• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان اپنی طبع میں ایک ایسے فرد ہیں جو اپنے سوا کسی فرد یا ادارے کو احترام کے قابل نہیں۔ ان کی جانب سے میر جعفر کا خطاب کسی کو بھی مل سکتا ہے۔انہوں نے جو زبان مریم نواز کے لئے استعمال کی ہے وہ صرف ان کی عادت ہے یا یہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ؟ میری رائے میں اس قسم کی گھٹیازبان کا استعمال ایک گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب نواز شریف کے خلاف سازش عروج پر پہنچ چکی تھی تو اس وقت مریم نواز ایک توانا شخصیت کے طور پر سامنے آئیں جنہوں نے ببانگ دہل مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو مصری صدر مرسی نہیں بننے دیں گی ۔ پھر انہوں نے اپنی شخصیت کا سحر ایسے قائم کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی عوام سے مخاطب ہونے کے لئے پہنچتیں تو وہاں پر ایک جمِ غفیر ان کے استقبال اور خیالات سے آگاہی کے لئے موجود ہوتا ۔ اور اب سونے پرسہاگہ یہ کہ شہباز شریف ،حمزہ شہباز وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار آ گئے ہیں ، جن کی شہباز اسپیڈ ایک اصطلاح کے طور پر استعمال جاتی ہے ۔ اس لئے منصوبہ سازوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف کی قیادت اور ان افراد کی موجودگی کے بعد معاشی کامیابی،سیاسی کامیابی یا پھر اگلے انتخابات میں فتح کو روکنا ناممکن ہو جائے گا اور ان کا بنا بنایا کھیل مکمل طور پر بگڑ جائے گا ۔ اس لئے مریم نواز کے حوالے سے اس طرح کی رکیک زبان استعمال کی جارہی ہے جو نواز شریف کیلئے ذہنی طور پر شديد تکلیف کا باعث ہو جبکہ مريم نواز پر بھی دبائو بڑھایا جائے۔ حالانکہ ماضی قریب میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جب مریم نواز کو ہدف بنایا گیا تا کہ نو ا ز شریف کو کمزور کیا جا سکے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیٹی باپ کی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بن کر سامنے آئی اور جدوجہد کا استعارہ بن گئی ۔ مریم نواز کے حوالے سے اب دوبارہ نازیبا زبان استعمال کرنا اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کے تحت یہ ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کو بڑے جلسوں کے انعقاد سے کیسے روکا جائے ۔ مگر معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے ،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ نون دوبارہ بڑے اتحادی کے طور پر برسر اقتدار ہے اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اس منصوبہ بندی کو شکست دینے کے لئے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے؟

اس بات کا برملا اظہار کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں وفاق اور صوبوں میں کرپشن اور لوٹ مار بہت بڑھ گئی تھی۔ مالم جبہ، ہیلی کاپٹر،توشہ خانہ ، ادویات میں چور بازاری سمیت متعدد کیسز ملزمان کی گرفتاریوں کے منتظر ہیں ۔مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ حکومت قائم تو ہو گئی ہے مگر اس کے ہاتھ پائو ں بندھے ہوئے ہیں ۔ جب ہاتھ پاؤں بندھے ہوں توحکومت چلانا ممکن نہیں رہتا ۔ رانا ثناء اللہ نے اس کا برملا اظہار بھی کر دیا ہے کہ ہم اس نازک معاشی صورتحال میں ملک کی خاطر باگ دوڑ سنبھالنے کے لئے تیار ہوگئے مگر منصوبہ ساز ہے کہ اس کی نت نئی پلاننگ رُک ہی نہیں رہی ۔ ویسے اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتا چلوں کہ بھکر کے ایک رکن اسمبلی جن کا خاندان بھی سیاست میں ہے، نے مجھے 2018 کے انتخابی فراڈ سے قبل یہ بتایا کہ وہ مسلم لیگ ن کو چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ میرے ضلع کے تمام قابل ذکر افراد کو مسلم لیگ ن چھوڑنے پر اس حد تک مجبور کر دیا گیا تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ مشکلات کا مقابلہ کرتے، وہ بولے کہ مہدی صاحب کیسے؟ نواز شریف کے خلاف سازش کامیاب ہونے کے بعد حکومت اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ جب وہ جی ٹی روڈ مارچ کر رہے تھے تو اس وقت بعض چینل بند، بعض کی آواز کومیوٹ کروادیا گیا ۔ جب حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ وہ کسی پر بھی ریاستی رٹ قائم نہیں کر سکتی تھی تو ہم جیسے لوگوں میں مقابلہ کرنے کی سکت کہاں سے آتی ؟ یہ واقعہ اس سبب یاد آیا کہ اب بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ، یا تو ہاتھ پاؤں کسی طرح سے کھول لئے جائیں ،اس لئےکہ اگر ہاتھ پاؤں بندھے ہی رہیں گے تو پھر معاشی میدان میں بھی بندھے ہی ہوں گے اور معاشی میدان میں بھی کارکردگی دکھانا ممکن نہیں رہے گی ۔ خیال رہے کہ جہاں عمران خان کے جلسوں کا مقصد یہ ہے کہ مخالفین پر رکیک حملے کیے جائیں وہاں پر وہ اپنے دور کا ملبہ جس کا ذکر شیخ رشید نے بھی کیا ہے ،دوسروں کو صاف تک کرنے نہیں دینا چاہتے اس لئے موجودہ حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کا ملبہ صاف کرنے کیلئےکھل کر اقدامات کرے کیونکہ اگر انتشار ایسے ہی رہا تو پاکستان میںخدا نخواستہ سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین