• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوابزادہ شاہ زین بگٹی ایک بااصول اور دبنگ سیاستدان ہیں اور آج کل ان کے پاس انسدادِ منشیات کی وزارت کا قلمدان بھی ہے، یہ وہی وزارت ہے جس کا قلمدان گزشتہ دور حکومت میں شہریار آفریدی کے پاس تھا۔ اسی وزارت کے تحت انھوں نے عمران خان حکومت کے طاقت ور ناقد اور ن لیگ کے سینئر رہنما اور موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو ایک لائیو آپریشن کے ذریعے گرفتار کرایا اور ان کے خلاف 25 کلو گرام اعلیٰ معیار کی ہیروئن کی برآمدگی کا جھوٹامقدمہ بنایا۔ یہ ایک ایسا خطرناک الزام تھا کہ اگر ثابت ہوجاتا تو رانا ثناء اللہ کو سزائے موت یا عمر قید ہونا لازمی امر تھا اور اس وقت کے وزیر شہریار آفریدی نے پریس کانفرنسوں میں رانا ثناء اللہ کو منشیات کے عالمی گینگ کا رُکن ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ’میں نے جان اللہ کو دینی ہے ‘ جیسے جذباتی سلوگن بھی استعمال کیے تاکہ پاکستانی قوم یقین کرسکے کہ رانا ثناء اللہ واقعیمنشیات کے عالمی گینگ کے رکن ہیں، بہرحال میڈیا نے شورمچایا، رانا ثنا کی سی سی ٹی وی ویڈیو زسامنے آئیں، جس میں شہریار آفریدی اور اینٹی نارکوٹکس کے حکام کے قول و فعل میں کھلا تضاد سامنے آگیا،معاملہ عدالت میں گیا لیکن اس وقت تک رانا ثناء اللہ کے خلاف حکومتی سرپرستی میں ظلم کا پہاڑ توڑا گیا، ا ن کے ساتھ نہ صرف حوالات بلکہ جیل میں بھی انسانیت سوز سلوک کیا گیا، کیس آگے بڑھا، حقائق سامنے آئے تو رانا ثنا بے قصور ثابت ہوئے اور ریاست کو انھیں رہا کرنا پڑا، لیکن ریاستی طاقت کو سیاسی مخالفین پر استعمال کرنے کی اس سے بھونڈی مثال نہیں ہوسکتی تھی۔ جس جس نے سابقہ حکومت کی مخالفت کی، تنقید میں شدت پیدا کی، اس کے ساتھ یہی سلوک ہوا، جن جن سیاسی رہنمائوںکو سابقہ دور حکومت میں مختلف کیسوں میں پھنسا کر پابند سلاسل کیا گیا ان میں میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق سمیت بڑی تعداد میں ن لیگی رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ حکومتی نیت کو دیکھتے ہوئے بہت سے ن لیگی رہنمائوں کو جلاوطن ہو نا پڑا، صرف ن لیگ ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوںکیساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا اور حکومت نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، آغا سراج درانی، شرجیل میمن سمیت بڑی تعداد میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو گرفتار کیا، یہاں تک کے بلاول بھٹو کو بھی قانونی شکنجے میں لینے کی کوشش کی گئی تاہم اس میں حکومت ناکام رہی، جمعیت علمائے اسلام کے لیڈر مولانا فضل الرحمٰن کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تاہم حکومت اس میں بھی ناکام رہی، بہرحال عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ دنوں نوابزادہ شاہ زین بگٹی سے بات چیت کا موقع ملا ان سے سوال کیا کہ کیا آپ رانا ثنا کے خلاف سابقہ حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے ہیروئن برآمدگی کے مقدنے کی دوبارہ تفتیش کرائیں گے؟ تو ان کا جواب بڑا واضح تھا کہ ان کی حکومت کسی کے خلاف جھوٹے مقدمے قائم کرنے کی پالیسی نہیں رکھتی تاہم رانا ثنا کے خلاف کیس کی دوبارہ تحقیقات کی جائیں گی اور اس میں سابقہ حکومت کی کوئی بدنیتی ثابت ہوئی تو پھر شہریار آفریدی کو بھی تحقیقات میں شامل کیا جاسکتا ہے تاکہ ایک سیاسی مخالف کو منشیات جیسے مقدمے میںپھنسا کر اس کی زندگی تباہ کرنے کی ساز ش کو سامنے لایا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ سابقہ دورمیں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ترجمانوں کی ایک فوج تیار کررکھی تھی جن پر ان کے سچے اور جھوٹے بیانیے کو پھیلانے اور رائے عامہ کو عمران خان کے حق میں ہموار کرنے کی ذمہ داری تھی، لیکن ایسے گھنائونے کھیل اب ختم ہونے چاہئیں ، جھوٹے الزامات لگانے والوں کے لیے بھی سزا مختص ہونی چاہیے تاکہ کسی کی زندگی تباہ ہونے سے بچ سکے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت جو پاکستان کی تمام بڑی پارٹیوں کے اتحاد پر مشتمل ہے، اپنے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر سیاست نہیں کرے گی تاہم ماضی میں جھوٹے الزامات لگانے والوں کو معاف بھی نہیںکرے گی، کم از کم اتنا تو عوام کو بتائیں کہ رانا ثناء اللہ سے برآمد ہونے والی ہیروئن آئی کہاں سے تھی اور اب گئی کہاں؟

تازہ ترین