ڈاکٹر عامر عبد ﷲ محمدی
اسلام کے شیدائیوں کے لیے حضور نبی کریم ﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے والے اُس اولین گروہ صحابہ کرام ؓ کا اسوہ ہمیشہ لائق تکریم رہے گا، جن میں خواتین عالم کی جانب سے سیدہ خدیجہ ؓ ، مردوں میں سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ، غلاموں میں جناب زید ؓ اور نوعمروں میں سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے اور اُن کا ساتھ نبھانے کا اعلان کیا۔
قریشِ مکہ کی دعوت کے دوران دودھ اور گوشت پیش کر تے ہوئے جب نبی کریمﷺ نے توحید کی دعوتِ پیش کی تو سب رئوسا ئے قریش انکار کر تے ہوئے سر جھکائے بیٹھے رہے ،لیکن اس موقع پر دنیا میں ﷲ تعالیٰ کے اُس وقت کے واحد نمائندے رسول کریمﷺ کا حوصلہ بڑھانے کے لیے سیدنا علی ابن ابی طالب ؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اگر چہ میں کم عمر ہوں، میری پنڈلیاں کمزور اور آنکھیں دُکھنے آئی ہوئی ہیں ،لیکن میں اس پُرصعوبت اور ابتلاء و آزمائش سے پُر راہ گزر میں آپﷺ کا ساتھ دوں گا۔
اس قدر پُر عزم اور حوصلہ مند علی ابن ابی طالبؓ میں نبی کریمﷺ کے لیے اس فدائی اور وارفتگی کے اظہار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ کو بچپن سے ہی بصیرت کا وافر حصہ اور حکمت کا عظیم ذخیرہ عطا ہوا تھا، سیدنا علی ؓ نبی کریم ﷺ کے براہ راست سایہ ٔعاطفت میں رہنے اور اہل بیتؓ ہونے کے باعث آپﷺ کے زیر تربیت نشوونما پانے کی وجہ سے کندن ہی نہیں، کندن گر بن چکے تھے ،جس کا سب سے پہلا تجربہ چشم فلک نے نبی کریم ﷺ کے ہجرت ِ مدینہ والی رات کیا تھا۔
جب قبائل قریش کے جوانانِ تیغ بند ، نبی کریم ﷺ کے دولت کدے کے باہر آپ ﷺ کو نقصان پہنچانے کے لیے شمشیر بکف کھڑے تھے اور آپ ﷺ نے ایک طرف اپنی ہمراہی کے لیے ابوبکر صدیق ؓ کا انتخاب فرمایا تھا اور دوسری طرف بستر نبوت ﷺ پر آرام فرما ہونے کے لیے حضرت علی ؓ کو منتخب کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ علی ( صبح قریش کے لوگوں کی وہ امانتیں جو یہاں رکھی ہیں، اُن کے مالکوں کے حوالے کر کے مدینہ چلے آنا۔ کسی نے سیدنا علی ؓ سے پوچھا کہ آپ کو اس ہجرت ِ مدینہ والی رات دشمن کے حملے کے خوف سے نیند تو نہ آئی ہو گی؟ فرمایا :خدا کی قسم ،پوری زندگی اس قدر پُر سکون نیند کبھی نہیں سویا، جس قدر اُس رات سویا تھا، کیونکہ نبیﷺ کے فرمان کے بموجب مجھے یقین کامل تھا کہ یہ دشمن میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے اور میں صبح امانتیں اُن کے مالکوں کے حوالے کر کے آقاﷺ سے جاملوں گا۔
جگر گوشہ ٔ رسول ؐ خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓ سے نکاح کے ذریعے نبی کریم ﷺ کا شرف دامادی حاصل ہونے اور سیدنا حسنین کریمین ؓکی آپؓکی گود میں تربیت ہونا ایک عظیم اعزاز ہے۔ ریاست مدینہ سے غداری کرنے والے یہود کے مشہور نا قابلِ تسخیر قلعہ خیبر کی فتح کے لیے حضور کریمﷺ کا آپؓ کے دست ِ مبارک میں علم جنگ دینا اور آپ کا فتح سے ہمکنار ہونا ایک طر ف آپ ؓ کی جرأت ، بہادری اور سپاہیانہ جوہر کا آئینہ دار ہے تو دوسری طرف ایک جنگ کے دوران دشمن کے سینے سے اُتر آنا اور قتل سے گریز فرمانا،جب کہ اُس نے آپ ؓ کے چہرۂ پُرانوار پر تھوک کر گستاخی کا ارتکاب کیا تھا اور جب حیرانگی کے عالم میں خود اُسی نے استفسار کیا تو سیدنا علی ؓ نے فرمایا کہ پہلے تم سے جنگ ﷲ اور رسول ﷺ کی خاطرتھی ،جب میری ذات درمیان میں آگئی تو میں نے معاف کر کے اسوۂ رسولﷺ پر عمل کیا، یہودی آپ ؓ کے طرزِ عمل کو دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔
سیدنا علی ؓ فقاہت، عدالت، سیاست، عدل و انصاف کے خاص جواہر سے متصف تھے، یہی وجہ تھی سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ، سیدنا فاروق اعظم ؓ اور سیدنا عثمان غنی ؓ کے دورِ ہائے خلافت میں چیف جسٹس کے عہدے پر آپ ؓ ہی فائز رہے۔ سیدنا علی ؓ اتحادِ اُمت کے بہت بڑے داعی اور علم بردار تھے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ حضرت علیؓ کےکردار اور تعلیمات پرعمل پیرا ہوتے ہوئے امت مسلمہ میں وحدت ویگانگت کو فروغ دیاجائے۔