• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس ملک میں ایک وزارت ہے، نام ہے اس کا انفارمیشن ٹیکنالوجی، اس وزارت کے ماتحت سپیشل کمیونی کیشن آرگنائزیشن، الیکٹرونک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ، نیشنل کمیونی کیشن کارپوریشن، پاکستان کمپیوٹر بیورو، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ،پی ٹی سی ایل، یوفون،ٹیلی کام فائونڈیشن اورپی ٹی اے جیسی لا تعدد بلائیں کام کرتی ہیں۔ آج کل یہ وزارت زیادہ تر دو حوالوں سے خبروں میں رہتی ہے ، ایک یو ٹیوب کب کھل رہی ہے،کھلے گی یا نہیں یااس کے کھلنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ دوسرے،پی ٹی اے روزانہ کتنی فحش ویب سائٹس بلاک کرتی ہے ؟یقیناًاس کے علاوہ بھی وزارت میں صبح شام فائلوں میں لاتعداد کام ہوتے ہوں گے ،انگریزی میں نوٹنگ ہوتی ہوگی ،فائل سیکشن افسر سے تیار ہو کر سیکرٹری تک اور اگر قواعد میں ضرورت ہو تو وزیر صاحبہ تک جاتی ہو گی، ہر کام رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق مجاز اتھارٹی کی منظوری سے کیا جاتا ہوگا،پی ٹی اے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ دیتی ہوگی کہ آج اس نے اتنے درجن فحش ویب سائٹس بلاک کرکے نو نہالان وطن کو شر سے بچا لیا جس کے لئے وہ شاباش کے مستحق ہیں ،اس کے علاوہ وزارت میں یقیناً کوئی نہ کوئی خصوصی ٹیم بھی ہوگی جو دن رات یو ٹیوب کو اَن بلاک کرنے کے حوالے سے اپنی تجاویز وزیر صاحبہ کو پیش کرتی ہو گی کہ کہیں انہیں ایوان میں خفت کا سامنا نہ کرناپڑے ۔
یہ تمام اقدامات اپنی جگہ قابل ستائش ہیں ،خاص طور پر اس حوالے سے کہ پاکستان غالباً اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یو ٹیوب پر پابندی ہے ،اس کے علاوہ پی ٹی اے کا عملہ جس پھرتی کے ساتھ فحش ویب سائٹس بلاک کر رہا ہے اس کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی (ویسے جو سٹاف اس کام پر مامور ہے ،آج کل وہاں پوسٹنگ کے لئے خاصی تگڑی سفارش درکار ہوگی)۔لیکن پاکستان میں ان مسائل کے علاوہ ایک چھوٹا سا مسئلہ اور بھی ہے ،مسئلہ چونکہ معمولی نوعیت کا ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ وزارت کے عہدے داروں کی عقابی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہو ،آخر اتنی بڑی وزارت کا انتظام و انصرام چلانا کوئی معمولی بات نہیں ،چپڑاسی سے لے کر سیکرٹری تک اور ڈرائیور سے لے کر وزیر صاحبہ تک سینکڑوں لوگ اس وزارت میں دن رات جانفشانی سے کام کرتے ہیں ،اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی خبریں اپنی ویب سائٹ پر News and Eventsکے نیچے فوراً اپ لوڈ بھی کر دی جاتی ہیں، ان خبروں کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ معمولی نوعیت کے مسائل وزارت کی ترجیح میں شامل نہیں۔ اس کے باوجود جس مسئلے کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ مسئلہ اس قدر ’’معمولی‘‘ نوعیت کا ہے کہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، لیکن بتائے بغیر چین بھی نہیں ۔مسئلہ ہے دہشت گردی کا!
آپ بھی سوچیں گے بھلا دہشت گردی کا وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے کیا تعلق، اور اگر کھینچ تان کر میں نے کوئی تعلق نکال ہی لیا ہے تو اس ضمن میں اتنا sarcastic ہونے کی کیا تُک ہے ،سیدھے طریقے سے بات کیوں نہیں کی ،اور جب ہم نے طے کر لیا ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہے تو پھر ٹینشن کس بات کی ہے؟ آپ کے یہ طعنے سر آنکھوں پر مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی اے جن ویب سائٹس کو فحش سمجھ کر بلاک کر تا ہے کیا اسے وہ ویب سائٹس نظر نہیں آتیں جن میں باقاعدہ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف ’’جہاد‘‘ پر اکسایا جاتا ہے، کیا پی ٹی اے کو وہ ویب سائٹس نظر نہیں آتیں جن میں ایک مسلک کا مسلمان دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر واجب القتل قرار دیتا ہے ،کیا پی ٹی اے کو وہ ویب سائٹس نظر نہیں آتیں جن میں پاکستانی افواج کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کی ویڈیو اپ لوڈ کی جاتی ہیں ،کیا پی ٹی اے کو وہ ویب سائٹس نظر نہیں آتیں جن میں کچے ذہنوں کو گمراہ کر کے خود کش بمباری کے لئے آمادہ کیا جاتا ہے ،کیا پی ٹی اے کو ویب سائٹس نظر نہیں آتیں جہاں سے دہشت گرد اپنی ایسی خوفناک میڈیا کمپین چلا رہے ہیں جو کسی بھی عام آدمی کا دل و دماغ ہلا کر رکھ دینے کے لئے کافی ہے ؟
ریاست پاکستان کا دہشت گردی کے بارے میں کیا بیانیہ ہے ،اس کے حق میں ہم کیا دلائل رکھتے ہیں ،ہمارا مذہب اس بارے میں ہمیں کیا سکھاتا ہے ،دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے افسروں اور جوانوں کا کیا پروفائل ہے اور کیسے وطن کے ان جیالوں نے اس سرزمین کی خاطر جان دی ،اس کی تفصیل کہاں ہے ،کوئی نہیں جانتا ،کسی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے محکمے کا یہ کام نہیں کہ ایسی کوئی ویب سائٹ ہی بنا دے !یوں لگتا ہے جیسے ساری قوم کا مسئلہ فحش ویب سائٹس کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں ۔کسی زمانے میں ایک خبر آئی تھی کہ دنیا بھر میں پاکستانی سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس دیکھتے ہیں ،اس خبر کی نہ صرف تردید ہو گئی بلکہ پتہ چلا کہ وہ ڈیٹا ہی غلط ہے مگر ہم نے اس خبر کو سینے سے اب تک لگائے رکھا ہے ۔جن ویب سائٹس کا میں نے ذکر کیا ہے کیا انہیں ’’فحاشی‘‘ کے زمرے میں شامل کر کے بلاک نہیں کیا جا سکتا ،کیا اس کے لئے کوئی راکٹ سائنس درکار ہے ؟ مجھے علم ہے کہ یہ خواہش معصومانہ ہی نہیں بچگانہ بھی ہے ،وزارتیں طفلانہ خواہشات پر کام نہیں کرتیں ،ان کے پیش نظر بگ پکچر ہوتی ہے (جو نہ جانے کس بلا کا نام ہے)، سرکار ہرکام قانون قاعدے اور عوامی امنگوں ،خواہشات اور سب سے بڑھ کر قومی مفاد کے تحت کرتی ہے اور یہ قومی مفاد کس چڑیا کا نام ہے ،یہ طے ہونا ابھی باقی ہے ۔کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو میرے اور آپ کے بس میں ہوتے ہیں جبکہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو بس سے باہر ہوتے ہیں ،ہم لوگ ایسے کاموں کا بہانہ کر کے جو ہمارے بس سے باہر ہوتے ہیں وہ کام بھی نہیں کرتے جو ہمارے بس میں ہوتے ہیں ۔حکومتوں کا حال بھی ایسا ہی ہے ۔کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو کوئی بھی حکومت با آسانی کر سکتی ہے جبکہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں حکومت کے بس سے بھی باہر ہوتے ہیں،مثلاً ڈرون حملے روکنا حکومت کے بس سے باہر ہے لیکن دہشت گردی اور ڈرون حملوں میں مرنے والے بے گناہ افراد کے خاندان کی کفالت ،دیکھ بھال ،داد رسی وغیرہ حکومت کے بس میں ہے ۔اسی طرح خود کش حملے روکنا فی الحال حکومت کے بس میں نہیں لگ رہا تاہم دہشت گردی کی اس جنگ میںجاری انٹرنیٹ میڈیا کمپین کو روکنا یقیناً حکومت کے لئے بے حد آسان کام ہے اور یہ ذمہ داری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہے لیکن بات وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے !جس ملک میں روزانہ کی بنیاد پر بے گناہ افراد کو، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ،بم دھماکوں میں اڑایا جا رہا ہو ،اور اس ملک میں فحش ویب سائٹس کو بلاک کرنا دہشت گردوںکی ویب سائٹس کو بلاک کرنے سے زیادہ مقدم سمجھا جاتا ہو،وہاں عوام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اگلے خود کش حملے کا انتظار کریں اور اگر کسی وجہ سے حملے میں دیر ہو جائے تو طالبان کے دفتر سے رجوع کریں جو بمع ٹال فری نمبر اور ہیلپ لائن جلد ہی قائم کر دیا جائے گا ،تاکہ معصوم شہریوں کو مرنے میں زیادہ دقت نہ ہو۔
تازہ ترین