• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دِل جیتنے کا فن قدرت ہر کسی کو عطا نہیں کرتی۔ یہ تحفہ ،خلقِ خدا کی مسلسل خدمت میں مصروفِ عمل رہنے والوں ہی کو نصیب ہوتا ہے اور مجھے فخر ہے کہ میری والدہ، شہزادی بیگم ایسے ہی لوگوں میں شامل تھیں۔ وہ بھارت کے جنوبی علاقے مدراس میں پیدا ہوئیں۔ 1953ء میں اپنے چار بچّوں کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائیں اور عروس البلاد، کراچی کے ایک اسکول میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئیں۔ اُنھیں اللہ تعالیٰ نے قلبِ گداز اور طبعِ درویش عطا کی تھی۔ 

اُن کی ذات کا سب سے بڑا وصف جذبۂ عشقِ رسولؐ تھا۔ اگرچہ اُن کی مادری زبان اردو تھی، لیکن تامل، مالاباری (ملیالم) اور مدراسی زبانیں بھی بڑی روانی سے بول اور لکھ لیتی تھیں۔ ان زبانوں کے بے شمار اشعار، شادی بیاہ کے گیت اور گانے اُنھیں ازبر تھے۔ اللہ عزّو جل نے اُنھیں اچھی آواز بھی عطا کی تھی۔ میلاد کی محافل میں اس قدرخوش الحانی کے ساتھ مداح سرائی کرتیں کہ سُننے والا اَش اَش کر اٹھتا۔ اپنی صوفیانہ روایات اور سیماب صفت طبیعت کے باعث صبح سے رات گئے تک درس و تدریس اور امورِ خانہ داری میں مصروفِ عمل رہتیں۔ 

اس دوران ہماری تعلیم و تربیت میں کبھی کوئی کوتاہی یا سمجھوتا نہیں کیا۔ اُن کی خصوصی توجّہ اور بھرپور رہنمائی کے سبب ہم سب بھائی بہن اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے۔ وہ تیس برس تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہیں، اس دوران ہزاروں تشنگانِ علم کی پیاس بجھاتی رہیں، اُن سے فیض پانے والے ہزار ہا شاگرد دنیا کے طول و عرض میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اُن کی ماہرانہ تدریسی صلاحیتوں کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ انتہائی کم زور اور کند ذہن طالبِ علم بھی حصولِ علم کی جانب مائل ہوجاتا۔

الحمدللہ، میری والدہ نے تقریباً ایک سو ایک سال کی عُمر پائی۔ ضعیفی میں بھی صحت مند رہیں، کوئی بیماری لاحق نہیں ہوئی۔ ہمیشہ اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز رہتیں اور فرماتیں کہ ’’اللہ ربّ العزت بندوں کے نیک اعمال سے زندگی میں برکت فرماتا ہے۔‘‘ علی الصباح فجر کی نماز کے بعدسے دن بھر اپنے تدریسی امور اورامور خانہ داری میں مصروفِ عمل رہتیں۔ اکثر دعا کرتیں کہ ’’میرے ربّ! مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا، چلتے پھرتے اپنے پاس بلانا۔‘‘ اور اللہ ربّ العزّت نے اُن کی یہ دُعا قبول کی۔ وہ کسی بیماری میں مبتلا ہوئے بغیر ہشاش بشاش 8 رمضان المبارک،16جون 2016ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوئیں۔ میری عظیم ماں اگرچہ آج ہمارے درمیان نہیں، مگر اُن کی بے لوث محبّت ہمارے دِلوں میں زندئہ جاوید رہے گی۔ (سیّد نعیم الدین، یونی ورسٹی روڈ،کراچی)