سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز، خصوصی عدالت اور نیب کیسز میں تقرری و تبادلوں سے روک دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بینچ نے ازخود نوٹس پر سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ سسٹم کو اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں، ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے،اس طرح کیوں ہو رہا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے لاہورکی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللّٰہ عباسی اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے نے تفتیشی افسر کو کہا کہ نئے بننے والے وزیراعلیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہونا۔
انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن برانچ اور تفتیش کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پراسیکیوشن افسران کو ہٹانے کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ای سی ایل پر نام ڈالنے اور نکالنے کا طریقہ کار اگر بدلا ہے تو عدالت کے سامنے رکھیں، 6 ہفتے میں جن افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے ان کی فہرست دیں۔
سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین نیب سے تحریری جوابات طلب کرلیے۔
عدالت نے نیب اور ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز سمیت تمام متعلقہ افسران سے بھی تحریری جواب طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں کے نیب ڈی جیز کو بھی نوٹسز جاری کردیے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تمام متعلقہ افسران اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر جواب دیں، بتایا جائے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر کیے گئے؟
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، انہیں بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر تشویش ہے اور ان معاملات میں قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر یہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کیے گئے، اس پرتشویش ہے اس لیے چیف جسٹس نےاز خود نوٹس لیا،آپ تعاون کریں۔
اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کسی قسم کی تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، ہم آئین اور اللّٰہ کو جوابدہ ہیں،ہمیں تعریف کی ضرورت نہیں، تنقید کا بھی کوئی خوف نہیں، صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جو اندراج مقدمہ سے فیصلے پر ختم ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل بہت مضبوط ہیں،ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے، مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے، ہم ان اقدامات کو دیکھتے رہے،مقدمات کےملزم کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا، مقدمات کے ملزمان کوعدالت نے سزائیں نہیں سنائیں، انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئیڈیا سسٹم کی ساکھ کو برقرار رکھتا ہے، ہم عدالتی کارروائی کا جائزہ لے رہے ہیں،لاہور اورکراچی کی خصوصی عدالتیں ججز سے خالی پڑی ہیں، اسلام آباد کی تین احتساب عدالتیں خالی ہیں۔
واضح رہے کہ مداخلت سے شواہد ضائع ہونے، پراسیکیوشن پر اثر انداز ہونے کا خدشہ، احتساب قوانین میں تبدیلی نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف، چیف جسٹس نے آئین کی بالادستی یقینی بنانے کیلئےاز خود نوٹس لیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ترجمان شاہد حسین کمبوئیو کی جانب سے گزشتہ روز جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے میڈیا پر آنے والی خبروں اور سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج کی نشاندہی پر استغاثہ کے اختیارات، فرائض کی انجام دہی اورآزادی میں موجودہ حکومتی بعض افرادکی مبینہ مداخلت، مختلف عدالتوں میں زیر التواء فوجداری معاملات کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کے عمل پر اثر انداز ہونے کے خدشہ کے پیش نظر از خود نوٹس لیا ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس طرح کی مداخلت مقدمات کی کارروائی، استغاثہ کے اداروں کے قبضے میں موجود شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑیا شواہد کوغائب کردینے اوراہم عہدوں پر افسران کے تبادلے یا تعیناتیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔