ہم جب’’عرب‘‘کہتے ہیں، تو اس سے مُراد خلیجی ریاستیں (سعودی عرب، عراق، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، اومان اور قطر) بشمول یمن، شمالی افریقا میں مصر، لیبیا، تیونس، مراکش، الجزائر اور موریطانیہ وغیرہ، یہ سب ہوتے ہیں، جہاں لہجے اور لُغت کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ عربی زبان بولی اور لکھی جاتی ہے۔
یہ خطّہ استعماری تسلّط کے علاوہ استبدادی شخصی یا فوجی آمریتوں کے تابع چلا آ رہا ہے۔ حد درجہ دل چسپ اور انتہائی افسوس ناک معاملہ یہ ہے کہ جمہوریت کی کلغی اپنے سروں پر سجا کر اِس پر فخر کرنے والے امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کو اپنے لیے تو جمہوریت کی’’ڈِش‘‘ سب سے زیادہ پسند ہے، لیکن مسلم خطّوں میں یہی فوجی آمریتوں اور مستبد شخصی حکومتوں کو مسلّط کرتے اور اُنہیں تحفّظ فراہم کرتے ہیں۔
اِس وقت مشرقِ وسطیٰ کی ساری آمریتیں اور استبدادی شخصی حکومتیں امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کے سہارے کھڑی ہیں۔ مصر میں جمال عبدالنّاصر، انور سادات اور حُسنی مبارک کی سفّاک آمریتوں کے بعد ’’ عرب بہار‘‘ کی ہوائیں چلیں اور حُسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ ہوا۔ کم و بیش ساٹھ سال بعد پہلے آزادانہ اور شفّاف انتخابات ہوئے، تو اخوان المسلمین کے محمّد مرسی صدر منتخب ہوئے۔
اُنہوں نے اعلان کیا کہ منتخب حکومت کے تحت مصر کی پالیسیز آزادی اور خود مختاری کی علامت ہوں گی۔ اُنھوں نے اسرائیل سے متعلق دوٹوک انداز میں کہا کہ وہ ایک غاصب اور غیرقانونی ریاست ہے، جو فلسطینیوں کی سرزمین پر عالمی قوّتوں کی مدد سے قابض ہوئی ہے اور اس کا قبضہ ختم ہونا چاہیے۔
مصر کا رقبہ پاکستان سے زیادہ اور آبادی پاکستان کے مقابلے میں نصف کے قریب ہے۔ تہذیبی اعتبار سے مصر پر بدوی قدامت اور شہری جدیدیت دونوں رنگ نظر آتے ہیں۔ یہ مُلک کئی تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر میں صاحبِ اختیار ہوئے، تو اُس وقت وہاں’’چرواہے بادشاہوں‘‘ کی حکومت تھی، جن کا اصل مصریت ہی بتائی جاتی ہے۔بعدازاں، فرعونوں کا طویل دَور شروع ہوا۔ فرعونوں کی یادگار، اہرامِ مصر اُن کی انفرادیت کی نشانیاں ہیں۔
فرعونوں کی حنوط شدہ ممیاں مصر کے عجائب گھروں میں آج بھی سجی ہیں اور اُن کی تاریخ یاد دِلاتی ہیں۔ اٹھارہویں، انیسویں صدی کے سنگم کے جدید دَور میں مصر اور لبنان، فرانس کے تابع رہے، اِس لیے اُن پر اُس کی ثقافت کے نقوش بہت گہرے ہیں۔ ایک ہزار سال سے بھی پرانی، جامعۃُ الازہر بھی مصر کا فخر ہے، جس کے فارغ التحصیل سیکڑوں علماء اور قراء دنیا میں مصر کا نام روشن کرتے ہیں، لیکن یہ عظیم الشّان ادارہ ہمیشہ فوجی آمروں کا مُرغِ دست آموز رہا۔
شیخُ الازہر کا تقرّر مُلک کا حکم ران کرتا ہے، اِس لیے اپنے منصب کی بقا کے لیے ہر شیخُ الازہر کو فوجی آمروں کی اطاعت کرنی پڑتی ہے۔شاید ہی کوئی شیخُ الازہر ہوگا، جس نے کبھی کسی فوجی آمر کی مخالفت کی ہو یا اُسے مظالم پر ٹوکا ہو۔ موجودہ شیخُ الازہر، احمد الطیّب کا تقرّر 2010ء میں ہوا۔ دو سال بعد محمّد مرسی صدر منتخب ہوئے اور اگلے ہی سال اُن کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔شیخُ الازہر، محمّد مرسی اور اخوان المسلمین کے سب سے بڑے مخالف بن کر سامنے آئے۔ اخوان المسلمین پر ہونے والے مظالم کو شیوخِ ازہر کی حمایت و تائید حاصل ہوتی ہے۔
مصر کی سب سے قدیم اور بڑی سیاسی جماعت، الوفد پارٹی ہے۔1919ء کے لگ بھگ اس کی تشکیل ہوئی اور 1952ء میں جمال عبدالناصر نے اس پر پابندی لگا دی۔1978ء میں اس کی تشکیلِ جدید ہوئی، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس پر پھر پابندی عاید کردی گئی۔ اب اس کا ڈھانچا کھڑا ہے، لیکن السّیسی کی آمریت میں یہ کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہی۔
مصر کی سیاست میں مذہبی اشرافیہ کا الازہر کے علاوہ جو نیا چہرہ نمودار ہوا، وہ سلفی فکر کی’’نور پارٹی‘‘ہے۔ یہ 2012ء کے انتخابات میں سیاست میں متحرّک ہوئی۔ اس نے ابتدا میں صدر مرسی کی حمایت کی، لیکن پھر اس کے اندر ٹوٹ پُھوٹ ہوئی اور اس کا جو نیا چہرہ نمودار ہوا، اُس کی شہرت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ فوجی آمر السّیسی کا سب سے بڑا حامی اور اخوان المسلمین کا سب سے بڑا مخالف گروہ ہے۔
مصر، انیسویں صدی کے وسطِ اوّل سے عربی شعر و ادب، صحافت و ثقافت اور اشاعتِ کُتب کا گڑھ چلا آ رہا ہے۔ طویل عرصے تک عرب ممالک میں جو عربی فلمیں اور ڈرامے دِکھائے جاتے تھے، وہ مصر میں لکھے اور پردۂ اسکرین کی زینت بنائے جاتے تھے۔ شہرۂ آفاق مغنّیہ، اُمّ ِ کلثوم مصر ہی کا فخر تھی۔ایک رُخ سے علمی و فکری سطح پر جدیدیت کو رواج دینے والے ہمارے سرسیّد احمد خان کے ہم فکر، مفتی عبدہٗ کا تعلق بھی مصرسے تھا۔
وہ جمال الدّین افغانی کے شاگرد اور اُن کی’’پین اسلام ازم ‘‘ کے داعی تھے۔ ادبی دنیا میں بیسویں صدی کے’’جاحظ ‘‘ کہلانے والے مصطفیٰ صادق الرّافعی کے علاوہ طہٰ حسین، نجیب محفوظ جیسے نام وَر ادیب اور احمد شوقی جیسے نابغۂ روزگار شاعر مصر کے ماتھے کا جھومر تھے۔ عرب دنیا میں آزادیٔ نسواں کی تحریک بھی سب سے پہلے مصر سے اُٹھی تھی۔ عالَمِ عرب میں حسن البنا شہید کی برپا کردہ سب سے بڑی اسلامی تحریک’’اِخوان المسلمین‘‘ بھی مصر ہی کے چمن کا ایک پُربہار شجر ہے۔
عرب دنیا میں فوجی آمریتوں کا اِمام بھی جمال ناصر کے دَور سے مصر ہی چلا آ رہا ہے۔ لیکن اِتنی انفرادیت کے باوجود مصر کو طویل عرصے سے مستحکم سیاسی نظام اور سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا۔ ساٹھ سال بعد آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کے نتیجے میں محمّد مرسی کی بااختیار سِول حکومت قائم ہوئی تھی، لیکن حرصِ اقتدار کی ماری مِصری فوج کے سربراہ، جنرل عبدالفتاح السیسی نے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر وہ حکومت ختم کردی اور پہلے سے بھی زیادہ سفّاک آمریت مسلّط کر دی۔ امریکا کی نظر میں اسرائیل کے بعد مصر ہی ہے، جو اِس کا اہم ترین اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔
امریکا، مصر کو اسرائیل کی حفاظت کے زاویے سے بھی اہم سمجھتا ہے۔ امریکی صدر، ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے مطابق باقی ساری دنیا کے ممالک کے لیے امریکی امداد بند کر دی جائے گی، صرف مصر اور اسرائیل کی امداد جاری رہے گی۔ یہ انعام ہے، اِن دونوں کے لیے ’’اخوان المُسلمین‘‘ اور ’’حماس‘‘ کو کچلنے میں تعاون کا۔ ناصر کا عرصۂ اقتدار نکال کر باقی دو آمروں، انور سادات اور حُسنی مبارک کے دَورِ آمریت میں مصر کے لیے امریکی امداد کے چشمے جاری رہے۔
شرط یہ رہی کہ مصر میں اسلامی قوّتیں، خاص طور پر اِخوان المسلمین کو کُچلا جائے۔ چناں چہ اِن دونوں ادوار میں اخوان پر مظالم کے ایسے ہی پہاڑ توڑے گئے، جیسے آج غزہ میں اسرائیل انسانیت کے خلاف سفّاکی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ امریکی امداد کا پائپ خالی نہیں ہوتا، اِس کے باوجود مصری معیشت کو استحکام نہیں مل رہا۔ کوئی سوال اُٹھانے والا نہیں کہ مصر کو یہ امداد کِن خدمات کے بدلے جاری رکھی جائے گی اور نہ امریکا یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ مصر کو ملنے والی امریکی امداد کہاں غائب ہو جاتی ہے۔
مصری معاشرہ کئی متضاد مزاجوں کا ملغوبا ہے۔ یہاں انتہا درجے کی مذہبیت اور انتہا درجے کا سیکولرازم پایا جاتا ہے۔ مصری میڈیا پر سیکولر لابی کا غلبہ ہے، لیکن اسرائیل سے نفرت مذہبی اور سیکولر، دونوں حلقوں میں یک ساں ہے۔مصر کی کاروباری اشرافیہ کو ایک طرف یہ خوف لاحق ہے کہ اسرائیل سے اُس کی قربت کا اصل فائدہ یہودیوں کو ہوگا۔
مصر کے معاشرتی مزاج کے اجزا میں خود غرض کاروباری طبقہ، عشرت پسند اشرافیہ، خوف زدہ اور جمہوری شعور سے خالی عوام ہیں، جو اسرائیل سے نفرت تو کرتے ہیں، لیکن اپنی حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے نفع و نقصان سے متعلق سوال نہیں اُٹھاتے۔ فوجی آمر اور مستبد شخصی حُکم رانی میں بہت سی ایک جیسی خصوصیات ہوتی ہے۔ دونوں کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھنا گستاخی شمار ہوتی ہے کہ مستبد آمر یا خاندانی شخصی حُکم رانی کے اصل عزائم کیا ہیں اور اُس کے کِس کِس سے کِس قیمت پر تعلقات ہیں۔
اگر ہم اِس وقت ملّتِ اسلامیہ کے سب سے بڑے دشمن کی شناخت کریں، تو اسرائیل سرِ فہرست ہے۔ دوسری طرف، مصر اور خلیجی ریاستوں کے تعلقات دیکھیں، تو سب کے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے ساتھ فدویانہ تعلقات ہیں۔ اُنہیں قومی مفادات، مُلکی ترقّی، معاشی استحکام اور ملّی غیرت کی کوئی پروا نہیں۔ اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے سب نے دوستی اور دشمنی کے اپنے اپنے اصول بنا لیے ہیں۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم اُمّت کے سب سے بڑے دشمن، اسرائیل کے ساتھ خلیجی حُکم رانوں اور مصری فوجی ڈکٹیٹر کے یک ساں خوش گوار تعلقات ہیں۔ عوامی خواہشات کی پامالی مصر کے السّیسی کے ہاتھوں بھی ہو رہی ہے اور خلیجی شخصی حُکم ران بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔ دونوں عوام کو اپنی آراء اور خواہشات بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
یہ تعلق کسی نہ کسی سودے پر منتج ہوتے رہتے ہیں، لیکن مصری عوام اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ فوجی آمریت میں عسکری ادارے بد انتظام اور احتساب سے بے خوف ہو جاتے ہیں۔ عرب، اسرائیل جنگیں بہت پرانی تاریخ نہیں ہیں۔ یہ کل کی بات ہے کہ1967 ء کی عرب، اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مصر کے تین سو اڑتیس جنگی طیارے قاہرہ ایئرپورٹ پر کھڑے کھڑے تباہ کر دیئے تھے، جب کہ ایک سو پائلٹ اسرائیلی بم باری کا لقمہ بن گئے تھے۔
یہی حال اردن اور شام کا ہوا تھا۔ اِن تینوں ممالک کے وسیع علاقے اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ نہ کسی نے جمال عبدالنّاصر سے پوچھا، نہ انور السادات اور حُسنی مبارک سے اور نہ کوئی السّیسی سے پوچھنے والا ہے کہ مصر کی زرعی پیداوار، عُمدہ پھلوں اور دیگر اجناس کی قیمتیں کس کی تجوری میں جاتی ہیں۔
مصر کی موجودہ آمریت میں معاشی حالت اِس حد تک دگرگوں ہو چُکی اور قرض اِتنے بڑھ گئے ہیں کہ عبدالفتاح السّیسی نے بحیرۂ روم کے ساحلی علاقے، اسکندریہ سے تین سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے مُلک کا جنّت کا ٹکڑا کہلانے والا، سب سے خُوب صُورت جزیرہ ’’رأس الحِکمۃ‘‘ مٹّی کے بھاؤ، یعنی محض 35بلین ڈالرز میں امارات کے ہاتھ فروخت کر دیا۔مصر کے پاس قدرتی وسائل کی کمی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس مُلک کو بے حساب قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے دریاؤں میں شمار ہونے والا دریائے نیل اِس کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ زرعی مُلک ہونے کے علاوہ نادر تاریخی آثار کا جتنا بڑا سرمایہ اِس کے پاس ہے، خطّے میں کسی اور مُلک کے پاس نہیں ہے۔ سیّاحت کے شعبے سے اس کی آمدنی کے بہت زیادہ امکانات ہیں، لیکن قدرتی وسائل، زراعت اور دیگر شعبوں سے ہونے والی آمدنی بدعنوان جرنیل اور اُن کے ماتحت کھا جاتے ہیں۔
زیادہ تر وسائل فوج کی وفاداریاں خریدنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ فوجی افسران کو بے تحاشا مراعات دی جاتی ہیں۔ حالیہ عرصے میں نہرِ سویز کے راستے تجارتی سامان کے ساتھ بحرِ احمر سے گزرنے والے جہازوں پر یمنی حوثی پے در پے حملے کر رہے ہیں، اِس لیے یہ گزرگاہ خطرناک ہو گئی ہے۔ اس کا نقصان مصر کو ہو رہا ہے، لیکن مصر کو امریکا نے اسرائیلی مفادات کی چوکیداری بھی سونپ رکھی ہے، اِس لیے اُسے گویا اسرائیلی مفادات کے دفاع کی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
غزہ کے مظلوموں کی غالب اکثریت تو اسرائیلی بم باری سے بھسم اور انفرا اسٹرکچر ملبے کا ڈھیر بن چُکا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کا مصر اور اردن پر دباؤ تھا کہ وہ بچے کُھچے اہلِ غزہ کو اپنے ہاں بسا لیں۔ اِس ضمن میں مصر کے کچھ تحفّظات تھے، اس لیے پہلے وہ انکار کرتا رہا ہے، لیکن ایک اسرائیلی تھنک ٹینک ’’ Mitvim Hebrew institute‘‘ کی اطلاع کے مطابق، مصر رفح بارڈر کے اُس پار غزہ کے لُٹے پٹے مظلوموں کو آباد کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔
موجودہ سخت پابندیوں میں غزہ اور مصر کے درمیان رفح کی چھوٹی سی سرحد ہی ہے، جہاں سے فلسطینیوں کو امدادی سامان پہنچ رہا ہے۔ رفح کے فلسطینی حصّے پر قبضے سے مصر کے لیے بے شمار مسائل پیدا ہوں گے۔ امریکا اپنے انتہائی اہم اسٹریٹیجک حلیف، مصر کے مفادات سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ اسرائیلی مظالم نے غزہ میں خوف کی بجائے جذباتی لگائو ہزار چند بڑھا دیا ہے اور اب غزہ کو’’مقدّس‘‘درجہ حاصل ہو گیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے سے پہلے اور فوراً بعد غزہ کے لوگوں کو مار کر باہر دھکیلنے اور وہاں کوئی جدید بستی بسانے کی جو خوف ناک دھمکیاں دی تھیں، یوں لگتا ہے کہ غزہ ہی سے متعلق نہیں، دیگر عالمی معاملات کے حوالے سے بھی ٹرمپ کے نقطۂ نظر میں بہت بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔اُن کے ذہن میں توازن، معقولیت اور حقیقت پسندی جَھلکنے لگی ہے۔ ایک عرب اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ قائل ہوگئے ہیں کہ غزہ میں جتنے مجاہدین شہید ہوتے ہیں، اُن سے دگنے کسی نہ کسی راستے سے آ جاتے ہیں۔
اسرائیل نے اپنی ساری طاقت جھونک دی اور سارے قہر و مظالم توڑ دیئے، لیکن ابھی تک غزہ میں اسرائیلی اور یہودی یرغمالیوں کا سُراغ لگا سکا اور نہ کسی کو چُھڑوا سکا۔ جو یرغمالی رہا ہوئے، مذاکرات ہی کے ذریعے ہوئے۔ چناں چہ لگتا ہے کہ دیگر عالمی معاملات کی طرح غزہ سے متعلق بھی ٹرمپ کے مزاج کی تندی رفع ہو گئی ہے اور قرائن ہیں کہ وہ اسرائیل کو بھی یہی سمجھائیں گے کہ غزہ پر جبراً قبضے کا خیال تَرک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)