• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ عالمی سطح کی غیرسرکاری تنظیمیں سائنس دان اور ماہرین کے گزشتہ جائزوں اور رپورٹوں کے مطابق دنیا اس دور میں جن گھمبیر مسائل سے دوچار ہے ان میں سب سے زیادہ اہم اور خاص مسائل میں غربت پسماندگی، آبادی میں تیزی سے اضافہ، خوراک کی کمی، صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان، کرپشن، آلودگی، بیروزگاری اور مہلک ہتھیاروں کا تیزی سے اضافہ ہے۔

ماہرین بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ زمین اور سمندر کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ قطبین کی برف پگھلتی جا رہی ہے سمندر میں بڑے بڑے برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے سمندروں کی سطح میں بھی بتدریج اضافہ عمل میں آرہا ہے۔ گلوبل وارمنگ انسانیت کے لئے ایک مسلسل خطرہ ہے علاوہ ازیں گلوبل کوسنگ نے بھی بیش تر علاقوں میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔ برفانی طوفان، ہری کین اور فصلوں کی تباہی ایک معمول بن چکا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک خلاء میں کرئہ ارض جیسے سادہ اور خلائی مخلوق کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کائنات کی بے کراں وسعتوں میں دو ایک سیاروں پر کبھی پانی رہا تھا جو دریافت ہوا ہے مگر یہ سیارے زمین سے کروڑوں کے فاصلے پر ہیں۔ اوپر زمین پراکثر ممالک کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جاری حالات میں بیش تر افریقی ممالک خوراک کی کمی، صاف پینے کے پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ 

 ایسے میں بھوک غربت پسماندگی،جدید مہلک ہتھیار، تعلیم کی کمی اور کرۂ ارض کے قدرتی ما حول پر کون توجہ دے گا؟

اکثر افریقی باشندے جنگلوں میں جوہڑوں، نالوں اور پرانے تالابوں سے پانی بھرنے پرمجبور ہیں جبکہ یہ پانی آلودہ اور پینے کے قابل ہرگز نہیں ہے جس سے پیٹ کی طرح طرح کی بیماری عام ہو رہی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ایک جائزے کے مطابق افریقہ ، صحاراملکوں میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں میں ستر فیصد اضافہ ہوا ہے بیش تر پیدائش سے قبل ہی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

شمالی افریقی عرب ممالک سمیت مشرق وسطیٰ میں پانی کی قلت بڑھ رہی ہے۔ کوہ ہمالیہ کے جنوب مغربی خطوں میں برف پگھل رہی ہے۔ چھ ماہ دریاوں میں پانی آتا ہے اور چھ ماہ پانی بہت کم رہ جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے ڈیلیٹا کے علاقوں میں سمندر کا پانی دریا میں داخل ہو جاتا ہے۔ بیش تر خطے خشک سالی کا شکار ہو جاتے ہیں جہاں فصلوں کے لئے پانی میسر نہیں آتا بارشیں بھی نہیں ہوتی ہیں جبکہ بعض خطوں میں موسلادھار بارشیں سیلابوں کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اس طرح دو جانب موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کروڑوں عوام کو حسب ضرورت خوراک میسر نہیں ہے۔ جبکہ پینے کے صاف پانی کا بھی فقدان ہے۔ براعظم افریقہ، مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ اور بعض ایشیائی ممالک مذکورہ مسائل سے نبردآزما ہیں۔

سونے پرسہاگہ کہ یوکرین اور روس جنگ کی زد میں ہیں جبکہ روس اور یوکرین شمالی افریقی ممالک، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو گندم کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے۔ عالمی منڈی میں گندم سمیت دیگر اجناس کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح دنیا کے بیش خطوں میں اناج کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔ روس یوکرین جنگ نے نت نئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں جبکہ گزشتہ ڈھائی تین برسوں میں کووڈ۔19نے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ ایسے میں غریب ملکوں کو کووڈ کا مقابلہ کرنے کے ذرائع میسر نہیں ہر چند کہ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی صحت سمیت چند ممالک نے ویکسین فراہم کرنے کا بندوبست بھی کیا مگر افریقہ، لاطینی امریکہ میں یہ مسئلہ تاحال ایک معرکہ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال معروف امیر ترین شخصیت بل گیٹس نے دنیا کو خبردار کردیا تھا کہ کووڈ۔19نہ پہلی وبائی بیماری ہے نہ آخری ہے۔ مزید مہلک وبائی امراض دنیا پر حملے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ مزید مہلک وبائی امراض دنیا پر حملے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بل گیٹس نے پاکستان کا ایک روزہ دورہ بھی کیا تھا جس میں انہوں نے متعلقہ شخصیات اور اداروں کوخبردار کیا تھاکہ دنیا وبائی امراض کی زد میں ہے۔

سائنس دانوں اور ماہرین کاکہنا ہے کہ جس تیزی سے دنیا میں آلودگی میں اضافہ عمل میں آرہا ہے اس طرح وبائی امراض کے پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ درحقیقت کرئہ ارض کی سلامتی اور انسانیت کی بقاء کیلئے انسانوں کو جن معاملات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ انسانوں کی دسترس سے دور ہو چکے ہیں۔ ہر چند کہ ان پر گرفت کرنا ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان ڈیڑھ دو صوبوں سے جن آسائشات، پرتکلف لائف اسٹائل اور چمکتی دمکتی رنگینیوں کا عادی اورگرویدہ ہو چکا ہے اس سے چھٹکارہ پانا بہت مشکل ہے بلکہ اس میں دن بدن مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

دنیا میں کاروں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ برقی آلات کی پیداوار میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ بجلی کا استعمال بہت زیادہ عام ہے اور اسی کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ بجلی کی تیاری میں قدرتی کوئلہ، تیل اور گیس کا استعمال ہو رہا ہے جو آلودگی میں اضافہ کا بڑا سبب ہیں۔

چین نے گزشتہ ربیع صدی میں قدرتی کوئلہ کے ذخیروں کا بڑا حصہ استعمال کرلیا اب مزید کوئلہ دریافت کرنے کیلئے کھدائیاں جاری ہیں جبکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال امریکہ کے دورے کے موقع پر دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ بھارت بجلی کی پیداوار میں قدرتی کوئلہ کا استعمال جاری رکھے گا۔ یہ ہماری ترقی اور پیداوار کے لئے اشد ضروری ہے۔ امریکی ماہرین نے چپ سادھ لی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں آلودگی پھیلانے والے ممالک میں سرفہرست امریکہ، دوسرا چین، تیسرا بھارت اور چوتھا ملک برازیل ہے جہاں قدرتی کوئلہ ، تیل اور قدرتی گیس کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح دنیا میں خوراک کی کمی کا مسئلہ ہے۔

دنیا میں جب سے اجارہ دار سرمایہ داروں اور کارٹیل سسٹم کا فروغ ہوا ہے۔ منافع کا لالچ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ دنیا کے 75فیصد ارب پتی خاندان امریکہ میں آباد ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں کپاس، گندم جو اور دیگر اجناس وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ فاضل گندم اور دیگر اجناس کی زائد پیداوار کو آگ لگا کر جلا دیا جاتا ہے تاکہ اجناس کی مقررہ قیمتوں میں استحکام رہے اجارہ داروں کے منافع میں کمی نہ ہو ،جبکہ روس نے بھارت کو قدرتی گیس تیل کے سودے میں پچیس فیصد کی چھوٹ دی ہے۔ 

اگر روس پر پابندیاں عائد نہ ہوں تو وہ دنیا کو کم قیمت پر گندم فراہم کر سکتا ہے اور دنیا میں خوراک کی کمی کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے مگراجارہ دار سرمایہ داری نظام نے سب کچھ چوپٹ کر رکھا ہے۔ ایک نظردنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی پر بھی توجہ دیں جو ستاون ممالک میں آباد ہیں اور اسلامی ممالک کی تنظیم کے رکن ہیں۔ مختلف کمیٹیاں قائم ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک ہے۔ وسیع تر جنرل سیکرٹریٹ ہے۔ اس تنظیم میں جو 1969ء میں قائم ہوئی تھی تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں ہے۔ گزری نصف صدی سے زائد عرصے میں اس وسیع تنظیم نے کوئی ایسا اہم منصوبہ نہیں بنایا جس سے کم از کم اسلامی دنیا اور امیر ترین طبقے کو ہی فائدہ ہوتا۔ 

معذرت کے ساتھ بلڈنگیں، چمکی نئی کاروں کی بہتات، لگژری ولاز کے لان میں کھڑے چھوٹے طیارے یا پکنک لانچیں ترقی نہیں ہے بلکہ یہ ترقی معکوس ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ فلاں شہر کو دیکھو کتنی ترقی کرلی، مگراسی شہر کی روشنیاں جب تک روشن رہیں گی جب تک تیل کی دولت حاصل ہوتی رہے گی۔

شمالی جنوبی ایشیا میں افغانستان تاحال ایک سنگین مسئلہ ہے۔ طالبان نے اقتدار سنبھال لیا مگر امور مملکت کو چلانا، سنبھالنا اور بات ہے اس کا طالبان کو قطعی کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ افغانستان کے حالات سدھارنے اور لوگوں کو خوراک مہیا کرنے کے لئے چار ارب ڈالر کی امدا د درکار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کی باربار اپیل کے باوجود عالمی برادری طالبان کو امداد فراہم کرنے سے ہچکچارہی ہے۔ بیشتر رہنمائوں کو طالبان سے اب بھی یہ شکوہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں یہ ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی خوراک کے ادارے نے افریقی سب صحارا ممالک کے حوالے سے رپورٹ ترتیب دی ہے ایسا ہی کچھ افغانستان کے بارے میں کہاجاتا رہا ہے کہ وہاں خوراک کی شدید قلت کی وجہ سے کوئی بڑا انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ مگر بیشتر بڑے ممالک افغانستان کے مسئلے سے تذبذب کا شکار معلوم ہوتے ہیں۔

ایک بڑی پرانی کہاوت ہے کہ انقلاب سب سے پہلے اپنے بچوں کو نگل جاتاہے۔ اگر جدید تاریخ پر نظرڈالیں تو انقلاب فرانس سے لے کر انقلاب چین، ایران، افغانستان میں ایسا ہی مشاہدہ کیا ہے۔ روس میں اسٹالن نے بالشکویک نوجوانوں کو اپنے راستے سے کس طرح ہٹایا سب پرعیاں ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی انسانی قرون وسطیٰ کے دور میں رہنے پر مجبور ہو تو پھراس ترقی اور جدید دنیا کاکیا فائدہ۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان میں اپنی آخری تقریر میں کہا تھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت مسلمانوں کو جدید تعلیم، تحقیق اور ٹیکنالوجی سے دورکیا جا رہا ہے آج ان امور پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

نوم چومسکی جیسا ماہر لسانیات دانشور امریکی اجارہ داروں کے نظام پر کھلم کھلا تنقید کرتا رہا۔ چومسکی کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ کے ستر کے قریب بڑے خاندان دنیا کی چھیاسٹھ فیصد دولت پر قابض ہیں اور دنیا میں غربت، پسماندگی، بھوک اور ناانصافی کے ذمہ دار ہیں۔

انسان دوست سائنس دانوں اور ماہرین کاکہنا ہے کہ کم از کم آج کی دنیا سے بھوک تو مٹائی جاسکتی ہے اور دنیا کے غریب پسماندہ معاشروں کو دو وقت کی روٹی مہیا کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں ایک جدید لڑاکا طیارہ،ایک جدید ٹینک، جدید میزائل و دیگر ہتھیاروں کی تیاری میں بیشتر ترقی یافتہ ممالک اربوں کھربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں اگر اس تمام رقم کا محض پندرہ فیصد دنیا کے غریب اور پسماندہ طبقات کی فلاح پر خرچ کیا جائے تو دنیا سے غربت، بھوک ، پسماندگی اور مایوسی دور ہوسکتی ہے مگر اپنے نام ونمود کے لئے پیپر تنظیمیں کھڑی کی ہیں جن کا مقصد محض شہرت، فنکشن اور ٹی وی انٹرویو کے سوا کچھ نہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ، اجارہ دار سرمایہ داروں اور بااثر رہنمائوں اس چھوٹی سی دنیا کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوئی نمایاں منصوبہ بندی نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے عالمی خوراک کے ادارہ کے حالیہ جائزہ میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے طور سے ہر سال 4ملین ٹن خوراک ایک سو ملین غریب باشندوں میں تقسیم کرتی ہے۔ مگر نائجر، سینٹرل افریقی ریاست ، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان، یمن اور افغانستان میں صورتحال نازک ہے کم خوراک کی وجہ سے ان ملکوں کے معاشروں میں طرح طرح کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر بچوں کی اموات میں تیزی سے اضافہ عمل میں آرہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت نے ادارہ عالمی خوراک سے رابطہ کیا ہے کہ اس کے پاس جو وافر گندم ہے وہ غریب ممالک میں تقسیم کردی جائے۔ 

یہ کام احسن طور پر امریکہ سرانجام دے سکتا ہے کہ مگر امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں گندم پراپنا کنٹرول رکھنے والے نجی ادارے ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ یہ ادارے گندم جلادیں گے۔ مگر غریب ممالک کو تقسیم نہیں کریں گے۔ میکسیکو میں گندم سمیت دیگر اجناس وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے مگر یہاں بھی اجارہ داروں نے خوراک پراپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ دوسری جانب مشرق بعید میں چاول کی پیداوار ہوتی ہے ان میں چین، بھارت کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا، ویت نام، میانمار، لائوس، کمبوڈیا وغیرہ نمایاں ہیں ان ممالک میں چاول اوپن مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے کسی کسی ملک میں سبسڈی دی جاتی ہے۔ 

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی اوپن مارکیٹ میں سودا کرتے ہیں۔ مشرقی بعید کے خطوں میں آسٹریلیا گندم چاول، کھانے کے تیل کا بڑا سودا گر ہے۔ بلکہ ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں بھی آسٹریلیا کا گندم چاول وغیرہ فروخت ہوتا ہے۔ خوراک کے مسئلے کی طرح کووڈ۔19ویکسین کا بھی مسئلہ ہے۔ ابھی دو ایک ماہ میں چین میں وائرس نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ چینی حکومت نے گزشتہ دنوں شنگھائی اور اس کے نواحی علاقوں میں سخت لاک ڈائون نافذ کردیا کورونا وائرس کی نئی شکل اومیکرون نے چین کے سب سے بڑے شہر شنگھائی کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔

مغربی میڈیا کے ذرائع کے مطابق کووڈ۔19 کی شروعات بھی چین کے شہرروحان سے ہوئی تھی اور اب یہ وائرس جو جلدی جلدی اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ اب اومیکرون جو چوتھی صورت میں بھی چین میں پھیل رہا ہے حالانکہ چین کی حکومت اور وہاں کی وزارت صحت کا دعویٰ تھا کہ چین میں زیرو وائرس ماحول تشکیل دیا جائے گا۔ مگر اب اومیکرون نے حکومت کے دعویٰ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں زندہ جانوروں اور حشرات الارض کی اوپن مارکیٹیں نئے نئے وائرس کو جنم دے رہی ہیں۔ اس ضمن میں چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے لکھا ہے کہ مغربی میڈیا اکثرکسی نہ کسی مفروضے کو لیکر بات کا بتنگڑ بناتا ہے۔

چینی ماہرین کاکہنا ہے کہ اومیکرون سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت کیاگیا تھا۔ جبکہ ڈیلٹاوائرس بھارت میں نمودار ہوا۔ مگر مغربی میڈیا نے ان خبروں کو توڑ مروڑ کر شائع کیا۔ گلوبل ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ چینی حکومت چین کو ہر طرح کی وبائی بیماریوں سے پاک کرنے کا عزم کرچکی ہے اس ضمن میں ہزاروں چینی طبی ماہرین کام کر رہے ہیں اور حکومت اسی معمہ میں کروڑوں ڈالر صرف کر رہی ہے۔ چین کی یہ احتیاطی تدابیر ایک مثبت کوشش ہے۔ تاہم کووڈ۔19 کے پھیلنے کے بعد بیشتر ممالک نے اس خطرناک وبائی مرض کا سدباب کرنے کے لئے شب و روز محنت اور کثیر سرمایہ صرف کرکے اس کی ویکسین تیار کی۔ امریکہ ، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور بھارت نے سات ویکسین برانڈ تیار کرلئے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بیش تر غریب ملکوں کے پاس فاضل رقم نہیں کہ وہ ویکسین خرید سکیں اس ضمن میں امریکہ اور دیگر بعض ممالک نے غریب ممالک کو ویکسین تحفہ یا دوا کے طور پر دی۔ پاکستان کو چین نے سال 2020 میں ویکسین تحفہ میں دی۔ جیسا کہ عرض کیاگیا ہے کہ ماہرین وبائی امراض کے پھیلنے کی وجہ آلودگی کو قرار دیتے ہیں۔

زمانہ قدیم طاعون، ہیضہ اور پیلا بخار جیسی وبائی بیماریوں نے لاکھوں انسانوں کی جان لی ہے۔ ڈیڑھ برس قبل اسپنش فلو نے ڈیڑھ کروڑ اقوام متحدہ کے ادارہ عالمی خوراک کے و زراعت کے مطابق دنیا میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اٹھائیس کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے جبکہ خود امریکہ میں تین کروڑ سے زائد افراد کو رات کا کھانا نصیب نہیں ہوتا، امریکہ کے بڑے شہر کی نواحی بستیاں غربت اور پسماندگی کی علامت ہیں ان میں زیادہ تر رنگدار نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ان کے کنبے بھی بڑے ہیں۔ جہاں بے راہ روی، مایوسی اور بیروزگاری عام ہے۔

المیہ یہ ہے کہ سال 2022ء میں روس کے یوکرین پر حملے پھرجنگ کے طویل ہونے کی اور دوسری طرف چین کے صدر کے بیانات کی وجہ سے دنیا کے امیر ممالک سبھی کی سوچ میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ مثلاً امریکہ چین روس، پولینڈ، بھارت، برازیل، جرمنی، فرانس و دیگر ممالک سے اپنے دفاعی بجٹ میں گوناگوں اضافہ کرنا شروع کردیا اس قطار میں امریکہ سرفہرست دوسرے چین پھر روس وبھارت اور برازیل ہیں۔ جرمنی اور فرانس نے اپنی سالانہ ڈھائی کا تین سے چار فیصد دفاع پر خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ہر چند کہ سابق امریکہ صدرٹرمپ نے بھی یورپی ممالک کو یہی مشورہ دیا تھا کہ اپنا بوجھ خود اٹھائیں امریکہ کے اپنے بڑے اخراجات ہیں جن کو ہم ترجیح دیتے ہیں۔ اب صدرجو بائیڈن نے دفاعی بجٹ میں اضافہ کا اعلان کیا ہے تو یورپی ممالک نے بھی معاملات کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اپنا اپنا دفاعی بجٹ بھی شروع کیا۔ مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ نے بھی اپنے دفاعی بجٹ میں تین سے چار فیصد اضافہ کا عندیہ دیا ہے۔ پولینڈ کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انہیں یوکرین کے بعد روس سے خطرہ ہے کیوں کہ جس طرح پولینڈ نے مظلوم یوکرینی عوام کی مدد کی ہے اس سے روس مزید ناراض ہے صدر پولینڈ کو دھکیاں دے چکا ہے۔

لہٰذا اس رجحان کومدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عالمی امن کو جو خطرات لاحق رہے ہیں ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں دنیا کے غریب عوام کے مسائل، غربت، پسماندگی، تعلیم کی کمی اور کرئہ ارض کے قدرتی ماحول پرتوجہ کون دے گا؟

سچ یہ ہے کہ یوکرین نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہم نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسی تباہی اور بربادی دیکھی وہ بھی ایک نادار ملک کے ساتھ جو اپنی تنگ دستی اور پسماندگی کو اپنے معاشرے سے دور کرنے کی جدوجہد کررہا تھا اس پر ایک بڑی طاقت یوں ٹوٹ پڑی جیسے عقاب کبوتر کا شکار کر رہا ہوں۔ ایسے میں ملکوں کی تشویش میں اضافہ فطری عمل ہے۔’’جیواور جینے دو‘‘ کا نعرہ دینے والا ملک اب اتنا بدل چکا ہے کہ ’’مرو یا مارو‘‘کا نعرہ دے رہا ہے۔