وقت، حالات، زمانے کی کروٹیں اور تبدیلی کے افق سے طلوع ہوتے رجحانات بعض باتوں کو ناگزیر بنادیتے ہیں۔ لوگ اپنے مخصوص تہذیبی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے تناظر میں تڑپ پھڑک تو دکھا سکتے ہیں لیکن بدلتے زمانے کے تند رو ریلے کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے۔ کہیں جلد، کہیں دیر سے یہ سیل بلاخیز ضرور دستک دیتا ہے۔ علامہ نے برسوں قبل کہا تھا،
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
زمانہ انقلابات پیہم سے گزرتا ہوا ”بہار عرب“ تک آن پہنچا ہے۔ ملوکیتیں اپنے تمام تر جاہ و جلال سمیت لرز رہی ہیں کوئی دن جاتا ہے کہ تخت گرانے اور تاج اچھالنے کا موسم دور و نزدیک تک پھیل جائے گا۔ جمہوریت اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوصف فتوحات کے پرچم گاڑتی اپنا دائرہ اثر بڑھاتی چلی جارہی ہے۔ یہ جمہوریت اپنے ساتھ نئی سوغاتیں بھی لارہی ہے۔ ان میں سے ایک کا نام ہے، اظہار رائے کی آزادی۔ اسی آفتاب کی ایک کرن کا نام پریس کی آزادی بھی ہے۔ جمہوریت سے ہمکنار دنیا اس امر پر ایمان رکھتی ہے کہ صحافت کو زنجیریں نہیں ڈالی جاسکتیں۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، آج یہ اصول، نظریہ یا تصور مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جما چکا ہے اور صحافت پر قدغنیں آمرانہ اقدام خیال کی جاتی ہیں۔
پاکستان بھی برس ہا برس تک آمریتوں کے بندی خانے میں پڑا رہنے کے باوجود، جمہوری ملک ہے جس کے دستور میں اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے منشور اور دستور میں اس حق کے تحفظ کا عہد کرتی ہے۔ آزاد عدلیہ کی طرح آزاد پریس بھی کسی حکومت کے لئے آسودگی کا سبب نہیں بنتا چاہے وہ کتنی ہی شریف النفس اور وسیع القلب کیوں نہ ہو۔ سو ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں کہ حکومت یا حکمران اشتعال میں آکر ناپسندیدہ میڈیا عناصر کو سبق سکھاتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کسی اخبار یا چینل کے سرکاری اشتہارات بند کردینا تو معمول کی روش رہی ہے۔ یوں بھی ہوا کہ گستاخ قلم کاروں یا زباں دراز صحافیوں کو قتل کردیا گیا۔ اس کے باوجود عمومی طور پر صحافت کو نکیل نہ ڈالی جاسکی۔ مشرف کے دور میں رنگا رنگ ٹی وی چینلز کی نمو ہوئی۔ تجزیہ کار اس نکتے پر متفق ہیں کہ انہی چینلز نے عدلیہ بحالی تحریک کو بال و پر فراہم کئے اور انہی چینلز کے کیمروں نے ایسا سماں باندھا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک آمریت شکن، ہیرو کے طورپر نمودار ہوئے۔ اخبارات کا حلقہ اثر ہمیشہ محدود رہا کیونکہ حرف مطبوعہ تک صرف ایک خواندہ شخص ہی رسائی حاصل کرسکتا ہے لیکن ٹی وی چینلز گھر گھر چوکڑی مار کر بیٹھ گئے اور ایک نگار خانہ آباد کردیا۔
سیانے کہتے ہیں کہ ہر شے ایک خاص حد تک ہی بھلی لگتی ہے، تجاوز اس کی کشش کو سنولا دیتا ہے۔ جمالیات کے مفکر کہتے ہیں کہ حسن، تناسب کا دوسرا نام ہے۔ جونہی معاملہ تناسب، اعتدال اور توازن کی حدوں سے نکلتا ہے، حسن بے ڈھنگے پن میں ڈھلنے لگتا ہے۔ ہمارے میڈیا کے ساتھ بھی آج کل یہی ہورہا ہے۔ جمہوری اور آمرانہ حکومتیں تو اسے نکیل ڈال سکیں نہ اس کے پرکاٹ پائیں لیکن یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ میڈیا خودشکنی کی راہ پر چل نکلا ہے، وہ اپنے ہی ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچ رہا ہے۔ اسے احساس ہی نہیں رہا کہ آزادی، احساس ذمہ داری کا تقاضا بھی کرتی ہے اور احساس ذمہ داری، خودنگری اور خود احتسابی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
تین دن قبل اہل صحافت کی نمائندہ اور معتبر تنظیم، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا۔ اتفاق سے میں بھی اس دن کراچی میں تھا۔ سو کئی رفقاء سے ملاقاتیں رہیں قومی اخبارات کے ایڈیٹرز کی اس تنظیم نے اپنے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی جس میں کونسل کے رکن تمام اخبارات و جرائد کو تلقین کی گئی ہے کہ… ”معاشرتی بے راہ روی اور جنسی زیادتی سے متعلق خبروں کو اس انداز سے شائع نہ کیا جائے کہ متاثرہ فرد یا اس کے خاندان کی عزت مٹی میں مل جائے حالانکہ وہ زیادہ ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ زیادتی کا نشانہ بننے والوں اور ان کے اہل خانہ کے نام، تصاویر اور ان کا پتہ شائع کرنے سے اجتناب کیا جائے“۔ قرارداد میں اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گزشتہ دنوں لاہور میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کو الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر جس طرح پیش کیا گیا، اس سے معاشرے پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور میڈیا کی رپورٹنگ پر عوام میں کافی اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس قسم کی خبروں کو زیادہ اہمیت دینے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ہماری پوری سوسائٹی بدچلنی کا شکار ہوچکی ہے اور ہر فرد اپنے بچوں کے تحفظ کے ضمن میں تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے“۔ پاکستان بھر کے مدیران جرائد نے اس قرارداد کے ذریعے یاددلایا کہ سپریم کورٹ اس قسم کے واقعات کے سلسلے میں متاثرہ فریق کو مزید تضحیک سے بچانے کے لئے ان کا نام، تصویر، خاندان کا ذکر اور پتہ شائع نہ کرنے کے احکامات پہلے ہی جاری کرچکی ہے۔
ان دنوں ٹی وی کی اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر جو بے ذوق اور حیاباختہ سرکس سجا ہے، اسے کیا نام دیا جائے؟ کیا ایسا کوئی پیمانہ باقی نہیں رہا کہ ہم کسی بات کو اچھالنے سے پہلے اسے انہی مذہبی، تہذیبی، اخلاقی اور سماجی اقدار کی کسوٹی پر پرکھ لیں؟ اخبار تو اجتماعی طور پر نہیں پڑھا جاتا لیکن پھر بھی گھر کے چھوٹے بڑے کئی افراد کی نظروں سے گزرتا ہے۔ اس نوع کے واقعات کو رنگین چوکھٹوں میں صفحہ اول کی زینت بنانے والوں کو کیا اس امر کا اندازہ نہیں کہ اس سے دل دماغ پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور معاشرہ کس قدر اضطراب کا شکار ہوتا ہے؟ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی سوچ قابل ستائش ہے لیکن اس سوچ کو ٹھوس عمل کے پیکر میں بھی ڈھلنا چاہئے۔ ایسے اخبارات و جرائد کے خلاف کارروائی کا کوئی طریقہ کار بھی وضع ہونا چاہئے جو کونسل کی قراردادوں یا ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ معاملہ صرف ایسے سنگین غیرانسانی جرائم کی رپورٹنگ تک محدود نہیں، درجنوں دیگر قومی اور معاشرتی معاملات کی رپورٹنگ میں بھی توازن اور اعتدال پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
الیکٹرونک میڈیا کو کسی تاخیر کے بغیر اپنے چلن کا جائزہ لینے کی انتہائی سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی۔ یہ طے ہے کہ حکومت تمام تر قوانین، قاعدوں اور ضابطوں کے باوجود بے دست و پا دکھائی دے رہی ہے۔ پیمرا کا منہ پوپلا ہوچکا ہے۔ اس کے پاس کھانے ہی کو نہیں دکھانے کو بھی دانت نہیں رہے۔ میڈیا آزادی کے پھریرے زمیں تا بہ فلک لہرا رہے ہیں اور لوگ دانتوں میں انگلیاں دابے بیٹھے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ عوام الناس کا سنجیدہ طبقہ اب ٹاک شوزسے بھی بیزارہورہا ہے۔ فحاشی و عریانی کی کوئی حد باقی نہیں رہی۔ خبریں ایسے گھناؤنے جرائم کی تشہیر تک محدود ہوتی جارہی ہیں جن سے معاشرے کو گھن آتی ہے۔ ”بریکنگ نیوز“ گٹر کا ڈھکنا چوری ہونے کی سطح تک آگئی ہے۔ شاید اس دھماچوکڑی میں الیکٹرونک میڈیا کو اندازہ نہ ہو کہ وہ بے اعتبار ہوتا جارہا ہے۔ بے اعتباری اور بے وقاری میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ اسلام آباد سے کراچی جاتے ہوئے ایک سینئر بیوروکریٹ نے کہا کہ کوریا میں ایک بڑا طیارہ گر گیا لیکن ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز اس وقت دی جب ریسکیو آپریشن کرنے والے اداروں نے کلیئرنس دی۔ میں نے دبئی کی اس خاتون کا ذکر کیا تھا جس نے تیرہ گھنٹے پولیس کو جل دیئے رکھا۔ ہمارے ہاں کے سکندر کو ہمارے میڈیا نے ایسا تماشا بنادیا کہ آج تک اعصاب ٹھکانے نہیں آئے۔ جناب چیف جسٹس کو دہائی دینا پڑی کہ یہ سب کیا ہے؟
پیشتر اس کے کہ اونگھتی ہوئی حکومت انگڑائی لے، پیشتر اس کے کہ عدلیہ کو عوامی مفاد میں متحرک ہونا پڑے اور پیشتر اس کے کہ عوام خود چنگاریاں بونے، اشتعال ابھارنے اور زخموں کی تجارت کرنے کے اس کھیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، میڈیا کو اپنی اداؤں پہ غور کرنا ہوگا۔ عوامی زندگی سے گہرا تعلق رکھنے والے ادارے اپنے گریباں میں جھانکنے کا چلن بھول جائیں تو دوسروں کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔