• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کی قیادت جو ملک کی پون صدی پر محیط تاریخ میں تقریباً 33برس براہِ راست حکومت کر چکی ہے اور باقی مدت میں بننے والی سول حکومتیں بھی اس کے غیرمرئی اثر سے باہر نہیں رہ سکیں، اس وقت آئینی تقاضوں کے مطابق ملک کے سیاسی معاملات سے اپنا فاصلہ برقرار رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بطور ادارہ فوج کی جانب سے اس مؤقف کا بار بار اظہار کیا جارہا ہے کہ سیاست کرنا سیاستدانوں کا کام ہے اور فوج اس معاملے میں مداخلت کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے مبینہ دھمکی آمیز خط کے حوالے سے فوج کو سیاست کا حصہ بنانے کی کوشش، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور نئے سربراہ کی تقرری پر تبصرے، آئی ایس آئی قیادت کو جو فوج کا انتہائی حساس عہدہ ہے، سیاسی تبصروں کا حصہ بنانا نیز نئے انتخابات کے حوالے سے فوج کی طرف دیکھنا یا اشارہ دینا، ایسے معاملات ہیں جن سے دور رہنے کا فوج بار بار اظہار کر رہی ہے۔ جمعرات کے روز پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان اور میڈیا سے بات چیت میں اک بار پھر فوج کے سیاست سے دور رہنے کے عزم کا اعادہ سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کور کمانڈر پشاور کے حوالے سے بعض اہم سینئر سیاستدانوں کے بیانات کو انتہائی نامناسب قرار دیا ہے۔ ترجمان پاک فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پشاور کور کمانڈر پاک فوج کی ایک ممتاز فارمیشن ہے جودو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے اور اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پیشہ ورانہ ہاتھوں کو سونپی گئی ہے۔ افواج پاکستان کے بہادر سپاہی اور افسر ہمہ وقت وطن کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کررہے ہیں۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم کافی عرصے سے بطور ادارہ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے اور اسے سیاسی گفتگو کا حصہ نہ بنایا جائے۔ ہمارے ملکی سلامتی کے چیلنج بہت زیادہ ہیں، ہماری افواج مشرقی، مغربی اور شمالی سرحدوں اور اندرونی سیکورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں اور تمام تر فوجی قیادت کی توجہ ان ذمے داریوں اور اپنے ملک کی حفاظت پر ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی مسلح افواج سے محبت کرتے ہیں، مسلح افواج کا کردار عوام کے لیے ہمیشہ اچھا رہے گا، ان کے درمیان کبھی دراڑ نہیں آسکتی۔ ترجمان پاک فوج کا یہ موقف بلاشبہ قومی تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ فوج ملکی سیاست میں شامل نہیں ہو سکتی، اگر ملک کی حفاظت میں کوئی کوتاہی ہو جائے توناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی یہ بات واقعاتی حقائق سے پوری طرح ہم آہنگ ہے کہ پاک فوج کو گزشتہ کم و بیش چھ ماہ سے بعض حلقوں کی جانب سے دانستہ یا غیردانستہ طور پر سیاسی بے چینی کا حصہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، خصوصاً حالیہ دنوں میں کچھ ایسے تبصرے سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے فوج ہی نہیں کسی بھی ادارے یا عہدیدار کا اپنی ذمہ داریوں سے وقت نکال کر بلا تاخیر وضاحت کا پابند ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سماج دشمن اور انتشار پسند عناصر بیرون ملک بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے حساس قومی اداروں کے بارے میں گمراہ کن پوسٹیں بھیج کر ملک میں بدامنی کو ہوا دینے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں جن کے پیچھے ازلی دشمن بھارت کے ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں جنھیں بنیاد بناکر سماج دشمن عناصر ملک میں انتشارپیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت اور عسکری ادارے تو اگرچہ ایک پیج پر ہیں تاہم صورت حال پر قابو پانے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے بے چینی پیدا کرنے والے عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنا ضروری ہے۔

تازہ ترین