• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توہین عدالت کیس ، رانا شمیم نے بیان حلفی جمع کرا دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ میں رانا شمیم نے توہین عدالت کیس میں بیان حلفی جمع کرا دیا، کیس کی سماعت 26 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے رانا شمیم نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

گلگت بلتستان کی سپریم ایپلیٹ کورٹ کےسابق چیف جج راناشمیم عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان حلفی جمع کروایا۔

بیان حلفی میں وہی باتیں دہرائی گئی جو شوکاز کے جواب میں بیان کی گئی تھیں، رانا شمیم کے بیان حلفی میں معذرت کے ساتھ معافی کا لفظ بھی شامل کیا گیا۔

رانا شمیم کا کہنا ہے کہ اس عدالت کے ججز کا بہت احترام ہے، وہ آزاد ہیں، قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، خود جج رہ چکا ہوں اور عدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں، عدالت کو جو زحمت ہوئی اس پر معافی مانگتا ہوں اور معذرت خواہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی 10 نومبر 2021 کو لکھ کر سیل کیا اور کسی کو متن نہیں بتایا، بیان حلفی سربمہر لفافے میں اپنے نواسے کو دیا جو لندن میں پڑھ رہا تھا، امریکا میں 30 اکتوبر2021 کو سمپوزیم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی، سمپوزیم کا عنوان پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم تھا، امریکا سے واپسی 17 نومبر کو طے تھی مگر 6 نومبر کو بھائی کی وفات کی اطلاع ملی، امریکا سے 7 نومبر کو پاکستان کیلئے واپسی کی مگر ڈائریکٹ فلائٹ نہ مل سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ لندن سے 10 نومبر کو بذریعہ دبئی کراچی کی فلائٹ تھی، بھائی کی وفات سے قبل 4 ماہ کے دوران چار قریبی عزیز بھی فوت ہوئے، 31 مارچ کو سالی، 4 جون کو اہلیہ، اگست میں بھابھی اور 5 جولائی کو انکل کا انتقال ہوا، فیملی ممبرز کے جدا ہونے کے بعد اپنے علم میں موجود حقائق جلد از جلد تحریری شکل میں لانے کی اہمیت کا احساس ہوا۔

سابق چیف جج نے بتایا کہ اپنی مرحومہ اہلیہ کی وصیت کے مطابق لندن میں ٹرانزٹ کے دوران ایسا کرنے کا فیصلہ کیا، سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتایا کیونکہ بیان حلفی ثاقب نثار سے متعلق تھا جو خود کونسل کے سربراہ تھے، بیان حلفی میں وہی حقائق بیان کیے جو کچھ دیکھا اور سنا۔

رانا شمیم نے کہا کہ یہ حقائق منظر عام پر لانے کا ارادہ نہ تھا مگر حالات اور مرحومہ اہلیہ سے کیے وعدے نے ایسا کرنے پر مجبور کیا، 10 نومبر کا بیان حلفی لیک نہیں کیا اور نہ ہی اشاعت کے لیے دیا، جنہوں نے بیان حلفی حاصل کر کے شائع کیا، مبینہ توہین عدالت کے ملزمان کے خلاف عدالت نے کارروائی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ بیان حلفی میں اپنی رائے دی نا الزام لگایا بلکہ حقائق بیان کیے جو خود سنے، نہیں معلوم کہ صحافی انصار عباسی نے کیسے بیان حلفی حاصل کیا، بیان حلفی لندن میں نواسے کے پاس سربمہر لفافے میں تھا، بیان حلفی عدالتی حکم پر بذریعہ کوریئر سروس براہ راست رجسٹرار کو بھجوایا گیا، کوریئر سروس نے پہلے سے بند لفافے پر اپنے کمپنی کے لوگو والی ٹیپ لگا کر اسے مزید محفوظ کیا جو ان کی معمول کی پریکٹس ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انصار عباسی کو بیان حلفی کا متن شائع کرنے کی اجازت نہیں دی، ان کی کال موصول ہوئی مگر خراب موبائل نیٹ ورک سروس کے باعث بات نہ ہو سکی، بیان حلفی کی اشاعت کا ذمہ دار ثابت کیے بغیر کوئی کارروائی نامناسب ہو گی، یہ بات انکوائری میں سامنے آ سکتی ہے کہ انصار عباسی کو بیان حلفی کے مندرجات کا علم کیسے ہوا؟

رانا شمیم  نے بتایا کہ ضروری ہے کہ انکوائری میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے جوابی بیان حلفی لے کر جرح کا موقع دیا جائے، انکوائری میں بیان حلفی کے حقائق درست ثابت ہوئے تو میرے خلاف سارا کیس زمین بوس ہو جائے گا، بیان حلفی پبلک نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے سیل کر کے اسے خفیہ رکھا۔

عدالت نے بیان حلفی کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 26 اپریل تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ عدالت نے رانا شمیم پر توہین عدالت کی فردجرم عائد کر رکھی ہے۔

قومی خبریں سے مزید