• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارامقصد انتقام نہیں ملک کو ترقی اور استحکام دینا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہےکہ ہمارا مقصد انتقام نہیں ملک کو ترقی اور استحکام دینا ہے۔ہم الیکشن کی طرف جانا چاہتے ہیں لیکن ہم شفاف الیکشن چاہتے گدلا الیکشن نہیں چاہتے ۔ عدم اعتماد ایک آئینی راستہ ہے ہم الیکشن کی طرف جانا چاہتے ہیں مگر اصلاحات کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔رہنما پیپلز پارٹی،سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو پچھلے چند ہفتوں سے حکومت کا طرز عمل دیکھا ہے وہ اس معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتی۔حکومت مارشل لاء کو دعوت دینا چاہ رہی ہے۔رہنما ن لیگ ، مریم اورنگزیب نےکہا کہ جو تماشہ یہاں لگا ہوا ہے وہ صریحاً آئین شکنی ہے باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ کا آرڈر آیا ہوا ہے اور آج ووٹنگ ہونی ہے یہ جان بوجھ کر اس کو تاخیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ان کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ یہ کب تک اس ووٹنگ سے بھاگیں گے جو سپریم کورٹ کا آرڈر ہے اس پر اگر ووٹنگ نہیں کراتے تو توہین عدالت ہے ۔ یہ تو بدمعاشی ہے اگر سپریم کورٹ بالاتر نہیں ہے تو حکومت ، فواد چوہدری اور عمران خان آئین سے بالاتر ہیں۔سپریم کورٹ کا فیصلہ تو آگیا ہےآپ بدمعاشی کرکے اس قسم کا رویہ رکھ رہے ہیں۔آپ نے ملک کے وقار کو داؤ پر لگایا ہے آپ کے ملک کی پوری دنیا میں تضحیک ہورہی ہے اس کی کون ذمہ داری لے گا۔ آپ اپنی انا، اپنی ضداس کے پیچھے آپ نے پورا کا پورا پارلیمان ، آئین، سپریم کورٹ کا آرڈر آپ نے داؤ پر لگایا ہوا ہے پوری عوام کو آپ نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔آپ دس تو خطاب کرچکے ہیں کہ میں آخری بال تک کھیلوں گا آپ میدان میں ہی نہیں آرہے آخری بال کیا کھیلنی ہے ۔ ماہر قانون، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر آج ووٹ نہیں ہوتا تو اسپیکر توہین عدالت کریں گے۔ عدالت اس کو عملدرآمد کروانے کے لئے اسپیکر کو بلا سکتی ہے اور ان کو حکم دے سکتے ہیں کہ آپ ہمارے آرڈر پر عمل کریں اگر وہ نہیں کرتے تو شوکاز نوٹس دے کر جیل بھی بھیج سکتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ تاریخ کا ایک عظیم الشان فیصلہ تھا جو قوم کو بھی منظور تھا اور اس حوالے سے انہوں نے باہمی اتفاق رائے سے بھی کیا۔پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے لیکن جس وقت پارلیمنٹ کے اندر ایک ایسا ایکٹ سامنے آجائے کہ جس پر یہ سوال اٹھے کہ وہ آئین کے مطابق ہے یا نہیں توپھر عدالت کو رجوع کرنا پڑتا ہے۔جس وقت ایک مسئلہ عدالت میں چلا جاتاہے توپھر پارلیمنٹ بھی عدالت کا اتنا ہی احترام کرتی ہے جتناکہ کوئی عام فرد کیا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک لہجہ اور دھمکی ہے کہ تم تو مجھے نکال دو گے لیکن میں بھی ملک تباہ کروں گا بحران پیدا کروں گا اس قسم کی چیزیں ایسے شخص سے بڑی متوقع ہیں۔ پارلیمنٹ کو سپریم بھی کہا جارہا ہے پھر بھی اس کی اکثریت کے سامنے اس کے فیصلے کے سامنے روڑے اٹکائے جارہے ہیں ۔ تو آمریت کی جانب کون لے کر جارہا ہے اس ایکٹ کو آپ دیکھیں اور پھر اندازہ لگائیں کہ کیا یہ حکومت کی طرف سے آمریت کی جانب لے جانے والے اقدامات ہیں یااپوزیشن کی جانب سے۔اس کی پوری سیاست کا جو محور تھا وہ یہ تھا کہ میں این آر او نہیں دوں گامیں این آر او نہیں لوں گا۔ آج اگر اس قسم کی وہ بات کررہا ہے کہ مجھے گارنٹی چاہئے تو اس گارنٹی کا تو معنی یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مجھ سے جرائم ہوئے ہیں پہلے آپ میرے جرائم کا احتساب نہ کریں ۔ ہم نے کب کہا ہے کہ ہم اس کے خلاف مقدمات لگائیں گے گرفتار کریں گے ۔میرے خیال میں ایک مسخرے کا دور تھا جو مک گیا اور اب اس وقت وہ جاتے جاتے جس قدر بحران پیدا کررہا ہے غیر معقول قسم کے اقدامات کررہا ہے جب یہ اقتدار میں آیا تھا تو اس وقت ا س نے کس قسم کے ترلے کئے ہوں گے ۔یہ ملک کو آمریت کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جو کچھ یہ کررہے ہیں یہ اندر سے ایک آمرانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ رہنما پیپلز پارٹی،سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت معاملہ حل کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو ابھی تک معاملات حل ہوچکا ہوتا۔ ہم نے تو پچھلے چند ہفتوں سے حکومت کا طرز عمل دیکھا ہے وہ اس معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتی۔حکومت مارشل لاء کو دعوت دینا چاہ رہی ہے ۔190 کے تحت سپریم کورٹ بھی فوج کو آرڈر کرسکتی ہے ۔عمران خان نے آج احتجاج کی کال بھی دے رکھی ہے وہ صورتحال کو خراب سے خراب تر کرنا چاہ رہے ہیں وہ آگ لگا کر پورا سسٹم نیچے لانا چاہ رہے ہیں ۔ سینئر صحافی ، تجزیہ کار حامد میر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کچھ ساتھی وہ مقتدر حلقوں اور حکومت کی کچھ شخصیات کے ساتھ رابطے کررہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ گارنٹی لی جائے کہ ان کے خلاف نیب کے مقدمات نہیں بنیں گے ان کے کسی وزیر کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک اہم غیر سیاسی شخصیت کے ساتھ ملاقات کی ان کو کہا کہ ہم کو گارنٹی دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹیں اس کے بعد پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر جب بریک تھا انہوں نے اپوزیشن کے کچھ لوگوں سے بات کی ہے۔سینئر صحافی ، تجزیہ کارسلیم صافی نے کہا کہ ہم جیسے قانون سے نا بلدطالب علموں کو بھی یہ نظر آتا ہے کہ پہلے اجلاس وقت پر نہ بلانا وہ آئین شکنی ہوئی پھر اسپیکر کی رولنگ کی صورت میں آئین شکنی ہوئی ۔ پھر وزیراعظم کا اسمبلی توڑنے کی شکل میں آئین شکنی ہوئی پھر صد رکے دستخط کی صورت میں آئین شکنی ہونی۔ پھر سپریم کورٹ نے ان سب چیزوں کو آئین شکنی قرار دے دیا اس کے بعد تو تھوڑا بھی قانون کا احترام ہوتاکوئی شرم ہوتی کوئی حیا ہوتی ۔ یہ کیسے لوگ ہمارے حکمران بنا دیئے گئے تھے کہ جن کی ساکھ کا یہ حال ہے کہ کسٹوڈین آف دی ہاؤس کہتے ہیں کہ میں آئین کا نہیں عوام کا وفادار ہوں۔تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عدلیہ آئین کے ساتھ کھڑی ہے اپوزیشن آئین کے ساتھ کھڑی ہے عوام،میڈیاکی اکثریت اور فوج آئین کے ساتھ کھڑی ہے ۔کابینہ بھی ان کے ساتھ نہیں ہے رات کو کابینہ کے اجلاس میں حتیٰ کہ اعظم خان نے بھی ان سے کہا کہ جو کچھ کرنے جارہے ہیں یہ نہ کریں پرویز خٹک ان کی منتیں کررہے تھے۔سینئر صحافی ، تجزیہ کارشاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ جو خرید و فروخت ہے جو176 نمبر ہیں اس میں حکومت کے خریدے ہوئے ایم این ایز کا تو کوئی کردار نہیں ہے 176 تو حکومت کے اتحادیوں کی وجہ سے ہیں ۔خود عمران خان کا یہ پلان تھا کہ الکشن سے پہلے پوری مشینری کو استعمال کرکے میڈیا کی اپوزیشن کی آوازوں کوبند کرنا ہے تاکہ2023ء کے الیکشن میں جاسکیں نومبر میں اپنی مرضی کی تعیناتی کرنی ہے۔اس لئے وہ ڈرے ہوئے اس لئے ہیں کہ جو میرا پلان تھا وہ میرے اوپرہی نہ اپلائی ہوجائے ۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ جتنی مینجمنٹ کرسکتے ہیں دو صوبوں میں حکومت رکھ کر مینجمنٹ کرکے اگلے الیکشن میں جایا جائے او ر اپوزیشن کسی بھی طریقے سے اس بات کے لئے مان جائے ادارے اپوزیشن کو مجبور کردیں۔سمجھ میں نہیں آرہا کہ وزیراعظم معاملے کو کیوں اتنا آگے لے کر جارہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ آرمی چیف کو یا عسکری اداروں کو قطعی طور پر ا س معاملے میں مداخلت کرنا چاہئے ۔ 
اہم خبریں سے مزید