• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ناقابلِ اشاعت میں نام کیوں؟

23جنوری 2022ء کا سنڈے میگزین پڑھا، کافی اچھا تھا، کسی جگہ کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی، لیکن ایک جگہ ’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں اپنا نام دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ آپ براہِ مہربانی مجھےاس کا ریزن لازمی بتائیں، تاکہ مَیں آئندہ بھی آپ کو اچھی اچھی تحریریں ارسال کرتا رہوں۔ (عامر علی، منظور کالونی، کراچی)

ج: ایک سب سے بڑا ریزن تو یہ ’’ریزن‘‘ ہی ہے۔ آپ فی الحال ’’سنڈےمیگزین‘‘ کاباقاعدگی سے مطالعہ جاری رکھیں۔ ابھی آپ کو بہت کچھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ سو، لکھنے لکھانے کی بجائے مطالعے پر زیادہ توجّہ دیں۔

سوالات کے جوابات

2؍جنوری کا شمارہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ابتدا ہی میں آپ کی تحریر ’’حرفِ آغاز‘‘ شایع ہوئی، جس میں آپ نے گزشتہ سال پر بہت عُمدگی سے روشنی ڈالی۔ خصوصاً جو شعر و شاعری کا تڑکا لگایا، اس نے تو کمال ہی کردیا۔ تمام ہی اشعار وقت اور موقعے کی مناسبت سے لاجواب تھے۔ طلعت عمران نے ’’امّتِ مسلمہ‘‘ کے حالات پر روشنی ڈالی۔ محمّد بلال غوری نے’’خار زارِ سیاست‘‘کا کچّا چٹھا سامنے رکھا۔ اویس یوسف زئی ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ کی کارکردگی بیان کررہے تھے۔ ’’بساطِ عالم‘‘ منور مرزا نےخوب مہارت سے سجائی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ تو ڈاکٹر ناظر محمود کی اسپیشلٹی ہے۔ ونگ کمانڈر محبوب حیدر نے افواجِ پاکستان کے کارہائے نمایاں بیان کیے، تو فاروق اقدس ’’ایوانِ نمائندگان‘‘ کے حالات کا رونا رو رہے تھے۔ چاروں صوبوں، آزاد کشمیر کا منظرنامہ بھی نہایت عُمدگی سے پیش کیا گیا۔ ہمارے خطوط شایع کر کے اور خصوصاً پوچھے گئے سوالات کا جواب دے کر تو آپ ہمارا دل ہی جیت لیتی ہیں۔ اگلا شمارہ ’’سال نامہ پارٹ ٹو‘‘ تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّدشاہد اقبال نے سالِ نَو کےجشن منانےکے انداز سے آگاہ کیا۔ محمّد کاشف نے سندھ کے چند تاریخی مقامات کا دورہ کروایا۔ ’’علاج معالجہ‘‘ میں بابر علی اعوان اور ’’جمع تفریق‘‘ میں منور مرزا کے اچھے تجزیات پڑھنے کو ملے۔ پیارا گھرمیں روبینہ فرید اورڈاکٹر عزیزہ انجم کے مضامین بار بار پڑھنے کے لائق تھے۔ اور میرے خط کے جواب میں، آپ نے کیٹ واک/ ریمپ واک کی وضاحت کی، بے حد شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: جی، بس ہم تو یہی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کسی قاری کو ہم سے کوئی فیض پہنچ سکتا ہے، تو ضرور پہنچے۔

ایڈیٹنگ کا کرشمہ

سنڈے میگزین کے گل دستے میں منور مرزا اپنے قلم سے انسانیت کی محبّت کے وہ پھول چُنتے ہیں کہ پھر اُن کی خُوش بو پُورے گل دستے پر حاوی نظر آتی ہے۔ ’’نیا سال، نئی حکمتِ عملی‘‘ کیا ہی شان دار تجزیہ تھا۔ بہترین قلم کار، شفق رفیع کے اندازِ تحریرکابھی جواب نہیں۔’’سوشل میڈیا‘‘کے مرکھنے بیل کو واقعی لگام ڈالنےکی ضرورت ہے۔ رائو محمّد شاہداقبال نےصدفی صددرست کہا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف نے رنگ و انداز کی بات چھیڑی۔ ڈاکٹر غلام صدیق اینٹی بایوٹکس کے غیر ضروری استعمال سے روکتے نظر آئے۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا تو جب بھی آتے ہیں، چھا جاتے ہیں۔ ’’اُمید‘‘ کے ساتھ ہمیں بھی کچھ اُمیدیں دِلا گئے۔ اختر سعیدی دُعاگو تھے کہ نیا سال گہوارئہ امن ہو۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘سبق آموز واقعات سےمزیّن تھا۔ اور اب باری ہے، سنڈے میگزین کے سب سے مہکتے صفحے کی، جو آپ کا، میرا اور ہم سب کا صفحہ ہے۔ تمام ہی خطوط اُجلے، نکھرے نکھرے لگے، جو یقیناً آپ کی شان دار ایڈیٹنگ ہی کا کرشمہ ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)

ج:آپ کو اس بات کا اندازہ یقیناً اپنےلکھےخط اور شایع شدہ خط کے موازنے کے بعد ہی ہوا ہوگا۔

اچھوتا، انوکھا نمبر

گل ہائے عقیدت! سنڈے میگزین کی نئی آب و تاب دیکھ کر دل اتنا خوش ہوا کہ میرا بلڈ پریشر نارمل ہوگیا۔ سنڈے میگزین کی تحریروں سے مَیں جتنا متاثر ہوں، کبھی کم ہی کسی تحریر سے ہوتا ہوں۔ ایک خواہش ہے، کیا کبھی سنڈے میگزین کا کوئی اچھوتا، انوکھا نمبر مثلاً افسانہ نمبر، کہانی نمبر وغیرہ بھی شایع کیا جاسکتا ہے۔ کارٹونز پر مبنی ایک صفحہ بھی جریدے کا حصّہ ہونا چاہیے۔ ہاں، نئے سال کے موقعے پر میرا پیغام شایع کرنے کا بےحد شُکریہ۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی، لاہور)

ج:سنڈے میگزین ایک ’’فیملی میگزین‘‘ ہے، جو ہر عُمر کے افراد، ہر طبقۂ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کوئی خالص علمی وادبی جریدہ نہیں کہ جس کے اس طرح کے نمبرز نکالے جائیں، اس کے اپنے مخصوص صفحات، سلسلے ہیں اور قارئین اِسے اِسی شکل میں دیکھنا، پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

خط سے لمبا جواب

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ دونوں ہی شماروں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات موجود نہیں تھے۔ رائو محمّد شاہد کے بیک وقت دو مضامین شایع کیے گئے، جن میں سے ایک جشنِ سالِ نَو کے منفرد انداز کےحوالے سے تھا، دوسرا نت نئی اختراعات، دل چسپ ایجادات سے متعلق۔ ’’درس و تدریس‘‘ کے حوالے سے شفق رفیع کی تحریر خاصی جامع اور معلوماتی تھی۔ ’’خواتین‘‘ سے متعلق بھی چشم کُشا حقائق بیان کیے گئے۔ اِس بار ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر آپ کا رائٹ اَپ تھا۔ کافی عرصے بعد آپ کی تحریر پڑھنے کو ملی۔ ’’کلر آف دی ایئر 2022‘‘ (کاسنی رنگ) پر آپ نے کیا کیا نہ لکھ ڈالا، خُوب صُورت اشعار تو مَیں نے اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیے ہیں۔ گرچہ سالِ گزشتہ اقتصادی بحالی کا سال تھا، مگر ہوش رُبا منہگائی نے واقعی مار ڈالا۔ شُکر ہے کورونا کا زور ٹوٹنے کے بعد کھیلوں کی سرگرمیاں بھی بحال ہوئیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کی پہلی قسط شایع ہوئی، مگر ہمارا پیغام غائب تھا۔ چلیں، اگلی قسط کا انتظار کیے لیتے ہیں۔ ’’نیا سال، نئی عالمی حکمتِ عملی‘‘ بہترین تجزیہ تھا۔ اللہ کرے، خان صاحب اپنے آخری سال ہی میں عوام کے لیے کچھ اچھا کرجائیں۔ تین عظیم پہاڑوں کے سنگم پر واقع گلگت، بلتستان کی سیر کی دل چسپ رُوداد لُطف دے گئی۔ پیر جنید علی چشتی، اسٹائل کے صفحات کا بڑی عمیق نظری سے جائزہ لیتے ہیں، حالاں کہ ابھی تو وہ اسیر ہیں۔ بے کار ملک نے آپ کو جوابات کی کاٹ سے مزید زخمی کرنے سے گریز کا مشورہ دیا، تو آپ نے انہیں اُن کے خط سے بھی لمبا جواب دے کر گویا لاجواب کردیا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:ہمیں کسی کو بھی ’’لاجواب‘‘ کرنے کا قطعاً کوئی شوق نہیں۔ مگر بعض لوگ زِچ ہی اتنا کر دیتےہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہنا پڑجاتا ہے۔

’’خوفِ خدا ‘‘ نام کی کوئی چیز…؟

’’نیا سال ،نئے جلوے‘‘ کے مصداق، ہم تعریف و توصیف کے ٹوکروں کے ساتھ اسپیشل اپیئرنس کے لیے تیار ہیں۔ سنڈے اسپیشل میں ’’جشنِ سالِ نَو کے منفردانداز‘‘ ایک دل چسپ مضمون تھا۔ کہیں جانوروں سے باتیں کی گئیں، تو کہیں پاگلوں جیسی حرکات و سکنات دیکھنے میں آئیں۔ سالِ گزشتہ کی آفات اور نامعقول سیاسیات وغیرہ پر رپورٹس بھی موجود تھیں۔ آگے بڑھے تو ’’سندھ کے چند تاریخی مقامات‘‘ کی سیر کرکے ایک دم فریش ہوگئے۔ سیر مختصر، لیکن خُوب معلوماتی تھی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں شایع شدہ غزل کے ساتھ کتاب کا نام ’’انجیل صحیفہ ‘‘ درج تھا۔ ایسی عاشقی معشوقی والی شاعری کے ساتھ ایسا مقدّس حوالہ، خوفِ خدا نام کی کوئی چیز ہے آپ لوگوں میں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں معلوماتی مضمون شایع کیا گیا۔ ٹی وی اسکرین، سلور اسکرین، سائنس، آئی ٹی اور کھیل کھلاڑی پر رپورٹس بھی لائقِ مطالعہ تھیں۔ جلدی جلدی ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں قدم رکھا، تو؎ دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار..... جب ذرا گردن جُھکائی، دیکھ لی کےمصداق اپنے خطوط کی تعریفیں پڑھ کر خوشی سے لال گلال ہوگئے۔ دُعا ہے کہ کبھی ہمارا بھی کوئی خط ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ ٹہرے۔ (آصف احمد، ملیر، کراچی )

ج:’’عقلِ سلیم‘‘ نام کی بھی ایک چیز ہوتی ہے، جس کے استعمال کا حُکم ہے، نہ کہ استعمال کی ممانعت کی گئی ہے۔ ’’انجیل صحیفہ‘‘ کسی کتاب کا نام نہیں، عاشقی معشوقی کی شاعری کرنے والی شاعرہ ہی کا نام تھا۔ تو جب ہم اُن کے اشعار نقل کر رہے تھے، تو کیا اُن کا نام ہٹا کر وہاں آپ کا مقدّس نام لکھ دیتے۔

ویاہ تو نہیں کھڑک گیا؟

مَیں چار سال بعد حاضرِ خدمت ہوں۔ آپ نے اپنا وعدہ نہ صرف یاد رکھا بلکہ 23جنوری کے شمارے میں ہائپو تھائی رائیڈ مرض سے متعلق تفصیلی مضمون شایع کرکے اُسے پورا بھی کر دیا۔ میگزین کے تمام سلسلے حسبِ روایت شان دار تھے۔ لگتا ہے، نٹ کھٹ لڑکی اسماء دمڑ کا ویاہ کھڑک گیا ہے، تب ہی اتنے عرصے سے غیرحاضر ہے۔ آپ سے ایک مشورہ درکار ہے، اگر کوئی انسان جھوٹ پر جھوٹ بول کر آپ کی زندگی کو سوالیہ نشان بنا دے، تو اسے بددُعا دیں، خود کو مسلسل سچّا ثابت کرتے کرتے عُمر گزار دیں یا گُھٹنے ٹیک دیں۔ (عفّت رشید (فلفی ڈول) شاہین آباد، گوجرانوالہ)

ج:اسماء دمڑ اچھی بچّی بن کر اپنی تعلیم پر توجّہ دے رہی ہے۔ رہا آپ کا سوال، تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک اتنا جھوٹا شخص آپ کی زندگی میں کرکیارہا ہے، مومن تو ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا۔ کُجا کہ بار بار ڈسا جائے، دوسری بات یہ کہ ہم نے تو بچپن سے اپنے والد صاحب کی ایک بات گرہ سے باندھ رکھی ہے کہ آپ دنیا میں ہر ایک سےجیت سکتے ہیں، لیکن کسی جھوٹے شخص سے نہیں، تو جس کی گُھٹّی میں جھوٹ پڑا ہو، اُس کےسامنےخودکو سچّا ثابت کرنے یا گُھٹنے ٹیکنے سے بڑی حماقت تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ یا تو کنارہ کشی کرلیں یامعاملہ اللہ پرچھوڑ دیں۔

خُوب صُورت روایت کا احیاء

دُعا ہے کہ اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آپ کو خط لکھنے کا ارادہ اتنی بار کیا کہ گنتی بھی ممکن نہیں، اپنی ڈائری میں تین خط لکھے بھی، جو آج تک محفوظ ہیں۔ بہرحال، آج براہِ راست مخاطب ہو ہی رہی ہوں۔ آپ کو پتا ہے مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ میں پہلی تحریر کون سی پڑھتی ہوں، ’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ سرِورق تک بعد میں دیکھتی ہوں۔ اڈیالہ جیل والے صاحب کی تحریر نے بہت متاثر کیا تھا۔ اسی طرح شائستہ اظہر کاخط بھی سیدھا دل میں اُترگیا تھا۔ مجھے خط و کتابت سے زیادہ لگائو اس وجہ سے ہے کہ بچپن میں نانا، نانی کے پاس آگئی تھی تو میری امّی مجھے ہر ہفتے خط لکھا کرتی ہیں۔ مَیں ان کے خط کے لیے اس قدر بےچین رہتی تھی کہ ڈاکیے کی چاپ سے پہلے دروازے پر پہنچ جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے، اس نیک کام کا بہترین اجر دے۔ جو آپ نے ایک ختم ہوتی روایت کا احیا کیا ہے، پھر آپ کےجوابات بھی زیرِ لب مسکراہٹ بکھیر دیتےہیں۔ پتانہیں کیوں، آپ بہت اپنی اپنی سی لگتی ہیں۔ جس طرح سلمیٰ بیگ پی ٹی وی سے ایک پروگرام ’’اپنی بات‘‘ کرتی تھیں اور بہت میٹھے، شائستہ انداز میں خطوں کے جوابات دیتی تھی، بالکل وہی انداز آج کے دَور میں آپ کا ہے۔ بلاشبہ، یہ جنگ اخبار ہی کا کمال ہے کہ اب بھی کئی شان دار روایات زندہ رکھی ہوئی ہیں۔ (سپر فاطمہ)

ج: آپ نے اپنے شہر کا نام نہیں لکھا، لکھنا چاہیے تھا، اور یہ خط بھی بہت پہلے لکھ لینا چاہیے تھا، آپ جیسی خطوط نگاروں کے لیے تو یہی کہا جا سکتا ہے ؎ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ اب ہمّت کر ہی لی ہے، تو آتی جاتی ہی رہیے گا۔ آپ کی حوصلہ افزائی، دُعائوں نے تو ہمیں جیسے ایک نئی تحریک دے دی ہے۔ وگرنہ ’’اسٹائل ‘‘کے رائٹ اَپ کی طرح، اب تو خطوط کے جوابات دے دے کر بھی اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔

                           فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق دیکھ کر ماضی قریب کی مشہور ماڈل شائستہ زید کا گمان گزرا، مگرپھر آنکھیں دیکھ کر خیال جھٹک دیا۔ ’’عالمی افق‘‘ پر ماہر تجزیہ نگار، منور مرزا رقم طراز تھے کہ نئے سال میں باوجود کشیدہ حالات کے بڑی طاقتیں ایک حد میں رہیں گی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع فکرانگیز موضوع لائیں۔ عوام پیٹ کا دوزخ بھرنےسے پہلے ظالمانہ ٹیکس بَھریں، پھر چاہےخودکُشیاں کریں۔ حالاں کہ’’تبدیلی خان‘‘کا اپنا قول تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے تو بہتر ہے، مَیں خودکُشی کرلوں۔ اب اپنی خُودکُشی کا رسّہ عوام کےگلےڈال دیا ہے۔ معاشی تجزیہ کار کہہ رہےہیں کہ مِنی بجٹ تو ایک کڑی ہے، جب پوری زنجیر عوام کےسرٹوٹے گی، تو حالات کی ہول ناکی ناقابلِ برداشت ہوگی۔ ’’آفات‘‘ میں وحید زہیر نے بھی کورونا، زلزلوں، سیلاب اور دیگر آفات کا ایک ساتھ ہی تذکرہ کرکے دل دہلادیا۔ ’’نسلِ نَو‘‘ میں شفق رفیع مجسّم سوال تھیں کہ اچھے دن کب آئیں گے… تو عرض ہے کہ کتنے ہی سقراط، بقراط اپنی عقل و دانش کی زنبیلوں سے تدابیر کے لاکھ نسخےنکال لائیں، کچھ نہیں سنورنے والا۔ ایک واحد حل، اسلامی سزائوں کانفاذ ہے،چند جنسی درندوں کو سنگسار کریں، چوروں، ڈاکوئوں کے ہاتھ، پیر کاٹیں، جرائم کی شرح زیرو پر نہ آگئی تو کہیے گا۔ رائو محمّدشاہد اقبال ’’سوشل میڈیا‘‘ کی ترقی و تنزّلی، ڈوبتے اُبھرتے حالات سے آگاہ کررہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر عرفان عزیز کا نوحۂ اُردو یونی ورسٹی خاصا تشویش ناک تھا۔ بابائے اُردو، مولوی عبدالحق نے ساری عُمر اُردو کے نفاذ کی جدوجہد میں گزاردی اور اِس مُلک کی اردو یونی ورسٹی کی یہ حالت ہے۔ پاکستان کی تخلیق دو ہی نعروں کی مرہونِ منّت ہے، اسلام اور اردو، مگر ہم نے ان دونوں ہی کےمعاملےمیں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں ماڈل سرما کے ملبوسات کی چَھب دکھلا رہی تھیں اور موسم کی تھکاوٹ عالیہ کاشف کی تحریر سے عیاں تھیں۔’’پیارا گھر‘‘ میں دُرِشہوار انوار نے خواتین کو غیرمعیاری کاسمیٹکس سے بچنے اور جڑی بوٹیوں سے تیار مصنوعات استعمال کرنے کامشورہ دیا۔ جب کہ شاہین فہد نے نئے سال کا دسترخوان کیکس سے سجایا۔ 2؍فروری ہماری سال گرہ کا دن ہے، مگر ہمارے لیے تو آج تک کوئی کیک لایا، نہ ہم سےکسی نےکٹوایا۔ آپ سے ایک سوال پوچھناتھا، کیا آپ بھی سال گرہ مناتی ہیں؟ ’’پیارا وطن‘‘ میں صباحت منصور نےگلگت بلتستان کی خُوب صُورت جھیلوں، پہاڑوں، آب شاروں کانظارہ کروایا۔ بلاشبہ، ہمارے مُلک میں دنیا کے بہترین سیّاحتی مقامات موجود ہیں، مگر ہم اُن سے دنیا کو آگاہ نہیں کرپائے،حالاں کہ صرف اسی انڈسٹری کو فروغ دیتے، تو ہمارا آدھا قرضہ اُترجاتا۔ دنیا کےکئی ممالک کا گزارہ ہی صرف سیّاحت پر ہے۔ ڈائجسٹ میں ’’اُمید‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اچھا افسانہ لائے۔ اختر سعیدی نئے سال کے ’’گہوارئہ امن‘‘ ہونے کے لیے دُعاگو تھے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘میں آپ نے امامہ بنتِ محمّداسلم کےفارسی نامےکابذریعہ انٹرنیٹ ترجمہ کیا، بہت خُوب۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: ماضی قریب کی ماڈل، شائستہ زید.....؟؟ ہم تو اس نام کی صرف ایک نیوز کاسٹر سے واقف ہیں اور وہ بھی 2012ء میں پی ٹی وی سے ریٹائر ہوگئی تھیں۔ آپ پتا نہیں، کس ماڈل شائستہ زید کو دماغ میں بسائے بیٹھے ہیں۔ اور رہی سال گرہ منانے کی بات، تو بالکل مناتے ہیں، لیکن صرف اپنی فیملی کے ساتھ اور الحمدللہ، کیک لانے اور کٹوانے والے سب ہی رشتے بھی آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ 

گوشہ برقی خطوط

* آپ میری ای میلز خاصی ایڈٹ کردیتی ہیں۔ مَیں آپ سے خفا ہوں، مگر پھر بھی ہر ہفتے ہی حاضر ہو جاتی ہوں کہ آپ سے ایک تعلقِ خاطر جو ہوگیا ہے۔ جریدے کا سالِ نو اسپیشل ایڈیشن (پارٹ ٹو) بھی لاجواب تھا۔ پیارا گھرکے موضوعات لاجواب ہوتے ہیں، مگر وجودِ زن کا سال بھر کا جائزہ خاصا تکلیف دہ تھا۔ سلور اسکرین، ٹی وی اسکرین کے جائزے پسند آئے۔ ویسے مجموعی طور پر یہ شمارہ بھی شاہ کار شمارہ تھا۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یوایس اے)

ج: آپ ناراض ہونے کی بجائے مختصر لکھنے کی عادت ڈالیں۔

* میگزین روزِ اوّل تا آج تلک دل چسپی وتفریح کا مرقّع ہے۔ ویسے آپ کی ایڈیٹنگ کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ خط اور ای میل کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو مجھےقسم سے خُود اپنی ای میل پڑھ کے ہنسی آجاتی ہے۔ ویسے آپ بہت ٹیلنٹڈ ہیں۔ (فہیم مقصود، والٹن روڈ، لاہور)

ج: بہت شکریہ…بس کبھی غرور نہیں کیا۔

*  مَیں سنڈے میگزین کا مستقل قاری ہوں۔ ہر جریدے کا بغور مطالعہ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی محنت واضح نظر آتی ہے اور مَیں دُعاگو ہوں کہ میگزین اِسی طرح دن دونی، رات چوگنی ترقی کرے۔ (محمّد حسین حریفال، ژوب، بلوچستان)

ج: بہت شکریہ۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk