کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ــ’’نیا پاکستان ‘‘ میں مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نےلیٹر گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کرائیں گے کہ کیوں ایک سفارتی کیبل کو سازشی خط قرار دیا گیا، اگر امریکی سفارتکار سے 7مارچ کو میٹنگ ہوئی تو اس کے بعد احتجاج کیوں نہ ہوا، جب پارلیمنٹ کے باہرقیدیوں والی وین آئی توچیزیں پگھلنا شروع ہوئیں،کوشش کریں گے اپوزیشن کوساتھ لے کر چلیں، ملکر کام کرکے ہی پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں، پی ٹی آئی والے جس نشست سے استعفی دینگے وہاں ضمنی انتخاب ہوگا، سینئر تجزیہ کار محمد مالک نے کہا کہ فوری انتخابات اسٹیبلشمنٹ کو بھی قابل قبول ہوتے تو کل وہ تمام تماشے نہ ہوتے، سینئر تجزیہ کار نسیم زہر نے کہا کہ پی ٹی آئی بہت سخت ایجی ٹیشن کی سیاست لے کر چلے گی۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے گھر جانے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔ عمران خان اب وزیراعظم نہیں رہے مگر تحریک انصاف نے اس شکست کے جواب میں ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہیں تو کیا پارٹی کی اکثریت اس حق میں ہوگی یا اس اقدام سے پارٹی کے مزید ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔عمران خان اور ا ن کے وزرا دعویٰ کرتے تھے کہ عمران خان کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے اور کہا جاتا تھا کہ عمران خان کے اوپر سے کسی کا ہاتھ نہیں ہٹا ہے ادارے 20دن کی نہیں20 سالوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ رہنما ن لیگ احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کل اپنی شخصی انا کی خاطرآئین کو اداروں کوپورے جمہوری نظام کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمدنہ کیا بلکہ اس کو منہ چڑاتے رہے اور کارروائی کو لٹکاتے رہے اس رویئے نے ان کو تباہ کیا ہے۔ اگر اپوزیشن میں بھی وہ اسی رویئے کے ساتھ ہٹ دھرمی اور ضد کے ساتھ سیاست کریں گے تو ان کی تھوڑی بہت سپورٹ بھی ان کے ساتھ نہیں رہے گی۔ہم نہیں چاہتے ہمارے اپوزیشن کے ساتھ وہ تعلقات ہوں جو ان کے اپنی اپوزیشن کے ساتھ تھے۔ ہم اپوزیشن کو جمہوریت کا ایک آئینی حصہ سمجھتے ہیں کوشش کریں گے ان کو ساتھ لے کر چلیں۔ سیاست میں ہم پر تنقید کریں اختلاف کریں لیکن قومی معاملات میں ہم سب کو اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی اور مل کر کام کرنا چاہئے تب ہی ہم پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ ریاستی نظام کو بچانے کا ریاست کا جو بھی حفاظتی طریقہ کار ہے خان صاحب نے کل سارا متحرک کردیا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب، سینئر جج صاحبان رات 12بجے سپریم کورٹ تشریف لے آئے سپریم کورٹ کھل گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کھل گئی وہاں جج صاحبان الرٹ ہوگئے الیکشن کمیشن کھل گیا۔ لیکن یہ ساری چیزیں کسی جمہوری معاشرے میں بہت سنگین ہیں کہ ریاست کا پورا حفاظتی نظام الرٹ ہوگیا۔ جو کہتے تھے ہم بڑے بہادر ہیں کھڑے ہوجائیں گے وہ ایک قیدیوں والی وین پارلیمنٹ ہائوس کے باہر آنے کے بعد پھر چیزیں پگھلنا شروع ہوئیں وہ جنہوں نے امریکا کے آگے بہادر بن کر کھڑا ہونا تھا۔ سزائے موت کے قیدیوں کی چکیاں کاٹ کر ہم تو نہیں پگھلے چار سالوں میں۔ اگر یہ استعفے دیں گے تو جہاں جہاں سے استعفے دیں گے وہاں اپوزیشن جماعت کا جو بھی رنر اپ امیداور تھا اس کی صورت اس جماعت کو ہم سپورٹ کریں گے ضمنی انتخابات میں ہمارے لوگ جیت جائیں گے۔