• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہِ صیام کو نیکیوں کا موسمِ بہار بھی کہاجاتا ہےجس میں دامن کو خیر اور فلاح سے بھرنابہت آسان ہوتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے آج مسلم معاشرے میں رمضان المبارک کی قدروقیمت پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔ پہلے اس مہینے میں لوگوں میں ایثار، ہم دردی ،تقوی،خوفِ خدا ، حبِّ رسول ﷺ ،اور تزکیہ نفس کا جذبہ نمایاں ہوتا تھا اور لوگ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ لیکن اب بہت سے مسلمان ’’مال‘‘ کمانے اور بنانے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ابھی یہ ماہِ مقدّس شروع بھی نہیں ہواتھا کہ گزشتہ برسوں کی طرح ناجائز منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں، چور بازاروں اور غیر معیاری اشیا فروخت کرنے والوں نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ ہوچکا ہے۔ منہگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔غریب عوام کےلیے دووقت کی باعزت روٹی کمانابھی مشکل بنادیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیز گراں فروشی کے خلاف بے بس نظر آتی ہیں۔ ناجائز منافع خوری اورذخیرہ اندوزی کے خلاف کوئی خاص تادیبی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ اگر کہیں ملزموں کو پکڑبھی لیاجاتاہے تو معمولی جرمانہ کرکے پھر سے عوام کو لوٹنے کے لیے چھوڑدیاجاتا ہے۔

ہربرس حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان تو کردیا جاتا ہے، مگر اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے۔ حکومتی ذمے داران ہی خردبرد کرلیتے ہیں۔ ان پیکیجز کا صرف 20 سے30فی صد ہی عوم تک پہنچ پاتاہے۔ سستے بازاروں میں اشیائےضروریہ ناقص ، غیر معیاری اور زائد المیعاد ہونے کی شکایات عام ہیں ۔ چیک اینڈ بیلنس کاکوئی واضح نظام موجود نہیں۔

پہلے رمضان کے آغاز سے قبل یہ خبر آجاتی تھی کہ وفاقی وزیر خزانہ نے رمضان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے چاروں وزرائے اعلیٰ کو خط لکھ دیا ہے جس میں رمضان المبارک کے دوران اشیائے خور و نوش کی قیمتیں مناسب سطح پر رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔لیکن اس برس تحریک عدم اعتماد کی آپا دھاپی میں وہ بھی نہیں ہوا۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی گراں فروشی کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا، سبزیاں، پھل، دالیں اور دیگر اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوگئی ہیں۔

یوں تو یہاں منہگائی کا زور پورا سال رہتا ہے، لیکن رمضان سے کچھ دن پہلے اوراس ماہ کے دوران اشیا ئے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس ماہِ مقدّس میں ہر مسلمان گھرانے کےاخراجات عام دنوں سے زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ہر سال ماہِ رمضان میں اشیائےخوردونوش کو سستا کرنے اور قیمتوں میں استحکام لانےکےلیے حکومت عوام سے جھوٹے وعدے کرتی ہے، خصوصی رمضان پیکچز کا اعلان کیا جاتا ہے اورپرائس کنٹرول کمیٹیز کو ہائی الرٹ کیا جاتاہے۔لیکن ان سارے اقدامات کے باوجود ماہ رمضان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔

ساری دنیا میں حکومتیں اور ادارے مذہبی ایّام اور تہواروں کے موقعے پر اشیائے صرف کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں۔ عیسائیوں کے مذہبی تہوار کرسمس کو دیکھ لیں، ان دنوں میں اشیائےضرورت سستی کر دی جاتی ہیں تا کہ غریب افرادبھی کرسمس کی خوشیاں مناسکیں۔ افسوس کہ ہم پاکستانی اپنے کو مسلمان کہلواتے ہیں، لیکن اپنے مذہب کے لازوال، سچّے اقوال اور راہ نما اصولوں کی تقلید نہیں کرتے۔ رمضان میں منہگائی کرنے میں ذخیرہ اندوز، ٹھیلے والے، دکان دار اورگرانی روکنے کے ذمے دار سرکاری افسران، سب ہی شریک ہوتے ہیں اور ان پر چیک رکھنے والے خواب غفلت میں سوئے ہوئےعمّال اس نہایت سنجیدہ مسلے کو نظر اندر کر دیتے ہیں۔

برسوں سے جاری روایت کے مطابق اس بار بھی رمضان المبارک کے دوران کھانے پینے کی اشیاءکے نرخ کنٹرول میں رکھنے کےلیے روایتی سرکاری فیصلے اور اقدامات اٹھائے گئے ہیں، مگر ان سے پہلے ہی ، بیسن، چنے ، گھی،تیل، دالوں، دودھ، دہی ،پھلوں، کھجور اور دیگر اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال کے مطابق تاجروں نے رمضان سمیت تمام تہواروں کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔تاہم اشیائے ضروریہ کے تھوک فروش سارا الزام حکومت کے سر تھوپتے ہیں۔کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے صدر، انیس مجید ہول سیلرز پر لگنے والے الزامات کو درست نہیں قرار دیتے۔

چند برسوں کے دوران مہنگائی میں کئی سو فی صد کے لگ بھگ اضافے نے عوام کی قوّتِ خرید اور برداشت ختم کردی ہے۔حکومت کی جانب سے ہرسال بلند بانگ دعوے کیے جاتے اور اخباری بیانات سامنے آتے ہیں، لیکن منہگائی قابو میں آنے کا نام نہیں لیتی۔ اس کی ایک اور مثال گائے یا بکرے کے گوشت کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا ہے۔

ذخیرہ اندوزی یا مہنگائی پر قابو پانااتنا مشکل کام نہیں ہے، اس کےلیے محض عزم اور ارادے کی ضرورت ہے۔ مگر حکومت کی جانب سے ہرسال عارضی طریقہ کار ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز میں کچھ دن سختی دکھانے کے بعد حکومتی کارروائیاں سست ہوجاتی ہیں۔ خصوصاً ماہ مبارک کے دوران پھلوں کی طلب بڑھتے ہی منہ مانگے دام طلب کیے جانے لگتے ہیں۔ حکومت تقریبا ًہر سال عوام کو ریلیف دینےکی غرض سے رمضان پیکیج کا اعلان کرتی ہے لیکن چینی، بیسن ، لوبیا، گھی، آٹا،تیل اور مختلف اقسام کی دالیں یوٹیلیٹی ا سٹورز سے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ماہ رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کی برسات کا مہینہ ہے ،لیکن اس کے برخلاف حال یہ ہے کہ سبزی ،پھل ،گوشت، اجناس،دودھ دہی کے تاجر، درزی، کریانہ اسٹور اور بیکری کے مالکان سمیت کاروباری طبقے کا بڑا حصّہ رمضان المبارک میں صلہ رحمی ، محبت اور رحم دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ اور ناجائز منافع خوری میں مصروف ہے اورمال کمانے کے ’’سیزن‘‘ سے پورا پورا فایدہ اٹھارہاہے۔ دوسری طرف حکومت اور انتظامیہ بے بس اور خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔ ادہر صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم انجمنیں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کررہی ہیں۔

دوسری جانب عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر برسر اقتدار طبقہ رمضان المبارک میں عوام الناس کو واقعتاً کوئی ریلیف پہنچانا چاہتا ہے تو اسے بعض بہت سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ حکومت کو مٹھی بھر مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بننے اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے سرکاری نرخوں پر اشیا کی فروخت یقینی بنانے اور گراں فروشی کی روک تھام کے لیے علمائے کرام، معززین ، صحافیوں ، سیاسی و سماجی کارکنوں اور پولیس اورسول انتظامیہ پر مشتمل ایسی خصوصی کمیٹیز تشکیل دینی چاہییں جو رمضان المبارک کے دوران اور اس کے بعد بھی منہگائی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔

دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا طرزِ عمل

’کرسمس‘‘، ’’ایسٹر‘‘، ’’تھینکس گوِنگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک فرائیڈے‘‘ امریکا میں بڑے تہواروں کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ ان دنوں سارے امریکا میں ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی پچاس فی صد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ایسٹر، اپریل میں منایا جاتا ہے، باقی تینوں تہوار ایک ماہ میں منا لیے جاتے ہیں۔ہرسال نومبرکی آخری جمعرات تھینکس گوِنگ ڈے، جمعہ، بلیک فرائیڈے اور 25 دسمبر کرسمس کے دن ہیں۔ لوگ ان دنوں اتنی خریداری کرتے ہیں کہ باقی سال اس کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ 

امریکا کے بڑے بڑے اسٹورز عوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاں نرخوں پر دست یاب ہوتی ہے۔ معاشی طور پر کم زور امریکی قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آن لائن سودے طے ہوتے ہیں۔ نرخ ادا کیے جاتے ہیں۔ سامان گھروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان دنوں سارے امریکا پر خریداری کا بخار چڑھا ہوتاہے۔ امیر لوگ غریبوں کو خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنا فالتو قیمتی سامان مفت بانٹ دیتے ہیں۔

وہ اسے اپنے گھر کے دروازے پر ڈھیر کی صورت میں رکھ دیتے ہیں۔ ضرورت مند آتے اور مطلوبہ اشیا اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔ غریبوں کوبہت سی اشیا مفت میں مل جاتی ہیں جن سے ان کی زندگیوں میں سکھ اور آرام آجاتا ہے۔ امریکی حکومتیں جو دنیا بھر میں قتل وغارت گری کے منصوبے سوچتی ہیں، اپنے عوام کے لیے ان دنوں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔

یورپ میں کرسمس پر تقریبا ایسا ہی طرز عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ کسی قسم کی ذخیرہ اندوزی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خورونوش بازار سے غائب نہیں کی جاتیں۔ اشیا کومنہگا کر کے فروخت کرنے کے لیے کوئی حربے استعمال نہیں کیے جاتے۔ الٹا ان دنوں نایاب اشیا بھی دکانوں پر مناسب نرخوں میں دست یاب کر دی جاتی ہیں۔ہندو اور بودھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت والے ممالک میں بھی ہم اسی طرح کی مثالیں دیکھتے ہیں ۔ دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم ہو جاتے ہیں۔ 

اسرائیل جیسے ظالم ملک میں بھی عوام تہواروں پر سستی اشیاسے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ ملکوں میں، جہاں ریاست مذہب سے ماورا ہے، عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیے حکومتی چھتریاں مہیا کر دی جاتی ہیں۔ بعض اسلامی ملکوں میں بھی رمضان مبارک کے دنوں میں اور دونوں عیدوں کے موقعے پر ہر ضرورت زندگی نہایت مناسب نرخوں پرمہیا کر دی جاتی ہے۔ 

بدقسمتی سے پاکستان میں رمضان کا مہینہ عوام کے لیے برکتوں کے ساتھ بے شمار زحمتیں بھی لے کر آتا ہے۔ اس مہینے کی آمد سے ہفتہ بھر پہلے ہی اشیائے خورونوش ذخیرہ ہونے لگتی ہیں۔ ہر حکومت منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے، ان پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ خدا خوفی ترک کر کے سفّاکیت کی زندہ مثال بن کر سامنے آجاتے ہیں۔

ہر سال کی طرح اس برس بھی رمضان کی آمد سے پہلے ہی ہوش ربا گرانی نے عوام کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بلند پروازی کا مظاہرہ کرنا شروع ہوگئی تھیں۔ ضروریاتِ زندگی غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گئیں۔ عام بازاروں کو تو چھوڑیں سہولت بازاروں میں بھی زیادہ تراشیا کے نرخ 10 سے 20 فی صدتک اور بعض اجناس کےپچاس فی صد تک بڑھ گئے تھے۔

آلو، پیاز، ادرک، لہسن، ٹماٹر، ہرادھنیا، پودینہ، اور مرغی کا گوشت گراں فروشی کی حالیہ زد میں آنے والی صرف چند اشیا ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ زیادہ تر سبزیاں 60،70 روپےفی کلو گرام سے کم نہیں۔ اسی طرح کوئی پھل 80 روپے فی کلو گرام سے کم میں دست یاب نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ صورت حال کیا ہے۔ 

دوسری طرف حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر بعض اشیا کی قیمتوں میں کچھ ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا شکریہ کہ اس نے غریب عوام کو یہ سہولت فراہم کی، مگر ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد اس قدر کم ہے کہ کروڑوں افراداس دستِ شفقت سے محروم ہی رہیں گے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر کڑی دھوپ میں روزوں کے دنوں میں قطاریں بنا کر یہ رعایت لینا بہت مشکل کام ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر دست یاب بعض اشیا کا معیاربہت کم ہوتا ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے راہ نماوں کو پُرتکلف ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے،کھانوں، پروٹوکول اور غیرملکی دوروں سے فرصت نہیں ملتی۔ یوں منافع خور اور ذخیرہ اندوز موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی اپنے گودام بھر لیتے ہیں۔ بازار میں اشیا کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان آتے ہی یہ من چاہے نرخوں پر سامان بیچنے لگتے ہیں۔ ان پر سرکاری گرفت بالکل ہی نہیں ہوتی۔ 

یوں ملک بھر میں سحر اور افطار کے لیے درکار خوراک کئی گنامنہگی ہو جاتی ہے۔ غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ ان کے روحانی انہماک کو چور چور کیا جاتا ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار کے موقعے پر اپنے سامنے موجوداشیائے خورونوش کی گرانی پر کڑھتے رہتے ہیں۔ ہر سال اسی طرح ہوتاہے۔یوں اس بیمار معاشرے میں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت رسانی کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ کروڑوں اربوں سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتا ہے۔ حکومتیں سرد مہری سے یہ سب ہوتا دیکھتی رہتی ہیں، لیکن غریب غربا کو کوئی ڈھال فراہم نہیں کرتیں۔

رمضان کے بعد عید بھی ’’سیزن‘‘

رمضان کا سارا مہینہ ہم مہنگائی میں غرق رہتے ہیں پھر عید نزدیک آتی ہے تو یہی سرمایہ دار اس کا حسن بھی گہنا دیتے ہیں۔ ملبوسات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں ایک گرداب ہے جس میں پاکستان کئی دہائیوں سے چکر کھا رہا ہے۔ اگر ہمارے راہ نماوں میں ذرا سا بھی عوام کا درد ہے تو انہیں سب سے اہم پالیسی یہ بنانا ہو گی کہ خوراک کم سے کم نرخوں پر ہر آدمی کو مہیا ہوتاکہ عام آدمی رمضان کے مہینے میں اپنی دعائوں میں معاشی چنگیز خانوں کو بددعائیں نہ دیتا ہو۔ وہ پوری یک سوئی سے عبادات کرسکے۔

ہر طرف سے خبریں آرہی ہیں کہ رمضان میں کثرت سے استعمال کی جانے والی بیش تر اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا ہے جن میں چنے کی دال، بیسن، کھجور، کالے اور سفید چنے سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب موسمی پھل ،پپیتا،امرود، خربوزہ اور کیلا من مانی قیمتوں پر فروخت کیے جارہے ہیں۔

کراچی کی شہری انتظامیہ کی جانب سے حسب روایت رمضان سے قبل سے مصنوعی منہگائی روکنے کے بلندبانگ دعوے کیے جارہے ہیں تاہم صارفین کا کہنا ہے کہ بازاروں میں سرکاری نرخ کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ شہری انتظامیہ نمائشی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ گراں فروشی پر قابو پانا بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنادیا جائے اور ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کرنے والے عناصر کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلاکر سخت سزائیں دی جائیں۔

کراچی میں ان دنوں شہر میں مرغی کا گوشت 400روپے فی کلوگرام کے اوسط نرخ پر فروخت کیا جارہا ہے۔ مرغی فروشوں نے سرکاری فہرستیں آویزاں کرنے کے بجائے اپنے نرخ نامے آویزاں کررکھے ہیں جن میں صارفین کو صاف گوشت، کلیجی پوٹے کے ساتھ اور بغیر گوشت، ران بازو، ڈرم اسٹک اور گولڈن پیس کے نام پر من مانی قیمتیں وصولی کی جارہی ہیں۔ مرغی فروشوں نے صارفین اور شہری انتظامیہ کو دھوکا دینے کے لیے تختیوں پر ران کے نرخ آویزاں کررکھے ہیں جبکہ اصل نرخ کہیں زیادہ ہیں۔ شہر میں بچھیا کے گوشت کی قیمت 750 سے 800 روپے تک وصول کی جارہی ہے۔ 

گائے کے گوشت کی قیمت 700روپے فی کلو گرام تک وصول کی جارہی ہے۔ اٹھارہ مارچ کو شہرقائد کے کمشنر نے مرغی کے گوشت کے فی کلوگرام نرخ365 اور بکرے کے گوشت کے نرخ 1220 روپے فی کلوگرام مقررکیے ہیں۔ جو کسی مذاق سے کام نہیں۔ کمشنر کراچی کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں زندہ مرغی کےفی کلوگرام نرخ235روپے اور کوشت کے365 روپے مقرر کیے گئے۔یاد رہے کہ حال ہی میں بازار میں مرغی کا گوشت500روپے فی کلوگرام سے بھی زاید نرخ پر فروخت ہوچکا ہے۔ مختلف علاقوں میں بکرے کے گوشت کے نرخ 1400 تا 1500روپے فی کلو گرام تک وصول کیے جارہے ہیں۔

دودھ130تا 150موپے فی لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے۔ دہی 180 سے 200 روپےفی کلوگرام قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔ سبزی فروش بھی منہگائی کی گنگا میں نہا رہے ہیں۔ ٹینڈے، توری، لوکی کی قیمت 60روپے کلو وصول کی جارہی ہے۔ بھنڈیاں80سے 120روپے کلو، گوبھی، بینگن، کھیرا40سے 70روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے، پیاز کی قیمت بڑھا کر30 تا 35 روپےفی کلو تک کردی گئی ہے۔ آلو کے فی کلو نرخ میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے اور اب وہ بھی تقریبا پیاز کے بھاو فروخت ہورہا ہے۔ انتظامیہ کے تمام تر دعوؤں کے باوجود شہر بھر میں تیزابی ادرک کھلے عام فروخت ہورہی ہے جس کی کم از کم قیمت240روپے فی کلو تک وصول کی جارہی ہے۔ لہسن220سے250روپے کلو، ہری مرچ 40ر وپے فی پاؤ فروخت کی جارہی ہے۔ ٹماٹر کی قیمت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔

رمضان میں سب سے زیادہ پھل فروخت ہوتے ہیں۔ منڈی میں پھلوں کی سپلائی مستحکم ہونے کے باوجود تمام موسمی پھل من مانی قیمتوں پر فروخت کیے جارہے ہیں کیلا70سے80روپے درجن، پاکستانی سیب کم ازکم 200 روپے، نیوزی لینڈ کا سیب 280 سے 350 روپے، خربوزہ اور گرما 60سے 70روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ کھجور بھی جیسا گاہک ویسی قیمت کے اصول کے تحت من مانی قیمتوں پر فروخت کی جارہی ہے۔

ایرانی کھجور220 روپے سے 300 روپے فی کلوگرام تک فروخت ہورہی ہے۔ ڈبہ بند کھجورکا 400گرام کا پیکٹ 200سے250روپےفی کلوگرام کے حساب سے فروخت کیا جارہا ہے۔ کچھ بہتر معیار کی کھجور 400روپے فی کلوگرام سے کم میں دست یاب نہیں۔ مٹھائی اور نمکو کی دکانوں پر سموسے، رول، پیٹیز اور نمکو کے نرخ میں رمضان سے قبل ہی اضافہ کردیا گیا تھا۔

رمضان کی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کی مختلف تصویر

اگرچہ اسلامی تعلیمات ماہ رمضان میں انکسار ، قناعت اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے پر زور دیتی ہیں ، تاہم زیادہ تر مسلم معاشروں میں صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ دن بھر کے لیے کھانے پینے سے اجتناب کی مذہبی دلیل کے مطابق اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح انسان بھوک اور پیاس برداشت کر کے غربت کے مارے لوگوں کے دکھ اور درد محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے یورپ اور امریکا تک اورآسٹریلیا سے جنوبی ایشیا تک، جہاں جہاں مسلمان مقیم ہیں، ماہ رمضان میں ایک خاندان کا اوسط ماہانہ خرچ دوگنا ہو جاتا ہے۔

سحر، بالخصوص افطار کے اوقات میں پر تعیش کھانوں ، پھلوں اور مشروبات سے دستر خوان سج جاتے ہیں۔ دن بھر بھوکا رہنے کے بعد افطار کے وقت زیادہ کھا لینے کی وجہ سے بد ہضمی کی شکایات عام ہیں اور سماجی رابطے بڑھانے کے لیے افطار کی دعوتوں کا خرچ اس کے علاوہ ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق رمضان کے مہینے میں عرب دنیا میں کاروبار 87فی صد تک کم ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی مجموعی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ دفتری اوقات میں سرکاری طور پر کمی کر دی جاتی ہے ۔ دفاتر میں موجود افراد زیادہ تر سستی اور کاہلی کا شکار نظر آتے ہیں اور ہر طرح کے کام تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

اگرچہ بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اس مہینے میں خیرات اور عطیے کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے، تاہم دوسری طرف ہر سرکاری ادارہ ’’عیدی‘‘ وصول کرنے لگتا ہے۔ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں جب رمضان کے مہینے میں مسلمانوں پر طاری سستی اور کاہلی کی وجہ سے سماجی خدمات کے شعبے متاثر ہوئے ۔