• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی صورت سازش کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا، عمران خان

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا، ووٹنگ کا فیصلہ جو بھی ہو مزید تگڑا ہو کر ان کے سامنے آؤں گا، میں کسی صورت سازش کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔

اپنے خطاب کے آغاز میں وزیراعظم عمران خان نے قوم سے کہا کہ وہ آج اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اتوار کو ملک کا فیصلہ ہونے جارہا ہے، کیا وہ گزرا زمانہ، کرپٹ لوگ ہوں گے؟ جن پر نیب پر کرپشن کے کیسز ہیں۔ ہمارے انصاف کے نظام میں کرپٹ لوگوں کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ضمیر کا سودا نہیں ہورہا، بلکہ ملک کی بقا و سالمیت کا سودا ہورہا ہے۔

منحرف اراکین کو وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں کو نہ معاف کرنا ہے اور نہ آپ کو بھولنا ہے اور نہ جو لوگ آپ کے پیچھے ہیں کو معاف کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو سوچتا ہے کہ عمران خان چپ کرکے بیٹھ جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا، میں اسپورٹس مین ہوں، مجھے مقابلہ کرنا آتا ہے، میں کسی صورت اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔

اپنی تقریر کے دوران عمران خان نے خط سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں 8 مارچ کو امریکا سے‘ وزیراعظم نے اتنے الفاظ ہی کہے تھے کہ انہیں غلطی کا احساس ہوا اور پھر دہرایا کہا کہ ’ہمیں ایک ملک سے پیغام موصول ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ خط ویسے تو وزیراعظم لیکن درحقیقت ہماری قوم کے خلاف ہے۔ امریکا کو عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق پہلے سے ہی پتہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ خط میں کہا گیا یہ پیغام صرف عمران خان کے خلاف ہے، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں گے، اگر عمران خان عدم اعتماد میں ہار جاتا ہے تو پھر ہم پاکستان کو معاف کردیں گے، لیکن اگر یہ تحریک ناکام ہوتی ہے تو پاکستان کو مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا یہ خط ایک آفیشل دستاویزات ہیں، جو اس ملک نے ہمارے نمائندے کو دیے۔ اس خط میں اس ملک کی جانب سے کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کا ہمارے ملک کے تین افراد کے ساتھ رابطے بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران چلا جائے اور یہ آجائیں تو سب بہتر ہوجائے گا، لیکن سوال ہے کہ یہ کرپٹ لوگوں کو آنے کی کیسے اجازت دیں گے؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مقصد عظیم تھا، ہمیں اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا، کیونکہ اس سے براہِ راست ریاست مدینہ کا تصور ملتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلامی ریاست کے بنیادی اصول اپنے منشور میں لکھے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ ’آپ کو سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ 

انہوں نے صوفی بزرگ کے قول کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا، اللّٰہ نے ہمیں پر دیے، لیکن انسان چیونٹیوں کی طرح رینگتا رہتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ میں نے وہ وقت دیکھا جب پاکستان ترقی کر رہا تھا، دنیا میں پاکستان کی ترقی کی مثالیں دی جاتی تھیں، لوگ یہاں دیکھنے آتے تھے۔ 

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بعد میں ہم نے اس ملک کی ترقی کو نیچے آتے اور ذلیل ہوتے دیکھا۔ 

وزیراعظم نے کہا کہ اللہ نے ہمیں عظیم صلاحیتیں دی ہیں، لیکن اس کے لیے رسٹرکشنز لگائی ہیں۔ اقبال کا شاہین کس وقت اوپر جاتا ہے، جب وہ اپنے سامنے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے پاکستان میں بچوں کو سیرت النبیﷺ پڑھانا چاہتا ہوں کیونکہ آپﷺ کی شخصیت عظیم ترین ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کہا کہ میں نہ کبھی کسی کے سامنے جھکوں گا نہ ہی اپنی قوم کو جھکنے دوں گا۔ مجھے جب اقتدا ملا تو فیصلہ کیا کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں تھا کہ میں بھارت یا امریکا مخالف ہوں گا، میں ان ممالک کے لوگوں کا مخالف نہیں ہوں، ان کی پالیسی کے خلاف ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں ہم سے کہا گیا کہ امریکا زخمی شیر کی طرح ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمیں مار دے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد میں نے بار بار کہا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے، 9/11 میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا، تو ہم اس جنگ میں کیوں جائیں؟

انہوں نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں یہ تاثر بن گیا کہ ہم امریکا کے اتحادی ہیں، سویت یونین کے خلاف ہیں، یہاں قبائلی علاقوں میں جنگ ہوئی۔ 

سویت افغان کے جنگ کے اختتام پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جو امریکا سویت یونین کے خلاف جنگ میں ہمارا اتحادی ہے وہ یہاں سے جانے کے بعد ہم پر پابندیاں لگادیتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قبائلی علاقے میں جرائم نہیں ہوتھے تھے، لیکن 9/11 کے بعد کی صورتحال سے متعلق نہیں بتا سکتا کہ ان لوگوں پر کیا گزری۔ 

وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں شورش کے دوران جو لوگ بچ گئے وہ معذور ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دیا، کیا کبھی کسی نے ہم سے کہا کہ ’شاباش پاکستان‘۔؟

انہوں نے کہا کہ مدارس پر ڈرون حملے ہوئے، بچے مارے گئے، شادیوں کی تقریبات پر بھی ڈرون حملے ہوئے، ان کے لوگ مارے جاتے تھے تو وہ لوگ جواب میں ہم پر حملے کرتے تھے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے خلاف بولنے سے ہمارے سیاست دان ڈرتے ہیں، کہیں امریکا ناراض نہ ہوجائے۔ 

وزیراعظم نے کہا کہ جب حکومت ملی تو پہلے دن کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لوگوں کے لیے ہو، ایسی پالیسی نہیں بنائیں گے کہ کسی اور کی تو بہتری ہو لیکن ہمیں فائدہ نہ ہو۔ 

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے خلاف اس وقت بات کی جب انہوں نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق 5 اگست کا اقدام کیا اور ہر فورم پر کی، لیکن اس سے قبل بھارت سے بات چیت کی بھرپور کوشش کی۔

اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ جو تین لوگ انہیں پسند آئے اس کی کیا وجہ ہے؟ پرویز مشرف کے دور میں 31 ڈرون حملے ہوئے، لیکن ان دونوں کی 400 سے زائد حملے ہوئے لیکن ان کا ایک مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر میرے آرمی چیف کو کوئی برا بھلا کہے اور مجھے اچھا کہے تو میں کیسے چپ رہوں؟ مودی نواز شریف کے گھر شادیوں میں آرہا تھا جبکہ جنرل راحیل شریف کو برا بھلا کہ رہا تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں لیکن جنگ میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں، جب خارجہ پالیسی آزاد ہو تو آپ ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پوچھو کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ انہیں پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا گیا، کبھی ان سے متعلق کسی نے کوئی بات کی؟

عمران خان نے کہا کہ شہباز شریف نے کہا کہ ’ایبسولوٹلی ناٹ‘ نہیں کہنا تھا، آپ نے کیا کیا ہے؟ آپ کا تو اقتدار میں آنے کا مقصد ہی کچھ اور ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے ملک خراب کردیا، مجھے تو صرف 3 سال ہوئے ہیں، 30 سال سے تو آپ باریاں لے رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ تین سال میں ہوا؟

ان کا کہنا تھا میں چیلنج کرتا ہوں کہ جتنا کام اس حکومت میں ہوا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ 

انہوں نے کہا کہ مجھے کسی نے کہا کہ آپ استعفیٰ دے دیں، لیکن میں ایسے ہار نہیں مانوں گا، استعفیٰ نہیں دوں گا۔

قومی خبریں سے مزید