• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصر کے وزیر داخلہ کے قافلے پر کاربم دھماکہ 19 ہلاکتیں ہوئیں ۔صحرائے سینا میں دہشت گردوں کے خلاف فوج اور ایئرفورس کامشترکہ آپریشن جاری ،دو خودکش حملہ آوروں نے 9 فوجی موت کے گھاٹ اتار دیئے ۔صحرائے سینا فاٹا بن چکا ہے ۔بھارت، امریکہ اور اتحادی پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہے ہیں اور امریکہ اسرائیل اور اتحادی مصر کے خلاف وہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ 2012ء میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دورے پر کچھ مصریوں نے کتبے اٹھا رکھے تھے (مصر نہیں بنے گا پاکستان) مگر حالات کتبہ برداروں کی خواہشات کے بر عکس راہوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔ ہلیری کی طنزیہ مسکراہٹ ان خفیہ زاویوں کی غماض تھی جو قاہرہ میں نشستند امریکی سفیر اینی ،ڈبلیو، پیٹرسن ڈرافٹ کر چکی تھیں ۔محترمہ سفیر صاحبہ فارن افیئرز کے حوالے سے کوئی پس منظر نہیں رکھتیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کیا جس کا تعلق ملکی سلامتی CIAاور دیگر ایجنسیوں سے خصوصی ہوتا ہے ۔وہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل تک تعینات رہیں اور شورش زدہ ممالک کے حوالے سے خصوصی تربیت حاصل کی ۔وہ کسی بھی ملک میں عسکریت پسندی کو عروج دینے کی ماہر ہیں ۔ان کی اسی مہارت کی وجہ سے انہیں سب سے پہلے سلویڈور میں سفیر تعینات کیا اور پھر کولمبیا میں جہاں ان پر حملہ بھی ہوا مگر وہ زندہ بچ گئیں ۔2007ء میں پیٹرسن پاکستان میں سفیر مقرر ہوئیں اور2010ء تک وائسرائے کی طرح حکومت کرتی رہیں ۔وکی لیکس کی لیکیج کے مطابق پیٹرسن نے چوہدری پرویز الٰہی کی بہت تعریف کی اور انہیں مقابلتاً بہتر منتظم قرار دیا جبکہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے متعلق رپورٹ دی لوگ ان دونوں لیڈروں کے پرسنلیٹی کرزمہ میں مبتلا ہیں ۔سابق صدر آصف زرداری کیساتھ خصوصی تعلقات استوار کئے اور پاکستان کے اندر گھسنے کیلئے سی آئی اے اور دیگر امریکی خفیہ ایجنسیوں کیلئے خصوصی آسانیاں اور روٹس حاصل کئے جنہوں نے فاٹا سمیت پاکستان اور افغانستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کیا۔ پیٹرسن نیٹ ورک سے سی آئی اے کا انحصار آئی ایس آئی پر کم ہوا ۔خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں کیلئے اطلاعات کی فراہمی کا جال بچھایا جس سے ملک کے اندر دہشت گردی میں اضافہ ہوا ،پولیس اور دیگر ایجنسیوں سے عوام کا اعتماد مجروع ہوا اور ریاست کی رٹ کمزور ہوئی۔ پیٹرسن کے بچھائے نیٹ ورک نے ڈاکٹر آفریدی کی خدمات حاصل کیں اور جعلی پولیو ٹیم ترتیب دی جو اسامہ بن لادن تک پہنچنے اور ان کی موت کا سبب بنی ۔پیٹرسن کو امریکی حکوت نے اعزازات سے نوازا اور مصر میں سفیر مقرر کر دیا ۔سابق صدرحسنی مبارک کو اسناد سفارت پیش کرتے ہوئے پیٹرسن کو اچھی طرح معلوم تھا اسے کیا کرنا ہے ۔کتبوں کو دیکھ کر ہلیری کی مسکراہٹ کے پس پشت پیٹرسن اور اس سے متوقع امیدیں تھیں جن کی کامیابی پر ہلیری کو کوئی شک نہ تھا ۔پیٹرسن کی تعیناتی پر مصر کے معروف انگریزی روزنامہ Egypt independent میں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، کالم بھی لکھے گئے تھے اور کالم میں تفصیل دی گئی کہ کس طرح مذہب کو عسکریت کیلئے استعمال کیا جائے گا ۔اخبار کے مطابق منصوبہ ساز حسن البنا اور اخوت کے دیگر لیڈروں قطب برادران کے ساتھ مولانا مودودی واحد غیر عرب اسکالر ہیں جو عرب نوجوانوں میں مقبول ہیں کی تحریروں کو سیاق و سباق سے الگ کرکے دہشت گردی پھیلانے کیلئے استعمال کیا جائے گا ۔پیٹرسن کے پس منظر کو جانتے ہوئے حسنی مبارک نے ذاتی مفادات کے پیش نظراس کی تعیناتی پر اعتراض نہ کیا ۔
تیونس سے اٹھنے والی لہر لیبیا، یمن کو روندتی مصر تک پہنچی اور حسنی مبارک کے تخت کو تختے میں بدل دیا مگر امریکہ نے حسنی مبارک کی مدد نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ تواقتدار پر حسنی مبارک کا دیرینہ قبضہ تھا دوسرے حسنی مبارک کی خواہش کہ اگلا صدر اس کا بیٹا ہو جو فوج کو قبول نہ تھا۔ مصر میں فوج اقتدار پر 1952ء سے قابض ہے ۔جنرل نجیب کے بعد کرنل ناصر اور پھر انور سادات اور ایئرفورس کے سابق کمانڈر حسنی مبارک سب فوجی تھے مگر حسنی کے پیشروؤں میں سے کسی نے بھی اپنے بیٹوں کو آگے نہیں بڑھایا۔ تیسرے حسنی پر ڈبل کراسنگ کا شبہ بھی تھا۔ امریکی اخبار ڈیلی ویلتھ نے2010ء میں انکشاف کیا تھا کہ ایرانی ساحلوں کے قریب اسرائیل، جرمنی ،فرانس اور برطانیہ کے12وار شپس نہر سوئیز کے راستے انتہائی رازدارنہ طریقے سے مصری ایئرفورس کی سیکورٹی میں شط العرب میں داخل ہوئے جن کا مقصد امریکی کیریئر10جو بحیرہ عرب میں مستقل کھڑا ہے سے مل کر جنگی مشقوں کے بہانے ایران کو ڈرانا دھمکانا تھا ۔ یہ وہی دن تھے جب ایرانی اپوزیشن نے احمدی نژاد کے خلاف صدراتی الیکشن میں دھاندلی کے الزام کی وجہ سے احتجاج کی کال دے رکھی تھی ۔امریکہ کی طرف سے ایرانی اپوزیشن کیلئے اشارہ تھا قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ CIAکے سابق ایرانی جاسوس رضا خلیلی کی کتاب It is time to betrayکی لانچنگ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ وار شپس کی آمد انتہائی خفیہ تھی مگر ایرانی تیاری سے پتہ چل گیا کہیں سے لیکیج ضرور ہوئی ہے۔ امریکہ کا منصوبہ ناکام ہوگیا تھا ۔اپوزیشن نے احتجاج کی کال واپس لے لی تھی اور حکومت ایران نے مکمل تیاری کے اشارے دے دیئے تھے۔ امریکہ کو شبہ تھا حسنی نے ڈبل کراس کیا ہے۔جب تک ایران میں امریکہ ،سعودی عرب کی ناپسندیدہ حکومت رہے گی حسنی کی اہمیت برقرار رہے گی ۔حسنی کی رخصتی مرسی کی آمد، رخصتی اور جنرل ابوالفتاح السیسی کا coupسب کچھ امریکی منصوبے کے مطابق ہوا ہے ۔پینٹاگون کی محبوب فوج اقتدار میں ہے، امریکی دفاعی چھتری کے سائے میں پناہ گزین مشرق وسطیٰ کا شاہی گروپ جنرل السیسی کو ڈالرز فراہم کر رہا ہے ۔مرسی پابند سلاسل اور حسنی مبارک اپنی حرم گاہوں میں آزاد ہے۔وائٹ ہاؤس مرسی کے حق میں بیانات دے کر جمہوری شہیدوں میں شامل ہے۔ مصر سول وار کے دہانے پر کھڑا ہے ۔دالگا جیسے چھوٹے شہر سے بھی بدھ کو 51گرفتاریاں ہوئی ہیں۔رعمیسس اور التحریر چوک پر اخوت کے حامیان موجود ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ رعمیسس میں اخوت کے کارکنوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ آئین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر غیر مسلموں نے آئین سے مذہبی شقوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ جامعہ الازہر میں آئین کے تحفظ کیلئے اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں اساتذہ اور طلباء نمائندوں نے شرکت کی ہے ۔جنرل السیسی کی اتحادی نور پارٹی نے صدارت کیلئے فوج کے نمائندے کی الیکشن میں شرکت کی تردید نہیں کی جس سے حالات کی سنگینی میں اضافہ ہوگا ۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر سابق صدر مرسی کا فوجی ٹرائل ملتوی کیا گیا ہے، ختم نہیں۔ خانہ جنگی کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے اور لوگ مصر کے مستقبل سے مایوس ہورہے ہیں ۔حالات کی سنگینی کے علاوہ پاکستان اور مصر میں اور بھی بہت سی مماثلتیں ہیں۔ یہ دونوں عالم اسلام کی اہم ریاستیں ہیں اور امریکہ کے خصوصی فوکس میں ہیں۔ مصر بذریعہ اسرائیل اور پاکستان بذریعہ افغانستان امریکہ کے ہمسائے ہیں، دونوں امریکی امداد کے طالب بھی ہیں اور امریکی مفادات سے متصادم رائے بھی رکھتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل السیسی میں بھی مشاہبت ہے۔ پاکستان میں ضیاء الحق اور مصر میں جنرل السیسی کے ادوار میں دہشت گردی کی ابتدا ہوئی۔ دونوں مذہبی رجحان کی شہرت رکھتے ہیں۔ دونوں نے اپنی atachments کے دوران غیرممالک میں صوم وصلوٰةکی پابندی کی ۔دونوں امریکہ دوست ہیں ، دونوں کی بیویاں پردے کی پابند اور مذہبی رجحان کی شہرت کی حامل۔ دونوں نے اپنے محسنوں کے خلاف coupکیا ۔ دعا گو ہوں خدا نہ کرے بھٹو اور مرسی کے انجام میں کوئی مماثلت ہو۔
تازہ ترین