• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں عمران خان کے دورِ حکومت میں توشہ خانہ میں ہونے والی لوٹ مار کے بارے میں انکشاف کیا تھا کہ سعودی ولی عہد کی جانب سے ملنے والی بیش قیمت شوپارڈ گھڑی دبئی میں کس طرح فروخت ہوئی جو پاکستان کیلیے تضحیک کا سبب بنی۔ میرے کالم کے بعد میڈیا پر توشہ خانہ کے حوالے سے ایک طوفان برپا ہوگیا اور کئی چینلوں نے مجھ سے رابطہ کرکے اس موضوع پر مزید معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی۔

قواعد و ضوابط کے مطابق دنیا کے کسی لیڈر کی جانب سے سرکاری عہدیدار کو ملنے والا تحفہ توشہ خانہ میں جمع کرایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی سربراہِ مملکت وہ تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہے تو قواعد کے مطابق تحفے کی مارکیٹ ویلیو کا 50 فیصد ادا کرکے وہ تحفہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو پونے چار سالہ دور حکومت میں بیرون ملک کے سربراہان کی جانب سے مجموعی طور پر 112تحائف ملے جن میں شوپارڈ، رولیکس گھڑیاں، سونے اور ہیرے جڑے زیورات، متعدد ہار، بریسلٹس، انگوٹھیاں، ہیرے کی زنجیریں، سونے کا قلم، ڈائمنڈ کف لنک اور دیگر بیش بہا قیمتی تحائف شامل تھے، عمران خان اور ان کی اہلیہ نے ان قیمتی تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے اپنے پاس رکھا اور ٹیکس حکام سے بھی پوشیدہ رکھا جبکہ پاکستان انفارمیشن کمیشن (PIC) کی ہدایت کے باوجود ان تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا اور ہائیکورٹ میں یہ موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات بتانا قومی مفاد میں نہیں۔

وزیراعظم کی تشکیل کردہ ویلیو ایشن کمیٹی نے کروڑوں کے تحائف کی مالیت کا اندازہ صرف 14.2 کروڑ روپے لگایا جو حقیقی مارکیٹ ویلیو پر مبنی نہ تھا اور اس طرح عمران خان اور ان کی اہلیہ 4 کروڑ روپے سے بھی کم رقم ادا کرکے تمام تحائف بنی گالہ لے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 4 کروڑ روپے کی یہ رقمتوشہ خانہ کو کراچی سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی ایک شخصیت نے بذریعہ چیک ادا کی جس کے عوض انہیں سینیٹ کے ٹکٹ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں کوڑیوں میں خریدے گئے مہنگے تحائف کو بیرون ملک کروڑوں میں فروخت کردیا جن میں سے صرف ایک گھڑی 14 کروڑ روپے میں دبئی میں فروخت کی گئی اور عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کس طرح پاکستان واپس لائی گئی اور کیا اس پر کوئی ٹیکس ادا کیا گیا؟

آج جب لوگوں کی نظریں توشہ خانہ اسکینڈل کے حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابقہ خاتون ِاول کو دیے گئے تحائف پر مرکوز ہیں مگر کل جب صدر مملکت عارف علوی کو ملنے والے تحائف کے حوالے سےانکشافات سامنے آئیں گے تو لوگ دنگ رہ جائیں گے کہ صدر پاکستان نے بھی کس طرح اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کرچکا ہوں کہ صدر پاکستان جب اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سعودی عرب کے دور پر گئے تو نہ صرف اپنی اہلیہ بلکہ بیٹیوں، بیٹوں اور بہوئوں کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ سعودی سخاوت سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور واپسی پر ان قیمتی تحائف کو توشہ خانے میں جمع نہیں کرایا گیا اور وزیراعظم کی ویلیو ایشن کمیٹی سے من پسند قیمت مقرر کرکے ہڑپ کرلیا گیا۔

حکمران عام طور پر بیرون ملک کے سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف کو اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں اور انہیں یادگار کے طور پر محفوظ رکھتے ہیں۔ سعودی حکمرانوں کی جانب سے جو تحائف دیئے جاتے ہیں، وہ خاص طور پر شاہی خاندان کیلئے تیار کئے جاتے ہیں جن پر شاہی خاندان کا نام موجود ہوتا ہے۔ ایک ملین ڈالر مالیت کی شوپارڈ گھڑی جو سعودی ولی عہد نے عمران خان کو اس نیت سے دی تھی کہ برادر ملک کا وزیراعظم اسے زیب تن کرے گا، فروخت ہوکر دوبارہ سعودی ولی عہد کے پاس پہنچ گئی اور ان کے دیئے گئے دیگر قیمتی تحائف کی مارکیٹ میں کھلے عام فروخت کی بازگشت بھی سعودی سفارتخانے نے شاہی خاندان تک پہنچادی ہوگی جس سے نہ صرف شاہی خاندان کو صدمہ پہنچا بلکہ پاکستان کیلئے بھی یہ صورتحال شرمندگی اور تضحیک کا باعث بنی۔

اطلاعات ہیں کہ نئی حکومت نے کیبنٹ ڈویژن سے تحائف کے تمام ثبوت و شواہد حاصل کرلیے ہیں جن میں سونے سے بنی کلاشنکوف اور دیگر قیمتی تحائف شامل ہیں، جوابھی تک غائب ہیں۔ 2020ء میں عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سابق صدر آصف زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کیس کا ریفرنس دائر کیا تھا۔ آج توشہ خانہ انصاف کا منتظر ہے۔ وقت آگیا ہے کہ عمران خان پر بھی توشہ خانہ میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے ریفرنس دائر کیا جائے تاکہ مخالفین کو کرپٹ قرار دینے والے عمران خان کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین