میری بچپن سے ایک بری عادت ہے کہ میں لوگوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہوں اور جو شخص مجھے متاثرکرے، اسے کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس عادت کی وجہ سے دوستوں اور گھر والوں کی طرف سے مجھے’’پرائی مَت‘‘ اور ’’لائی لگ‘‘ جیسے القابات اکثر سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ کاپی کرنے سے یاد آیا، کئی دہائیاں قبل میٹرک کے سالانہ امتحانات کے ایک پرچے میں جب ایک دوست نے مجھے ’’بوٹی‘‘ دی تو میری ذہنی استعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے اس نے اس پر ’’یہاں سے شروع‘‘ اور ’’یہاں پر ختم‘‘ لکھ دیا۔ میں نے بھی ہو بہو کاپی کر کے لکھ دیا۔ پرچے کے نتیجے کے بارے میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔عادتیں چونکہ زندگی بھرساتھ چلتی ہیں اسی لیے میری حالت آج بھی جوں کی توں ہے۔
خیر میری اس نئی واردات کا محرک گزشتہ مہینے کا ایک تجربہ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن مجھے ایک بڑے افسر کی کھلی کچہری میں ایک عرضی کے لیے پیش ہونا تھا اور ایک دوست کو اپنے چیک اپ کے لیے ایک سرکاری اسپتال میں لے جانا تھا۔ دونوں کام اکٹھے بھگتانے کا فیصلہ ہوا۔ صبح صبح اسپتال پہنچے تو ایک بزرگ خاتون ڈاکٹر کے پاس بیٹھی تھیں۔ ڈاکٹرنے خاتون سے مسئلہ پوچھا۔ خاتون کہنے لگی ڈاکٹر صاحب یہ تب کی بات ہے جب نیفا (حنیفا) پیٹ میں تھااور گندم کی کٹائی۔ڈاکٹر نے اسے ٹوکا اور کہا اماں حنیفا پیٹ سے باہر آکر جوان ہو چکا اور گندم کی کئی کٹائیاں گزر چکیں۔ یہ بتائو مسئلہ کیا ہے؟ بزرگ خاتون تھوڑا پریشان ہوئیں مگر پھر لمبی تمہید باندھنے کی کوشش کی۔ اس پر ڈاکٹر نے قدرے سختی سے کہا ’’نو نان سنس‘‘، مسئلہ بتائو۔ خیر بڑی مشکل سے خاتون اپنے مسئلے پر آئی۔اسپتال سے فارغ ہو کر ہم دونوں ضلعی افسر کی کھلی کچہری میں آگئے۔ افسر کے آنے سے پہلے ان کے اسٹاف نے ہماری درخواست وصول کی۔اسٹاف نے کہاصاحب ’’نو نان سنس‘‘ آدمی ہیں لہٰذا غیر ضروری طویل بات نہیں کرنی۔ہم نے ویسا ہی کیا۔ واپسی پر میں نے دوست سے پوچھا کہ یہ ’’نو نان سنس‘‘ کا کیا مطلب ہے؟کہنے لگے اس کا مطلب ہے کوئی فضول اور غیر ضروری بات نہیں کرنی۔ فضول اورغیر ضروری بات سننے سے بچنے کا یہ طریقہ مجھے بہت اچھا لگا۔ اور میں نے فیصلہ کیا کہ کل سے میں بھی ’’نو نان سنس‘‘ آدمی بن جائوں گا۔
اگلے دن صبح سات بجے جب میں دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھاکہ گائوں سے ایک رشتہ دار کا فون آگیا۔ پہلے تو خیر خیریت کا ایک لمبا سلسلہ چلا۔ گفتگو مختصر کرنے کے لیے پوچھا کہ بتائیں کیسے یاد کیا؟ کہنے لگا پولیس میں کوئی جاننے والا ہے؟ میں نے کہا ایک تھانیدار ہے، اگر کوئی زیادہ پریشانی ہے تو میں اسے کہہ سکتاہوں۔ کہنے لگاسالا’’کُٹوانا‘‘ ہے۔ میں نے کہا کیا مطلب ؟ کہنے لگا مطلب یہ کہ سالے کو جوتے پڑوانے ہیں۔ میں نے کہا ’’نو نان سنس‘‘۔اس پر اس نے اپنے کچھ پرانے احسانات یاد کرا کے فون بند کر دیا۔ میں تیار ہو کر دفتر پہنچا۔ ابھی دفتر پہنچا ہی تھا کہ بھائی کا فون آگیا۔ کہنے لگے اگر کسٹم میں کوئی جاننے والا ہے تو ایک نان کسٹم پیڈ گاڑی کلیئر کروانی تھی۔ دل ہی دل میں ’’نو نان سنس‘‘ کہا اور خداحافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
شام کو گھر واپس آیاتو گائوں سے ایک حاجی صاحب آئے ہوئے تھے۔ حاجی صاحب کی اپنی حیثیت کے مطابق خاطر خدمت کی۔ اتفاق سے پچھلے دنوں بچوں کی فرمائش پر ہم نے ایک بکری خریدی تھی۔ حاجی صاحب چونکہ مویشی پال آدمی تھے اس لیے بکری کو دیکھ کر پوچھا کہ کتنے میں خریدی ؟ہم نے قیمت بتائی۔ پھر پوچھا کب خریدی؟ ہم نے بتایا پچھلے مہینے۔ پھر کنہے لگے دودھ کے لیے خریدی ہے یا منافع کمانے کے لیے ؟جب بکر ی کے بارے میں ایک درجن سے زیادہ سوال ہو گئے تو ہم نے کہاحاجی صاحب’’نو نان سنس‘‘۔ اس پر حاجی صاحب کہنے لگے ایک بکری ہی کا تو پوچھا تھا اس پر اتنا غصہ، خفا ہوکر گھر سے چلے گئے۔ خیر ہم بھی پرواکیے بغیر اپنے کمرے میں آگئے۔ بیوی سے معمول کی گفتگو جاری تھی کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعداپنے گھر سے متعلق گفتگو شروع کر دی۔ کتنے بیڈ رومز ہوں گے؟ ایک کنال پر ہو گا یا دس مرلے پر؟ ہم نے بادل نخواستہ سب سوالوںکے جواب دیے۔ آخر میں کہنے لگی کہ ماسٹر بیڈ روم کی کھڑکی جنوب کی طرف ہو گی۔ میں نے تنگ آکر کہا حمیدہ بیگم، اتنے سال پڑے ہیں جب گھر بنے گا تو دیکھ لیں گے۔ مگر وہ آج ہی فیصلہ کرنے کے لیے بضدتھی۔ تنگ آکر کہا ’’نو نان سنس‘‘۔ ناراض ہو کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ بعد جب میں سونے ہی لگا تھاکہ ساس صاحبہ کا فون آگیا۔ فرماتی ہیں حمیدہ کو کیا کہاکہ پچھلے ایک گھنٹے سے روئے ہی جا رہی ہے ؟اور پھر گائوں سے حاجی صاحب، تمہارے بھائی اور چچازاد نے بھی بتایا کہ تم بہت بے دید ہو گئے ہو۔ سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے کسی سے۔ آخر میں پوچھا، یہ’’نونان سنس‘‘ کیاہے۔ یہ سن کر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ سوتے ہوئے بھی کانوں میں ـ’’نو نان سنس‘‘کی آوازیں گونجتی رہیں اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔ اگلی صبح سے پرانی روٹین بحال کرنے کافیصلہ کیاتو تب کہیں رات کے پچھلے پہر جا کے آنکھ لگی۔