بُلند فشارِ خون جسے طبّی اصطلاح میں’’ہائپر ٹینشن‘‘ کہتے ہیں، ایک خطرناک مُوذی مرض ہے کہ اس کی وجہ سے دُنیا بَھر میں ہر سال فالج، دِل کی تکالیف، شریانوں اور گُردوں کے عوارض میں مبتلا لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن جاتےہیں۔ اگر ہائی بلڈپریشر کے ساتھ ذیابطیس کا مرض بھی لاحق ہو تو پیچیدگیاں مزید بڑھ سکتی ہیں، اسی لیے مریضوں کا علاج ترجیحی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں45 سال سے زائد عُمر کے ہر تین افراد میں سے ایک فرد ہائی بلڈپریشر کا شکار ہے۔
نیز، عام افراد کی نسبت بُلند فشارِ خون کے مریضوں میں فالج کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، جب کہ گُردے فیل ہونے کی دوسری بڑی وجہ بھی یہی مرض ہےنیز، ذیابطیس کے تقریباً 80 فی صد مریض ہائی بلڈپریشر کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح کم اور درمیانی آمدنی والے مُمالک میں بُلند ہے۔ اگر ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کابروقت علاج ہو جائے، تو شرحِ اموات میں کمی لائی جا سکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر مریضوں میں مرض کی علامت ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔
جب کسی وجہ سے بلڈپریشرکی اسریننگ کی جائے،تب ہی مرض تشخیص ہوپاتا ہے۔ حالاں کہ بیش تر مریض سَر درد، گردن اور کندھوں میں کھنچائو کی (خاص طور پر صُبح کے اوقات) شکایت کرتے ہیں۔ بعض اوقات چکر، گھبراہٹ، کانوں میں سائیں سائیں کی آوازوں، بینائی میں تبدیلی یا کمی، نیم بے ہوشی کی کیفیت جیسی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں، لیکن انہیں اینزائٹی اور ڈیپریشن سمجھ کے نظر انداز کردیا جاتا ہے، لہٰذا علاج کے لیے ہائی بلڈپریشر اور اینزائٹی /ڈیپریشن میں تفریق ضروری ہے۔ آنکھوں کامعائنہ ہائی بلڈپریشر کی تشخیص میں خاصا مدد گار ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ آپتھالمو اسکوپی (Ophthalmo Scopy) کے ذریعے آنکھ کے پردے کی مخصوص بیماری Retinopathy کی تشخیص ممکن ہے ،تو ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ مریض کتنے عرصے سے ہائی بلڈپریشر کا شکار ہے۔
بلڈپریشر کنٹرول کرنے کا اصل مقصدEnd Organ Damage ہے۔ یعنی جسم کے قیمتی اعضاء بچانا اور دِل کی تکایف کے خطرات کو کم سے کم کرنا ہے،جس کے لیے چند بنیادی تدابیر اپنائی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ ہائی بلڈپریشر کے ہر مریض کے لیے طرزِ زندگی میں تبدیلی ناگزیر ہے، تاکہ ادویہ کی ڈوز میں کمی لائی جاسکے۔ پھر اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ جسمانی سرگرمیوں کا دِل کی تکالیف سے تحفّظ میں بھی ایک اہم کردار ہے۔ روزانہ ورزش کے ذریعے سسٹولک بلڈپریشر میں 4 ملی میٹر مرکری اور ڈائی سٹولک بلڈ پریشر میں اوسطاً2.5ملی میٹر مرکری کمی لائی جاسکتی ہے۔
تمباکو نوشی سے اجتناب نہ صرف خون کا دباؤکم کرتا ہے، بلکہ کئی ممکنہ پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یاد رہے، تمباکو نوش افراد میں(تمباکو نوشی نہ کروانے والوں کی نسبت) دِل کے دورےMyocardial Infarctionکا خطرہ دو سے چھے گنا زائد اور فالج کا خطرہ تین گنا زائدپایا جاتا ہے۔ اسی طرح وزن میں کمی کے بھی مرض پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر زائد وزن کے حامل افراد چار سے پانچ کلو وزن کم کرلیں، تو ان کا مرض کنٹرول میں رہتا ہے، بلکہ کئی کیسز میں مرض سے چھٹکارے کے بھی شواہد ملے ہیں۔
وزن میں10کلو گرام کمی سے 6سے 10ملٹی میٹرمرکریسسٹولک بلڈپریشر کم ہوتاہے۔ اس کے علاوہ بلڈپریشر کنٹرول میں رکھنے کے لیے ڈیش ڈائیٹ (Dietary Approaches to Stop Hypertension) طریقے پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے، جس میں پھلوں اور سبزیوں کا زائد استعمال ہوتا ہے، توچکنائی سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ (مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور حیدرآباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں)