• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گندم کی کٹائی کے سیزن میں کھیتوں میں باقیات کو آگ لگانا تو عام بات ہے لیکن عید کے ایام میں دوایسے واقعات ہوئے جن کی بظاہر اتنی بھی اہمیت نہیں کہ اخبارات میں نمایاں طور پر شائع کئے جاسکیں لیکن قارئین کی آگاہی کی خاطر تذکرہ کئے دیتے ہیں کہ جھوٹی شہرت کے رسیا کچھ پاگل نما حرکتیں کرنے والے ٹولے (ٹک ٹاکرز) نے اپنے میک اپ زدہ بھیانک چہرے کو چاند بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی اور انفرادی شہرت کی خاطر مانسہرہ کے جنگل میں آگ لگا دی۔ آناً فاناً لاکھوں روپے مالیت کے درخت جل کر راکھ ہوگئے۔ فضاآلودہ ہوئی، بڑھی اوراِردگرد کا ماحول خراب ہوا۔اس کھیل میں دم گھٹنے سے درختوں پر چہچہاتے پرندے بھی موت کے منہ میں چلے گئے۔ خوشی کے انہی ایام میں مری کے جنگلات میں بھی آگ لگنے کی خبر سامنے آئی۔ وجوہات کا ابھی تک کہیں ذکر دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا ممکنہ طور پر ایسی ہی کوئی حرکت مری میں بھی کی گئی ہوگی۔ کسی نے تو اس جنگل کو ماچس کی تیلی دکھائی کہ یہ تباہی آئی۔ یہ ہماری معاشرتی غفلت کا ایک ایسا خوفناک چہرہ ہے جو کسی نہ کسی شکل میں ہمیں انسان سے درندہ بنا دیتا ہے۔ وقتی شہرت کی خاطر ہم کہیں بھی آگ لگانے سے باز نہیں آتے۔ ہمارا یہ جنونی رویہ من حیث الہجوم ہمیں سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر نظر آنے لگا ہے اور جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا ہی جارہا ہے۔ نوجوان نسل تفریح کے نام پر ایک ایسے پاگل پن کا شکار ہو رہی ہے جس کا تدارک مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ اب تو چاند رات جیسی خوشی کی راتیں بھی اس رویے کی زد میں آچکی ہیںکہ قوم یوتھ کے چند سو منچلوں نے اپنے لیڈر کی ایک کال پر رات سڑکوں پر اپنے تین رنگے جھنڈے لہراتے گزار دی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خان تمام مخالف قوتوں کے خلاف اب بھی ڈٹ کر کھڑا ہے اور ان قوتوں کو زیر کرنے کی خاطر وہ اسی ماہ اسلام آباد لانگ مارچ، دھرنا دینے کو تیار ہے۔ جلسے، جلوس، احتجاجی ریلیاں، لانگ مارچ اور دھرنے سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہیں اور یہی جمہوریت کا اصل حسن بھی کہ تمام سیاسی جماعتیں آزادانہ اپنی سوچ، نظریئے اور مقصد کی خاطر پُرامن سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں اور عوام ان جماعتوں کے ساتھ جڑے رہیں۔ آج پاکستانی سیاست میں خان سے زیادہ کوئی سیاست دان اس فن میں ماہر نہیں البتہ بڑے مولانا صاحب ہی وہ واحد مذہبی سیاسی قوت ہیں جنہیںتمام سیاسی اور مقتدر حلقے ہمیشہ خان کا توڑ سمجھتے ہیں ماضی قریب میں ہم سب نے دیکھا کہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ خان کا دور دور تک کوئی متبادل نہیں، اگر ہے تو سامنے لائیں۔ یہی وہ تکبر تھا جو یوتھیوں کو زمین پر آنے نہیں اور خان کو سمجھانے نہیں دیتا تھا۔ اسی تکبر اور سوچ نے آج خان کو یہ دن دکھائے کہ ایوان اقتدار سے پھر سڑکوں پرآ گئے۔ سوال یہ ہے کہ جس سوچ کے ساتھ خان آگے بڑھ رہا ہے اور جس سازشی تھیوری کے نام پر وہ اگلے عام انتخابات کے جلد انعقاد کا مطالبہ کررہا ہے اور جس انداز میں وہ ان مطالبات کو منوانے کے لئے حقیقی آزادی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتا ہے کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا یا نہیں؟ تو میرا جٹکا سا جواب ہے ابسلوٹلی ناٹ۔ دلیل یہ ہے کہ اگر خان کے مطالبے یا تحریک کے دباؤ میں آکر اس کے سامنے گھٹنے ہی ٹیکنے ہیں تو انہیں نیوٹرل رہنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ خاموشی سے خان کو بچا سکتے تھے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا نہیں ہوا۔ خان جن مطالبات کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینا چاہتا ہے یہ کام تو وہ صرف اقتدار میں رہ کر ہی کرسکتا تھا کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کرتا، چیف الیکشن کمشنر بھی اسی کے زیر اثر ہوتا، عدلیہ بھی اس کے دباؤ کے تحت من پسند فیصلے کرتی، وہ اپنی مرضی سے نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے مخالفین کو آسانی سے جیلوں میں بند کروا سکتا تھا اورمرزا یار بن کر 2028 ءتک اقتدارپر چھایا رہتا۔ اب خان جتنا مرضی زور لگا لے،لانگ مارچ کرے،دھرنے دے، پُورا پاکستان جام کردے وہ کبھی نہیں ہوگا جو خان چاہتا ہے۔ خان کو اپنے دورِ اقتدار میں یہی ایک غلط فہمی تھی کہ اس نے ساڑھے تین سال میں اپنے تمام مخالفین کو نیب، ایف آئی اے، گالم گلوچ بریگیڈ کے ذریعے بُری طرح کچل کر رکھ دیا ہے یا سوشل میڈیا پر انہیں اتنا بدنام کردیا ہے کہ وہ کسی کا سامنا نہ کرسکیں۔ وہ اسی غلط فہمی کا شکار رہا کہ اب کوئی مقتدر ادارہ اپوزیشن جماعتوں خصوصا ً (ن) لیگ کا تو بالکل بھی ساتھ نہیں دے گا۔ یہی ذہنی خلل خان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا اور اِسی خلل کانتیجہ یہ نکلا کہ وہ انہیں بھی گھورنے لگا جو اسے اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھا رہے تھے۔ آپ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ جب کوئی اپنے ہی گھر والوں کو آنکھیں دکھانے لگے تو ایک دن اسے گھر سے نکالنا ہی پڑتا ہے۔ اس قصے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ صرف پیٹ بھر کر اچھا کھانا، پینا، دوڑنا، جان بنانا اور طاقت کے نشے میں خراٹے لے کر سو جانا ہی اقتدار کی طاقت نہیں ہوتی۔ کچھ وفاداری، چوکیداری، راز داری، رت جگا اور کبھی کبھی کان کھڑے کرکے مخالفین پر غرانا اور گھر آئے مہمان پر حملہ آور نہ ہونا ہی اچھی تربیت کا اثر ظاہر کرتا ہے۔ اب رونے پیٹنے سے گھر کا، بقول شیخ رشید گیٹ نمبر4 کھلنے والا نہیں کیونکہ اس کے پیچھے کچھ اہم وجوہات ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین