پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کو حراست میں لینے کے معاملے پر حکومت نے تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
جسٹس (ر) شکور پراچہ، سابق آئی جی ڈاکٹر نعیم خان کمیشن کا حصہ ہیں، سابق سیکرٹری سیف اللّٰہ چٹھہ، سیکرٹری داخلہ اور چیف کمشنر بھی کمیشن میں شامل ہیں۔
شیریں مزاری کو حراست میں لیے جانے کے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے خصوصی کمیشن کا کابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
یاد رہے کہ 21 مئی کو زمین پر قبضے کے کیس میں اینٹی کرپشن پنجاب کی ٹیم نے شیریں مزاری کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد ان کی بیٹی ایمان مزاری کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، بعد ازاں کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے شیریں مزاری کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کو حراست میں لینے کے معاملے پر خصوصی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔
سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے ساتھ پیش آئے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا تحریری حکم جاری کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے 22 مئی کو ہونے والی سماعت کا حکم نامہ اگلے روز جاری کیا تھا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت داخلہ، وفاقی حکومت کو شیریں مزاری کی گرفتاری سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شیریں مزاری کی گرفتاری اور انہیں دوسرے صوبے کے حکام کے حوالے کرنے کا جواز پیش نہ کر سکے۔
تحریری حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شیریں مزاری نے بتایا کہ انہیں مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش نہیں کیا گیا، یہ واضح ہے کہ گرفتاری کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
عدالت کے تحریری حکم نامے کے مطابق اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں، مطیع اللّٰہ جان اور ایس ای سی پی افسر کو دن کی روشنی میں جبری طور پر غائب کیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اسد علی طور اور ابصار عالم جیسے صحافیوں کے خلاف جان لیوا کارروائیاں ہوئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔
حکم نامے میں بتایا گیا تھا کہ عدالت میں پیش ہونے والے حکام شیریں مزاری کی گرفتاری کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ ماضی میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کر کے انہیں حلقے کے عوام کی پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم کیا گیا۔