کوئی ہوسکتا ہے۔’’سنڈےاسپیشل‘‘میں لٹل مسٹریس، شفق رفیع کا تبدیلی سرکار کودیاگیاڈیڑھ صفحاتی ہدیۂ تشویش پڑھا اور بڑی دیر سَر دُھنا۔ ڈیجیٹل ڈاکٹر، رائو محمّد شاہد اقبال نے بجا کہا ’’سوشل میڈیا کی نیلم پَری کو قید کرنے کی کوئی بھی کاوش مکمل طور پرکام یابی سے ہم کنار نہ ہو سکی۔‘‘ وگرنہ سوشلیائی بُھوتوں نے اربابِ اختیار کےجِن کَڈدینے تھے؎ اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے… زندہ ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔ اور ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ہم شہر و ہم دَم، ڈاکٹر رانا محمّد اطہر رضا کی تصویر دیکھ کر پہلے پہل تو ہماری دُکھتی داڑھ کی رَگیں پھڑک اٹھیں۔ تاہم جوں جوں تحریر (بحوالہ چہرہ) پڑھتے گئے تو دل کو قرار اور اُن پر پیار آتا گیا۔ ’’اسٹائل‘‘ کی بیوٹی ٹائل پہ اس بار لکھا تھا ؎ بھیگی ہوئی فضا سے نکھرنے لگی ہے شام۔ تو ہم اس پہ یہ شعر شُرلی پھوڑ کر بھاگ آئے ؎ جھیل سی آنکھوں سے بھر دو دل کے جام۔ وفاقی اردو یونی ورسٹی کی بحالی کے لیے ڈاکٹر عرفان عزیز کی درد بھری فریاد سُن کر بلبلِ غم، گلوکار رائو مراتب علی یاد آگئے ؎ کہیں دیپ جلے کہیں دل، تیری کون سی ہے منزل…پیارا گھر میں ’’غیرمعیاری کاسمیٹکس‘‘ پر دو حرف بھیجے گئے۔ افسانوی مسیحا ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے ’’اُمید‘‘ کے پتواروں سے کورونائی عفریت کےخُوب گوڈے سیکے اور سالِ نَو کے لیے اختر سعیدی کی طرف سےپیش کردہ محبّت کے پھولوں کو ہم نے دل دے سب تُوں اچے گل دان پر سجالیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’قاری صاحب کے دُنبے‘‘ کی تصویر بڑی پیاری تھی اور ’’نئی کتابیں‘‘ میں اِک شعری مجموعے(برملا) پر تبصرہ بھی برملا کیا گیا۔ (’’کتاب میں کوئی شعر یا مصرع، وزن میں نہیں ہے‘‘) چِٹھی نگر (آپ کا صفحہ) کے تختِ طائوس پر وادئ مہران کی شہزادی، امامہ طمطراق سے متمکّن تھیں۔ مبارک ہو! نیا سال شروع ہونے پر مدیرہ صاحبہ نے اعزازی چِٹھی کا رنگ و روپ بدل دیا ہے۔ تو اب ذرا چِٹھی نگاروں کے نام بھی رنگین شایع فرمادیں تو کیا باتاں ہوں۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: غالباً چِٹھی نگاروں کے نام رنگین نہ کرنے کی وجہ ہم پہلے بھی بتاچُکےہیں کہ نیوزپرنٹ پر چَھپی تحریر کے الفاظ سیاہ رنگ میں جتنے واضح پڑھے جاتے ہیں، کسی اور رنگ میں نہیں۔
* مَیں نے ایک کہانی اور ایک تحریر ارسال کی تھی، تاحال کچھ اتاپتا نہیں ہے۔ کیا آپ کا یہ ای میل ایڈریس صرف ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی ای میلز ہی کے لیے مختص ہے یا اِس پر کسی بھی صفحے کے لیے کوئی بھی مضمون بھیجا جاسکتا ہے۔ (فیصل القدسی، پنّوں عاقل، سندھ)
ج: اس ای میل ایڈریس پر سنڈے میگزین کے کسی بھی صفحے کے لیے، کوئی بھی تحریر بھیجی جا سکتی ہے۔ یہ آئی ڈی باقاعدگی سے ہرروز چیک ہوتی ہے اور پھر تمام تر تحریریں متعلقہ صفحہ انچارجز کو فارورڈ کردی جاتی ہیں۔ جب کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے آنے والی ای میلز ایک علیحدہ فولڈر میں تاریخ اور نام کےساتھ محفوظ کرلی جاتی ہیں۔ ہر قابلِ اشاعت تحریر باری آنے پر شایع ہوجاتی ہے اور ناقابلِ اشاعت تحریروں کی بھی باقاعدہ فہرست مرتّب ہوتی رہتی ہے، جسے وقتاً فوقتاً شایع کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور ہمارے خیال میں آج کے دَور میں اتنا مربوط نظام غالباً صرف اسی ایک جریدے کے تحت کام کر رہا ہے، کم از کم ہم نے تو کہیں اور ایسا ہوتا نہیں دیکھا۔
* اُمید ہے، آپ اچھی ہوں گی۔ مَیں سڈنی، آسٹریلیا میں رہتی ہوں، لکھنے پڑھنے کا بہت شوق ہے اور آن لائن ’’سنڈے میگزین‘‘ کی باقاعدہ قاریہ ہوں۔ آپ جس طرح ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں لوگوں کے خطوط کے جوابات دیتی ہیں، پڑھ کے بہت ہی لُطف اندوز ہوتی ہوں۔ یقین کریں، یہاں پردیس میں دیس کا مزہ آجاتا ہے۔ چوں کہ میرے بچّے اسکول جانے کی عُمر کو پہنچ چُکے ہیں تو کافی وقت فراغت کا مل جاتا ہے اور مَیں اِس وقت کو کسی مثبت سرگرمی میں استعمال کرنا چاہتی ہوں، مثلاً کچھ لکھنے پڑھنے میں، تو آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ اگر مَیں اپنی کوئی تحریر اسکین کرکے آپ کو ای میل کروں تو آپ اُسے قابلِ توجّہ جانیں گی۔ (عائشہ، سڈنی، آسٹریلیا)
ج: ویسے تو ہم اُردو اِن پیج میں کمپوزڈ فائلز (تحریروں) ہی کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اب چوں کہ آپ کی مجبوری ہے، تو آپ اِسکینڈ فائل بھی بھیج سکتی ہیں۔ تحریر قابلِ اشاعت ہوئی تو اِن شاء اللہ تعالیٰ ضرور شایع کردی جائے گی۔
* مَیں ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے سبق آموز واقعات بہت ہی شوق سے پڑھتا ہوں۔ (محمود خان نصر، ژوب، بلوچستان)
ج: شکریہ۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk