• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

عکّاسی و اہتمام: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے ساتھ لگ بھگ چھے برس تک منسلک رہنے والی خوش مزاج، خوش خصال، خوش پوش، خوش اندام، تعلیم یافتہ و تہذیب یافتہ اور بہت مہذّب و شائستہ، عائشہ جہاں زیب کا ایک چہرہ تو وہ ہے، جو ناظرین جیو نیوز کے طنز و مزاح پر مبنی مقبولِ عام پروگرام ’’خبرناک‘‘ میں دیکھتے رہے۔ لیکن اُن کا ایک اور بہت اُجلا، خالص، سَچّا و سُچّا رُوپ ؎ بابِ رحمت پہ دُعا گریہ کُناں ہو جیسے…‘‘ کے مثل ایک ’’ماں‘‘ کا رُوپ بھی ہے۔ پانچ بہت پیارے پیارے بچّوں کی ماں، جن میں سے تین بچّے (تاجور، ضحیٰ اور ریحاب) اُن کے مرحوم شوہر، جہاں زیب توقیر سے ہیں، جب کہ یہ دو چھوٹے بچّے (علی آدم بِن حارث اور یشفین بنتِ حارث) جن کے ساتھ یہ بزم سجائی گئی ہے، اُن کے اب نصف بہتر، حارث علی سے ہیں۔ عائشہ جہاں زیب کا پچھلے دِنوں ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا، جس میں وہ دریائے نیلم کنارے بیٹھی اپنے شوہر کے پائوں دُھلا رہی ہیں۔ اِس کلپ نے اُن کا ایک پتی برتا (شوہر کی خدمت گزار، وفا شعار) عورت کا امیج تو ساری دنیا کے سامنے اُجاگر کردیا، لیکن وہ ایک پرفیکٹ، آئیڈیل، رول ماڈل ماں بھی ہیں، اِس کا اندازہ ہمیں اُن سے مدرز ڈے کے حوالے سے بات چیت کر کے ہوا۔

عائشہ کا اپنا بچپن، باپ جیسے عظیم رشتے سے محرومی بلکہ یک سر ناشناسائی کے کرب میں گزرا۔ پوری زندگی صرف چھے ماہ، باپ کی قربت میسّر آئی، کیوں کہ والدین میں نباہ نہ ہوسکا، تو والدہ کے ساتھ ننھیال آنا پڑا۔ جہاں وہ نانی، ماں، تین خالائوں، بڑی خالہ کی چار بیٹیوں، ممانی، اُن کی دو بیٹیوں یعنی آٹھ، دس خواتین کے زیرِ سایہ ہی پَلی بڑھیں۔ ننھیال خاصی خوش حال تھی، روپے پیسے کی کوئی کمی، تنگی نہ تھی۔ نانی، ماموں، خالائوں نےبڑے ناز بھی اُٹھائے، خصوصاً دوسرےنمبر کی خالہ، خالہ رضیہ تو بیسٹ فرینڈ تھیں۔ (بعدازاں، اُن کا انتقال ہوگیا تو عائشہ خاصے ڈیپریشن میں بھی چلی گئیں) لیکن باپ کی کمی اور ماں کے ہوتے ہوئے بھی مکمل طور پر میسّر نہ ہونے سے (بقول عائشہ، میری ماں نے نانی کے گھر واپس آکر پورے گھر کی ذمّے داری صرف اِس لیے اپنے کاندھوں پر لے لی تھی کہ وہ بہت خُود دار عورت تھیں، نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی ایک پَل کے لیے بھی اُنھیں یا اُن کی بیٹی کو بوجھ تصوّر کرے)اُن کی شخصیت میں کسی حد تک ایک خلا، کچھ ادھورا پَن سے دَر آیا۔ 

عدم تحفّظ کا احساس، تنہائی پسندی کی طرف لے گیا اور وہ خاصی خاموش طبع، Introvert سی ہوگئیں۔ تب عائشہ کو ماں سے بھی بہت شکایات تھیں، جس خالہ سے دل کی ہر بات کرتی تھیں، وہ بھی اچانک چلی گئیں۔ کم عُمری میں جہاں زیب توقیر سے لَومیرج کرلی۔ اور ابھی ریحاب دو سال کی بھی نہ تھی کہ شوہر کو پھیپھڑوں کا سرطان ہوا اور وہ کینسر سے لڑتے لڑتے زندگی ہی کی بازی ہار گئے۔ عائشہ کی زندگی اور شخصیت میں کئی اتار چڑھائو، نشیب و فراز آئے، لیکن بحیثیت ’’ماں‘‘ انھوں  نے اپناکردارجس خوبی و عُمدگی سے نبھایا، وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔

ہم نے عائشہ سے پوچھا کہ ’’خود آپ کی زندگی ایک ’’roller coaster ride‘‘ کی طرح تھی، تو جب پہلا بچّہ، پہلوٹھی کا بیٹا، تاجوَر گود میں آیا، تو کیسا محسوس ہوا، اُس کی پیدایش سے پہلے اور پھر پہلی بار گود میں لے کر کیا محسوس کیا؟‘‘ ’’مَیں نے خود سے عزم کر رکھا تھا (عائشہ گویا ہوئیں) کہ مَیں اپنے بچّے کی زندگی میں ایسا کوئی دُکھ، محرومی نہیں آنے دوں گی، جو کبھی ایک پَل کو بھی میری زندگی کا حصّہ رہی۔ حالاں کہ میری پہلی شادی کوئی بہت خوش گوار تجربہ نہیں تھی۔ میری ماں نے جو زخم کھائے، اُن کی نوعیت مختلف ضرور تھی، لیکن کچھ ایسی ہی چوٹ مَیں نے بھی کھائی۔ باپ کا پیار تو خیر سِرے سے دیکھا ہی نہیں تھا، محبّت کی شادی بھی اِک خاصی دشوار گزار مسافت تھی، مگر چوں کہ فیصلہ میرا اپنا تھا اور پھر مجھے ہر صُورت اپنے بچّوں کو ایک مکمل گھر دینا تھا، جہاں ماں کی بے لوث ممتا تو ہو، مگر باپ کا سائبان، چھپّر چھایا بھی لازماً ہو، تو مَیں نے اپنی شادی، کمٹمنٹ آخری دَم تک نبھائی۔ 

اپنے بیمار شوہر کی خدمت بھی کی اور اپنے تینوں بچّوں پر اپنے کسی دُکھ، تکلیف کا سایا بھی نہیں پڑے دیا۔ مَیں نے اپنے بڑے تینوں جگرگوشوں کو ان کے باپ کی زندگی میں بھی اور بعد میں بھی کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اکیلے یا اُدھورے ہیں۔ زندگی میں جتنے بھی دُکھ اٹھائے، صدمے جھیلے، بچّوں کے لیے ہمہ وقت موجود، حاضر سروس رہی۔ یوں بھی جب ایک عورت ماں بن جاتی ہے، تو پھر وہ بس صرف ماں ہی ہوتی ہے، اُس کی باقی تمام حیثیتیں، رشتے، تعلقات ثانوی ہوجاتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ پیار و محبّت کا خزانہ، جس کے دل میں ہو نہاں..... صرف ماں ہے، صرف ماں ہے، صرف ماں ہے، صرف ماں۔ حسّاس طبع، زود رنج تو مَیں بچپن ہی سے تھی، لیکن بیٹے اور پھر اوپر تلے دو بیٹیوں کی پیدایش نے تو مجھے اوپر سے فولاد اور اندر سے جیسے موم کر کے رکھ دیا۔ 

یوں کہیے، مَیں نے اپنی اولاد کی خاطر اپنی ذات کی ساری تلاطم خیز موجوں، جوار بھاٹوں، طوفانوں کو کنارے لگانے، پُرسکون لہروں میں بدلنے کا ہنر سیکھ لیا۔ مَیں نے اپنی تربیت خود کی۔ اندر کی جنگ، اندر ہی لڑی۔ چیزوں کو مثبت انداز سے دیکھنا شروع کیا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ میری ماں کتنی عظیم عورت ہے۔ وہ جو اِس قدر خاموش رہتی ہیں، تو اِس دبیز، گہری، پُراسرار خاموشی کی تہہ میں بھی کیا کیا طوفان نہ سَر اُٹھاتے ہوں گے۔ وہ جوان تھیں، خُوب صورت، خوش حال تھیں۔ چاہتیں تو کسی بھی بہترین شخص کےساتھ دوبارہ زندگی کا سفر شروع کر سکتی تھیں، لیکن اُنھوں نے صرف اور صرف میری خاطر اپنی جوانی اور پھر اپنی پوری زندگی تیاگ دی۔ مَیں خود ماں بنی، تو ماں کی قدر و منزلت دوچند ہوگئی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا کی ہر ماں کی ایک Journey، ایک کتھا، ایک داستان ہے۔ ہرسفر، ہرکہانی دوسرے سے مختلف تو ہو سکتے ہیں، لیکن رستہ پُرپیچ، اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے اَٹا نہ ہو، ممکن ہی نہیں۔‘‘

’’اگرچہ ماں تو ماں ہی ہوتی ہے، لیکن اگر موازنہ کریں، تو آج کی مائیں زیادہ اچھی مائیں ہیں یا پہلے کی مائیں بہتر تھیں۔ نیز، آج بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت زیادہ مشکل امر ہے یا ہماری مائوں نے زیادہ تکلیفیں اُٹھائیں؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو عائشہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں بتانا شروع کیا ’’جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہر ماں کی اپنی ایک الگ ہی کتھا ہے، لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ ہر اگلی نسل کی تعلیم و تربیت کا عمل، پچھلی نسل سے کچھ مشکل ہی ہے۔ ہماری مائوں نے بھی بڑے جتن کیے، ایک انسان کو ’’اچھا انسان‘‘ بنانا ہرگز کوئی آسان امر نہیں کہ اولاد تو پیغمبروں، اولیا اللہ کےلیے بھی باعثِ آزمایش رہی، تو عام انسانوں کی تو حیثیت ہی کیا۔ لیکن جوں جوں دنیا ڈیجیٹلائزڈ ہو رہی ہے، گلوبل ویلیج بن رہی ہے، ایک اسمارٹ فون میں سمٹ کے، انگلیوں کی پوروں پر آگئی ہے، والدین، خصوصاً مائوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ 

آج اولاد کی تعلیم و تربیت صرف والدین یا اساتذہ کی مرہونِ منّت نہیں، پوری دنیا اس میں شراکت دار ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اب والدین اس معاملے میں سوشل میڈیا کے رحم و کرم پر ہیں، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ہمیں تو والدین کی جن باتوں سے شدید اختلاف بھی ہوتا تھا، منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر، رو دھو کر صبر شُکر کرلیتے تھے، لیکن آج کی اولاد کو ہر بات کا مدلّل جواب، درست جواز فراہم کرنا لازم ہے۔ یہ نسل محض مشاہدات یا ماضی کے تجربات سے سیکھنے پر یقین نہیں رکھتی، اِسے سب کچھ خود کر کے دیکھنا ہے، خصوصاً ٹین ایجرزکی تربیت تو پُل صراط پر چلنے کےمترادف ہے۔گرچہ مَیں اس معاملے میں پھر بھی بہت خوش نصیب ہوں کہ میرے بڑے تینوں بچّے اور چھوٹے دونوں بھی ایک یک سر جداگانہ ماحول اور تجربات کے باوجود بھی دورِ حاضر کے دیگر کئی بچّوں کی نسبت بہت سلجھے ہوئے، سمجھ دار اور کمپرو مائزنگ ہیں۔ 

بڑے تینوں نے تو اپنی ماں ہی کی طرح زندگی میں بڑی اونچ نیچ، کمی بیشی دیکھی۔ پہلے باپ کی بیماری، پھر دنیا سےچلے جانا، اُس کے بعد ماں کی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد، ماں کی دوسری شادی، ایک بالکل نئے رشتے، دوسرے باپ کو قبول کرنا، اُس کے بعد چھوٹے بھائی، بہن کا دنیا میں آنا۔ تو میرے بڑے بچّے تو ان سارے مراحل سےگزر کر آج الحمدللہ بہت ہی میچور، بالغ نظر، حقیقت پسند ہوچُکےہیں۔ اور مَیں نے اُن کی تربیت میں دانستہ یہ عُنصر شامل رکھا کہ اُن سے کوئی بات مخفی نہ رکھی جائے۔ میری ماں خاموش رہنے پر یقین رکھتی تھیں، لیکن مَیں نے بچّوں سے ہر بات شیئر کر کے اُن پر اعتماد کرنا اور اُنھیں اعتماد دینا بہتر سمجھا۔ لوگ مجھے اچھا انسان سمجھتے ہیں، تو تربیت میری ماں کی بھی لاجواب ہے اور آج اگر لوگ میرے بچّوں کے اچھے رویّوں، بہتر اخلاق کی تعریف کرتے ہیں، تو اولاد کی اچھی تربیت میں ناکام مَیں بھی نہیں رہی۔‘‘

’’آپ کو تو اپنی ماں کی عظمت و بڑائی کا ادراک خود ماں بننے کے بعد ہوا، آپ کی بچیوں کی آپ کے ساتھ بانڈنگ کیسی ہے، بچّےبلاجھجک اپناہر مسئلہ، پریشانی ڈسکس کرلیتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں عائشہ نے بڑے پُرتیقّن لہجے میں کہا’’جی بالکل، ویسے تو بچّے ہم دونوں ہی سے بہت فرینڈلی ہیں، خصوصاً حارث سے۔ کیوں کہ انھوں نےتو بچّوں کی کسی بات سےانکارکرنا ہی نہیں ہوتا۔ چھوٹوں پر تو پھر بھی روک ٹوک ہے، لیکن بڑوں کی کوئی بات ہرگز ٹالی نہیں جاتی۔ اُنھیں جو بھی کہنا سُنناہے، مَیں نےہی کہنا ہے۔ 

اصل میں حارث کا اُن سے رشتہ بھی کچھ ایسا ہےکہ وہ اُس کا بھرم رکھتے ہوئے ہی چلتے ہیں۔ عام والدین کے مقابلے میں ہماری سچویشن تھوڑی مختلف، کچھ مشکل ہے، تو ہم نے اِسی مناسبت سے اپنی ذمّےداریاں تقسیم کر رکھی ہیں۔ بچّوں پہ ہر طرح کی سختی، نظر رکھنے کا اختیار میرا اور نرمی، محبّت و شفقت کاسارا معاملہ والد کا ہے۔ مَیں ورکنگ مدر ہوں، بچّوں کو بہت زیادہ وقت تو نہیں دے پاتی، لیکن جتنا وقت ساتھ ہوتی ہوں، پوری توجّہ، یک سوئی سے اُن کی ایک ایک سرگرمی پر بات کرتی ہوں۔ 

بیٹیاں، باپ کی بہت لاڈلی ہیں، لیکن اپنے دل کی اِک اِک بات مجھ سے بھی بےجھجک شیئر کرتی ہیں، اِسی طرح بیٹا بھی بڑے اعتماد سے ہر بات کرلیتا ہے۔ چھوٹے بچّے تو خیر ابھی مکمل طور پر ہی ہم دونوں پہ انحصار کرتے ہیں، البتہ بڑے بچّوں کی زندگی میں اب ایک ٹھہرائو، یقین و اعتماد آگیا ہے اور مجھے یہ کہنے میں ہرگز کوئی عار نہیں کہ اِس میں اصل کمال حارث کا ہے۔ گرچہ میری شخصی تعمیر کا ایک بڑا عرصہ عورتوں کے بیچ گزرا۔ اُس عرصے میں مَیں نے مرد ذات کا کوئی بہت مثبت رُخ نہیں دیکھا، لیکن مَیں سمجھتی ہوں کہ مَیں بڑی بخت آور ہوں کہ جن عورتوں نے میری تعلیم و تربیت میں بھرپور حصّہ ڈالا، وہ بہت مضبوط، بہادر اور منفرد و مثالی عورتیں تھیں۔ میری نانی بڑی زبردست خاتون تھیں، عُمر کے آخری حصّے تک متحرک، چاق چوبند رہیں،واکرسےچلتی، مگر انتہائی متحرک تھیں۔ میری ماں جی کو میرے نانا ’’ماسٹر‘‘ کہا کرتے تھے اور وہ واقعی ’’ماسٹر‘‘ تھیں۔ 

کون سا کام تھا،جو وہ نہیں کرتی تھیں اورجوبھی کرتیں، پرفیکٹ کرتیں۔ میری خالائیں، ممانی، خالائوں کی بیٹیاں سب اپنی اپنی ذات میں گویا انجمن ہیں۔ میری جن خالہ کا انتقال ہوگیا ہے، وہ تو اتنی بولڈ تھیں کہ ایک بار باغ بان پورہ کے ایک بدمعاش کو سرِبازار ایسا تھپڑ جَڑا کہ پھر کئی برسوں تک اُس بازار میں اُن کے تھپڑ کی گونج سُنائی دیتی رہی۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی نے بڑے دُکھ بھی دیئے، لیکن ساتھ ساتھ بڑے سبق آموز درس بھی دیتی چلی گئی۔ مَردوں کے کئی رُوپ دیکھے، لیکن جس رُوپ کے ساتھ مَیں اب زندگی جی رہی ہوں، اُس کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ 

حارث صرف میرےشوہرہی نہیں، میرے بہترین دوست بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مجھ سے محبّت تو کرتے ہی ہیں، لیکن اُس سے کہیں بڑھ کے عزت کرتے ہیں۔ حالاں کہ مَیں نے دوسری شادی کے لیے ’’ہاں‘‘ کرنے میں بڑا وقت لگایا، بہت سوچا۔ میری ماں نے مجھے بڑے مان رسان سے سمجھایا، تو میرا موقف تھا کہ آپ نے اکیلے میرے سہارے زندگی جی لی، تو میرے پاس تو تین تین سہارے ہیں، لیکن پھر حارث کا خلوص و محبّت، بےلوث چاہت اور میری ماں کی دُعائیں رنگ لے آئیں اور میرا دل اپنی زندگی کے لیے ایک بہترین فیصلہ کرنے پر قائل و مائل ہو ہی گیا۔ اور یہ بھی میری مرحومہ ماں ہی کا مجھ پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کے لیے مَیں نہ جانے دن میں کتنی بار اُن کی شُکرگزار ہوتی ہوں۔ اُن کے لیے دل کی گہرائیوں اور نم آنکھوں سے دُعا کرتی ہوں کہ اللہ اُنھیں زندگی کے اِک اِک دُکھ کے بدلے، سو، سو گُنا اجر عطا فرمائے اور مجھے اپنی ماں کے لیے صدقۂ جاریہ بننے کی توفیق دے۔‘‘

’’کیا آپ کے خیال میں بچّوں کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں کچھ رہنما اصول متعیّن کیےجاسکتے ہیں ؟‘‘ اس سوال کے جواب میں عائشہ کھکھلا کے ہنسیں، ’’وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’مَیں نے اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت کے لیے چھے رہنما اصول بنائے تھے۔ آج میرے چھے بچّے ہیں، لیکن اصول ایک بھی نہیں۔‘‘ تو میرا ماننا تو یہ ہے کہ جیسےہر انسان کے فنگر پرنٹس، دوسرے سے مختلف ہیں، اِسی طرح ہر بچّےکی تعلیم و تربیت جداگانہ اصول و ضوابط کی متقاضی ہے۔ جب ہر بچّہ ایک الگ مزاج، اپنی پوری ایک علیٰحدہ ہستی کے ساتھ جنم لیتا ہے، تو پھر اُس پرکسی دوسرے بچّے پہ آزمائے گئے تربیتی اصول بھلا کیسے لاگو ہوسکتے ہیں۔ 

ہاں، یہ ضرور ہے، والدین کچھ باتیں طے کرلیں۔ مثلاً جیسے مَیں بچّوں کو کسی فیری لینڈ میں رکھنے کی قائل نہیں۔ مَیں ہر طرح کی بات بچّوں سے ڈسکس کرنے پر یقین رکھتی ہوں۔ اونچے اونچے خواب دِکھاتی ہوں، نہ دیکھنے دیتی ہوں۔ گھر کا ماحول دوستانہ رکھتی ہوں، لیکن جہاں ماں بننا ہوتا ہے، ایک لمحے میں ماں بھی بن جاتی ہوں۔ میرے بچّے شکوہ کرتے ہیں کہ ’’امّاں!ابھی آپ اتنا ہنس بول رہی تھیں، مذاق کر رہی تھیں، ایک دَم سنجیدہ ہوگئیں؟‘‘تو مَیں یہی کہتی ہوں کہ ’’ہنسی مذاق میں بھی آپ کو یہ نہیں بُھولنا کہ مَیں ماں ہوں اور آپ اولاد ہیں۔‘‘ مطلب والدین کا ادب و احترام کسی صُورت کمپرومائز نہیں ہوناچاہیے۔ مَیں زندگی کے ہر معاملے میں Clarity کی قائل ہوں۔ دائو پیچ، گُھمن گھیریوں، ابہام و اشتباہ سے مجھے سخت الجھن ہوتی ہے۔ قصّہ مختصر یہ کہ سارے بچّوں کے لیے کوئی یک ساں اصول و ضوابط تو مقرر نہیں ہیں، لیکن کچھ باتیں ضرور طے شدہ، کچھ حدود بالکل متعیّن ہیں اور وہ مَیں انھیں قطعاً کراس نہیں کرنے دیتی۔‘‘

’’کوئی ایسی بات ہے، جو مرحومہ والدہ سے کہنا چاہتی تھیں اور نہیں کہہ سکیں؟‘‘ ہم نے پوچھا تو جواباً عائشہ کی آنکھیں چھلک گئیں۔ ’’بہت کچھ کہنا تھا، جو نہیں کہہ سکی۔ امّاں کو بتانا تھا کہ مَیں اس دنیا میں سب سے زیادہ پیار اُن سے کرتی ہوں۔ مَیں اُن کی کڑی محنت و مشقّت کی دل سے قدر دان ہوں۔ اُن سے خفا بھی رہتی تھی، تو اِسی لیے کہ اُنھوں نے دوسروں کے لیے اپنی جان مار دی تھی۔ خود کو جیتے جی فنا کر ڈالا تھا۔ وہ اپنی پروا بالکل نہیں کرتی تھیں، حالاں کہ اُنھیں کرنی چاہیے تھی۔ وہ صرف دوسروں کے لیے جیتی رہیں۔ اُنھیں اپنے لیے بھی جینا چاہیے تھا۔ اُنھوں نے خود پہ جبر کر کر کے خاموش رہنا سیکھا، تو اُنھیں بولنا بھی سیکھنا چاہیے تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ ’’امّاں! مجھ میں اگر کوئی ایک بھی اچھائی، خوبی ہے، تو وہ صرف اور صرف آپ کی بدولت ہے۔ 

آج اگر کوئی میری ذرا سی بھی تعریف کرتا ہے، تو وہ درحقیقت آپ کی محنت و عظمت کو پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین و عقیدت ہے۔‘‘ مَیں اُن کی زندگی میں اُن سے کبھی والہانہ اظہارِ محبّت تو نہ کر سکی، لیکن اب اپنی اِک اِک سانس کے ساتھ انھیں بہت ٹُوٹ کے یاد کرتی ہوں۔ وہ گرچہ دنیا سے جاتے سمے مجھ سے بہت راضی تھیں، لیکن میرے دل کو قرار نہیں آتا۔ ابھی کئی خواب تشنہ تھے۔ ابھی مَیں نے اُنھیں وہ سارے سُکھ لوٹانے تھے، جو وہ بےحساب دُکھوں کے عوض Deserve کرتی تھیں۔ میری ماں دنیا کی سب سے عظیم ماں تھی۔ اُس نے اپنی چُپ کو اپنی طاقت بنایا اور مرتے دَم تک اس طاقت سے بڑے سے بڑے حریف کو شکست دی۔ اللہ ربّ العزت اُن کے درجات بلند کرے۔ دل کو ایک اطمینان تو بہرحال ضرور ہے کہ میری ماں اس جہاں سے اُس جہاں میں کہیں زیادہ سُکھی ہوگی۔ وہ ہے ناں ؎ چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے.....مَیں نے جنّت تو نہیں دیکھی ہے، ماں دیکھی ہے۔‘‘

ہم نے عائشہ کی دونوں بڑی بیٹیوں ضحیٰ اور ریحاب سےمدرز ڈے کی مناسبت سے اُن کے جذبات و خیالات جاننا چاہے تو اولاً ضحیٰ نے اظہارِ خیال کیا۔ ’’مَیں اپنی ماما سے آج کے دن کی مناسبت سے بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ ماماجی! تھینک یو سو ویری مچ، میرے پاس ہمیشہ موجود رہنے، میرے ہر مسئلے، پریشانی کا حل چُٹکیوں میں نکال لینے، مجھے صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے اور اس سب کے باوجود کوئی غلطی،کوتاہی ہوجانے کے بعد بھی مجھے مکمل سپورٹ کرنے کے لیے۔ آپ کے ہوتے میں کبھی تنہا نہیں ہوسکتی۔ مجھے پتا ہے، مَیں آپ کو بہت تنگ کرتی ہوں، لیکن آئی سوئیر، مَیں اس بَھری دنیا میں سب سے زیادہ پیار بھی آپ سے کرتی ہوں۔ ؎ کاش!دنیا کی بھی فطرت ہو مِری ماں جیسی.....جب مَیں بِن بات کے روٹھوں تو منانا آئے۔‘‘

ریحاب نے اس مدرز ڈے کو بہت خاص قرار دیتے ہوئےکہا کہ ’’ہم سب بہن بھائی پچھلے کئی سالوں سے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ماما کا ہر ایونٹ بڑے شان دار انداز سے سلیبریٹ کریں اور ان ساری سرپرائز پارٹیز کا کریڈٹ بابا کو جاتا ہے۔ وہ ہماری ہر ایکٹیویٹی میں بڑی خوش دلی سے کنٹری بیوٹ کرتے ہیں۔ ابھی جنوری میں ہم نے ماما کا برتھ ڈے بہت اسپیشل انداز سے منایا اور اب یہ مدرز ڈے بھی اسی طرح منانے کا پلان ہے۔ ہاں، مگر مَیں اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر ماں جی سے یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ پیاری امّی!آپ نانی ماں کی طرح اپنی ذات کو دوسروں سے پیچھے نہ رکھا کریں۔ آپ ہمارے لیے پہلے اور پوری دنیا بعد میں ہے اور یہ بھی کہ آپ کےسامنےہمارے لیے دنیا کی ہر خواہش، آسائش ہیچ ہے۔ آپ کا ہنسنا بولنا، خوش باش رہنا ہم سب کو بہت مطمئن و پُرسکون رکھتا ہے۔ آپ ہنستی ہیں، تو آپ کےساتھ ساری دنیا مُسکراتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ؎ تیرے دَم سے گھر ہے چاند کا ٹکڑا ماں۔‘‘

تاجورنے دو جملوں میں والدہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا، ’’مَیں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جب آپ اپنی ماں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں، تو آپ دنیا کی سب سے پوتّر و پاکیزہ محبّت کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں، اور مَیں اپنی بہت بہادر، ساری دنیا سے پیاری ماں کو جب دیکھتا ہوں، یہ محبّت کچھ اور جِلا پاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ؎ بھیڑ میں گم ہوئے بچّے کی طرح میرا دل…دیکھ لوں ماں کو تو آنکھوں میں چمک آتی ہے۔‘‘

اور..... ماں ہی کے پَرتو، بہت شرارتی، چُلبلے اور شوخ و چنچل سے علی آدم بن حارث اور یشفین بنتِ حارث نے بھی تھوڑا شرماتے، مُسکراتے ہوئے اپنی مَن موہنی سی ماما کو فلائنگ کِسز اور اسمائیلی کے خُوب صُورت سے ایموجیز کے ساتھ ’’ہیپی مدرز ڈے‘‘ کا پیغام دیا۔