پرویز رحیم
برّصغیر میں1931ء میں بننے والی پہلی بولتی فلم ’’عالم آرا‘‘ کی مقبولیت میں بنیادی کردار اس کے گانوں نے ادا کیا، بالخصوص وزیر محمّد خان کا گایا اور انہی پر فلمایا گیا ایک گیت ’’دے دے خدا کے نام پہ پیارے…طاقت ہو گر دینے کی‘‘ تو گلی گلی گونجا۔ اس فلم نے ایک ایسے رجحان کی بنیاد رکھی کہ آئندہ پانچ دَہائیوں تک قریباً آٹھ گانے ہر فلم کا لازمی حصّہ بن گئے۔ اور کسی بھی فلم کو باکس آفس پر کام یاب بنانے کے لیے گانوں کا کردار مرکزی سمجھا جانے لگا۔ یاد رہے، یہی دَور فلم سنگیت کا ایک سنہری دَور تصوّر کیا جاتا ہے۔
یہ گانے محبّت کے دلی جذبات و احساسات کے علاوہ خوشی، غم، رقص کی کیفیت، طنز و مزاح، حبّ الوطنی، تاریخی واقعات اور جغرافیائی خُوب صُورتی کے بھی عکّاس سمجھے جانے لگے۔ ان گانوں کے گلوکار، موسیقار، شاعر، سازندے اور ریکارڈسٹ سب ہی اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھتے تھے۔ یہ مشترکہ تخلیقات دُھنوں کا ایسا خزانہ بن گئیں، جو آج اتنی دَہائیاں گزرنے کے بعد بھی سامعین کو اسی طرح محظوظ کررہی ہیں، جس طرح کئی سال قبل ریلیز کے وقت کیا تھا۔ یاد رہے، آج بھی یہ نغمات دونوں ہم سایا ممالک کے عوام میں یک ساں مقبول ہیں۔
ویسے تو فلمی موسیقی اور اسے تخلیق کرنے والوں کے متعلق پاکستان اور بھارت میں کئی کتابیں مرتّب کی جا چُکی ہیں، لیکن اس ضمن میں سلطان ارشد خان کی ایک نئی کتاب’’ 101 Melody makers of India and Pakistan and their representative work‘‘ کا اپنا ہی ایک منفرد مقام ہے۔ 656صفحات اور 1,177تصاویر پر مشتمل یہ مجموعہ، جو ایک مینوئل (Manual) کی شکل میں ہے، بھارت اور پاکستان کی فلمی موسیقی کا انسائیکلو پیڈیا ہے، جس میں101موسیقاروں کے علاوہ 228نغمہ نگاروں اور 223گلوکاروں کے کام کا بھی مفصّل تذکرہ موجود ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے گانوں کے آرکسٹرا میں شامل چند مشہور سازندوں کے متعلق بھی تحریر کیا ہے، جو گانوں کو کام یاب بنانے میں برابر شریک رہے، مگر عموماً ان کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔
کتاب کے مصنّف سطان ارشد خان پی آئی اے میں ملازمت کرتے تھے اور بطور مینیجر ان کی آخری تعیناتی ان کے پسندیدہ شہر، بمبئی(موجودہ ممبئی) میں ہوئی، جہاں انہوں نے 1987ءتا1996ء کے دوران اپنے کیریئر کے9شان دار سال گزارے، اس دوران انہیں بھارتی فلم انڈسٹری کی کئی مشہور و معروف شخصیات کے ساتھ نہ صرف ملنے کا موقع ملا، بلکہ ان میں سے کچھ آئی کونز کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات بھی استوار ہوگئے، جن میں انِل بسواس قابلِ ذکر ہیں۔
یہ مجموعہ، جو مصنّف کی قریباً بیس سال کی کاوشوں کے بعد مرتّب ہوا، ان کے فلمی موسیقی کے عِلم اور لگن کی عکّاسی کرتا ہے۔ اس ضمن میں کتاب کے شروع میں فلمی موسیقی سے وابستہ چند شخصیات کے (انِل بِسواس ،نوشاد، گلزار، او -پی - نیّر، روبن گھوش، نثار بزمی، سہیل رعنا اور امین سایانی) مصنّف اور ان کےکام کے متعلق تعریفی پیغامات بھی شامل کیے گئے ہیں،جن سے مصنّف کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔اس ضخیم کتاب سے صحیح معنوں میں لُطف اندوزہونے کے لیے چند عظیم موسیقاروں سے متعلق کچھ حقائق پیشِ خدمت ہیں۔
فلموں میں موسیقاروں کی پہلی جوڑی حُسن لال، بھگت رام کی تھی، جو حقیقی بھائی بھی تھے، لیکن پہلی بے پناہ کام یابی اور مقبولیت شنکر ،جے کشن کو ملی، جنہوں نے 1949ء میں راج کپور کی فلم ’’برسات‘‘ کی موسیقی سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا ۔حیران کُن بات یہ ہے کہ ماسوائے شروع کے چند برسوں کے، شنکر، جے کشن نے شاید ہی کوئی دُھن اکٹھے ترتیب دی ہو۔ اُن کا کام کرنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ شنکر، جو کلاسیکی موسیقی میں مہارت رکھتے تھے، راگوں اور رقص پر مبنی دُھنیں بناتے، جب کہ جے کشن فلموں میں پس منظر کی موسیقی کے علاوہ ہلکے پُھلکے رومانی گانوں کی طرزیں بناتے ۔شنکر، عام طور پر شیلیندر کے لیے گیت لکھتے تھے، جب کہ حسرت جے پوری یہی کام جے کشن کے لیے کرتے۔
موسیقار او پی نیّر نے کلاسیکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن ان کے مختلف راگوں پر بنائے گئے گیت کسی بھی لحاظ سے اپنے اُن ہم عصروں سے کم نہیں کہ جو کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ تصوّر کیے جاتے تھے۔ او -پی -نیّر نے قریباً پانچ دَہائیوں تک75فلموں کے لیے موسیقی دی، لیکن اس دوران لتا منگیشکر سے کبھی گانا نہیں گوایا۔ 1957ء میں فلم ’’نیا دَور‘‘ کی موسیقی کے لیے انہوں نے بہترین موسیقار کے طور پر فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ ویسے وہ ایک سال قبل فلم سی آئی ڈی کے لیے بھی نام زَد ہوئے تھے، لیکن ٹرافی سے محروم رہے ۔
موسیقار سی- رام چندرا(1918-1982ء) نے1951ء میں بننے والی فلم ’’البیلا‘‘ کی موسیقی دی تھی، جس کے سبھی گانے بہت مقبول ہوئے۔ انفرادی گانے، جو کہ لتا منگیشکر نے گائے ان میں ایک لوری ’’دھیرے سے آجا ری اکھین میں نِندیا‘‘ بے حد مشہور ہوئی۔ سی ۔رام چندرا، جن کا پورا نام، رام چندرانرہر چتلکر تھا، موسیقار ہونے کے ساتھ خود بھی میٹھی آواز کے مالک تھے۔ انہوں نے چتلکر (Chitalkar) کے نام سے اِسی فلم میں لتا کے ساتھ دو گانے بھی گائے۔ فلم ’’پرچھائیں‘‘ کے گیت ’’محبّت ہی نہ جو سمجھے‘‘ (1952ء)اور انار کلی‘‘ ’’یہ زندگی اُسی کی ہے‘‘ ( 1953ء)نے سی -رام چندرا کو ہندوستان کے صفِ اوّل کے موسیقاروں میں لا کھڑا کیا۔
انِل بِسواس (1914ءتا2003ء) کا شمار بولتی فلموں کےاوّلین دَور کے موسیقاروں میں ہوتا ہے۔ وہ بزرگ موسیقار، آر سی بورال کو فلمی موسیقی کا باپ اور اپنے آپ کو اس کا ’’انکل‘‘ کہتے تھے۔ انہیں کلاسیکی اور لوک موسیقی دونوں ہی میں مہارت حاصل تھی۔ انہوں نےسب سے پہلے1953ء میں بنائی گئی فلم ’’بھارت کی بیٹی‘‘ کے لیے موسیقی دی۔پھر 1954ء میں فلم ’’پہلی نظر‘‘ میں مکیش سے ’’دل جلتا ہے، تو جلنے دے‘‘ گوایا، جو مکیش کے کیریئر کا پہلا مقبول گیت ثابت ہوا۔شہرۂ آفاق موسیقار، نوشاد علی کے متعلق او پی نیّر کے یہ تاثرات قابلِ ذکر ہیں کہ ’’ہم موسیقار جتنی بھی محنت کریں، ہم میں سے کوئی بھی نوشاد صاحب کی ’’فِنشڈ پراڈکٹ‘‘ کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔‘‘
پاکستان کے نام وَر موسیقار، خواجہ خورشید انور نہ تو گا سکتے تھے اور نہ ہی ہارمونیم بجاتے تھے۔بس ،ایک نہایت ذہین انسان ہونے کے ناتے دُھنیں بنا کر ذہن نشین کر لیتے اور پھر سازندوں کو سمجھاتے ۔ ان کا سارا زور دُھنوں کی مٹھاس اور راگ کی اصل بناوٹ پر رہتا۔انہوں نے 1956ء میں بنائی گئی فلم ’’انتظار‘‘ میں پہلی بار نورجہاں سے لافانی گانے گوائے، جن میں سے چند ایک یہ ہیں ’’جس دن سے پیا دل لے گئے،دُکھ دے گئے‘‘ ’’چاند ہنسے،دنیا بسے، روئے میرا پیار ‘‘ اور ’’او جانے والے رے، ٹھہرو ذرا، رُک جائو۔‘‘
موسیقار ماسٹر غلام حیدر (1906ءتا1953ء) کا تعلق لاہور سے تھا۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں بننے والی فلموں کی موسیقی دی۔ جب کہ فلم ’’خزانچی (1941ء)‘‘ اور ’’خاندان (1942ء)‘‘ میں لازوال موسیقی دی۔ فلم ’’خاندان‘‘ میں اُن کےنورجہاں کے گائے ہوئے دو گانے’’تُو کون سی بدلی میں میرے چاند ہے آ جا‘‘ اور ’’میرے لیے جہاں میں چین ہے، نہ قرار ہے‘‘بے حدمقبول ہوئے۔ نیز، لتا منگیشکر کے کیئریئر کو آگے بڑھانے میں بھی ماسٹر غلام حیدر کا بہت اہم کردار ہے۔
انہوں نے لتا سے فلم ’’مجبور (1948ء) کے تین گانے گوائے، جن میں ’’دل میرا توڑا‘‘ بہت مقبول ہوا۔یاد رہے، ماسٹر غلام حیدرنے فلمی موسیقی میں ڈھولک،گھڑا اور چمٹا متعارف کروایا۔ اپنی کتاب میں مصنّف نے گانوں کے آرکسٹرا میں شامل سازندوں کو بھی اہمیت دیتے ہوئے ان کے تذکرے کے لیے کئی صفحات مختص کیے ہیں، جن میں وائلن بجانے والے اینتھونی گونسالوس کا نام قابلِ ذکر ہے۔ فلم ’’امر،اکبر ، اینتھونی‘‘ میں کشور کمار کا گایا ہوا گانا ’’My name is Anthony Gonsalaves ‘‘ تو سب ہی کو یاد ہو گا، بات دراصل یہ ہے کہ گووا کے رہنے والے، اینتھونی گونسالوس (1927-2012ء) نے پیارے لال سمیت کئی نوجوان موسیقاروں کو وائلن بجانا سکھایا۔ چناں چہ موسیقاروں کی جوڑی لکشمی کانت- پیارے لال نے اینتھونی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ان ہی کے نام سے یہ گانا بنایا تھا۔
زیرِ نظر معلومات سے کتاب کی وسعت کا اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں۔ برّصغیر میں اب بھی سنہری دَور کے فلمی گانوں کو بہت ذوق و شوق سے سُنا اور پسند کیا جاتا ہے، تو ان گانوں اور اس دور کی موسیقی سے والہانہ لگائو رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔
(تبصرہ نگار، آغا خان یونی وَرسٹی اسپتال سے بطور کنسلٹنٹ ہیومن ریسورسز منسلک ہیں)