• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت: سماجی کارکن آفرین فاطمہ نے گھر مسمار کیے جانے کو غیرقانونی قرار دیدیا

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما کی جانب سے بارگاہِ رسالتﷺ میں توہین آمیز گفتگو کے خلاف احتجاج کرنے والی مسلمان سماجی کارکن آفرین فاطمہ کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کو غیرقانونی طور پر مسمار کیا گیا۔ 

غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ گستاخانہ بیان کے خلاف احتجاج کرنے پر حکومت نے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی۔ 

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھارتی حکومت نے گستاخانہ بیان کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ مکمل سرکاری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ریاست اترپردیش کی حکومت نے مظاہروں میں شامل افراد کے گھروں کو مسمار کیا جن میں سماجی کارکن آفرین فاطمہ کا گھر بھی شامل تھا، جن کا گھر گرانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ 

آفرین فاطمہ کا دو منزلہ گھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوگیا۔ گھر میں رکھی قیمتی اشیا اور دیگر سامان کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا تھا جن میں کتابیں، فرنیچر اور کچھ تصاویر بھی شامل تھیں جبکہ ایک پوسٹر بھی دکھائی دیا جس میں یہ تحریر تھا کہ ’جب ناانصافی قانون بنتی ہے تو مزاحمت فرض بنتا ہے‘۔

واقعے کے بعد عرب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے آفرین فاطمہ کا کہنا تھا کہ پولیس والے آئے اور کہا کہ وہ ہمارے ابو سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ابو سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلیں جبکہ اس دوران پولیس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ گرفتاری ہے یا پھر انہیں حراست میں لیا گیا ہے جبکہ کسی طرح کا کوئی وارنٹ بھی نہیں دکھایا گیا۔ 

خیال رہے کہ اترپردیش حکومت کی جانب سے مسلم سیاسی جماعت کی رہنما آفرین فاطمہ کے والد محمد جاوید کو مظاہروں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا تھا۔ 

آفرین نے انٹرویو میں کہا کہ ان کی والدہ اور بہنوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا جبکہ اپنے والد کے خلاف الزامات مسترد کرتے ہوئے انہوں نے گھر مسمار کرنے کو حکومت کا غیرقانونی اقدام قرار دیا۔

سماجی کارکن کا کہنا تھا ’یہ گھر نہ صرف میرے والد بلکہ میری والدہ کی بھی جائیداد تھا، ہم یہاں پر 20 سال سے رہ رہے تھے لیکن کبھی الہ آباد کے حکام کی جانب کوئی نوٹس نہیں آیا جس میں کہا گیا ہو کہ ہمارا گھر غیرقانونی ہے۔‘ 

انہوں نے کہا ’ہمارا گھر والد کے مظاہروں کا ماسٹرمائنڈ ہونے کے الزامات ثابت ہوئے بغیر ہی گرادیا گیا، والد نے ایسا کچھ نہیں کیا، لیکن انہوں نے ہمیں سزا دے دی۔‘

آفرین کا کہنا تھا ’ہم نے اپنا گھر گِرتے ہوئے دیکھا، ہم نے اپنی تمام زندگی اس میں گزاری، یہ پچھلے 21 سال سے ہمارا گھر تھا۔ یہاں پر ہماری خوشگوار یادیں ہیں جنہوں نے مجھے وہ بنایا جو میں آج ہوں۔ تاہم گھر کا گِرنا بہت ہی تکلیف دہ ہے۔‘

انہوں نے اپنے گھر کے مسمار کیے جانے کو ان کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ کرنا بی جے پی کی ہندو قوم پرست حکومت کا مسلمانوں کے احتجاج کے حق کے خلاف پالیسی کا حصہ ہے۔ 

بین الاقوامی خبریں سے مزید