• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالیہ زاہد بھٹی

جاتی سردیوں کی سہ پہر میں بھی چھوٹی سی گاڑی میں لگے اے سی کے باوجود گھر سے نکلتے ہی اسے اِک عجیب سی تپش کا احساس ہوتا تھا، جانے ایسا کیوں تھا، لیکن موسم چاہے کوئی بھی ہو، لیکن اسے لگتا کہ گھر سے اکیلے باہر نکلتے ہوئے ہر بار ہی ایک موہوم سی تپش اسے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ آج بھی جب وہ دونوں بچّوں کو لے کر سودا سلف خریدنے قریبی مارٹ گئی، تو اسے کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔

منال کا ہاتھ تھامے، عباد کو ٹرالی میں بٹھائے وہ جلدی جلدی مہینے کا سودا خرید کر یہاں سے نکلنا چاہتی تھی کہ کہیں بچّے کھلونوں کا شیلف دیکھ کر فرمائشیں نہ شروع کردیں۔ ویسے تو وہ بچّوں کی ہر ضرورت، خوشی کا خیال رکھتی تھی، لیکن ہمیشہ ہی فضول خرچ سے بچنے کی کوشش کرتی۔ عید کے دنوں میں بھی کافی بجٹ آؤٹ ہو چُکا تھا، تو اس کی یہی کوشش تھی کہ ایک آدھ مہینے کچھ بچت کرلے۔ صائمہ نے ٹرالی گھماتے ہوئے کیش کاؤنٹر پر بِل جمع کروایا، سامان شاپرز میں ڈالا اور ٹرالی گھسیٹ کر باہر نکل آئی۔ لوڈر نے سارا سامان گاڑی میں رکھ دیا، تو صائمہ نے دونوں بچّوں کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر کی راہ لی۔ ’’ماما! آپ نے اتنا کچھ لیا، مگر میرے لیے ایک بھی ٹوائے نہیں لیا۔‘‘ 

منال نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ ’’اوہو! تو آپ نے یاد کیوں نہیں دلایا، اب تو ہم مارٹ سے بہت دُور نکل آئے، واپس بھی نہیں جا سکتے۔‘‘ صائمہ نے بدستور سڑک پر نظریں جمائے کہا۔ ’’مَیں نے آپ کو اس لیے یاد نہیں دلایا کہ پھر آپ کہتیں کہ گندے بچّوں کی طرح ڈیمانڈز نہیں کرو۔‘‘ منال نے منہ پھلا کر دل کا غبار نکالا۔ ’’ارے واہ بھئی! یہ تو کتنی اچھی بات ہے کہ میری پرنسز اتنی سمجھ دار اور گُڈ گرل ہے۔ مَیں تو سب کے سامنے یہی کہوں گی کہ میری منال گندی نہیں، بہت پیاری بچّی ہے۔‘‘ 

صائمہ نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔ ’’ممّا جی! جب کوئی بچّہ شرافت دکھا رہا ہو اور روئے دھوئے بغیر چُپ چاپ اپنی ممّا کی ہیلپ کررہا ہو، تو اس کی ممّا کو بھی تو چاہیے ناں کہ بچّے کو ایک آدھ نیا ٹوائے دلوادے۔‘‘منال کو رہ رہ کر اپنی شرافت پر افسوس ہو رہا تھا اور ڈیڑھ سالہ عباد ان باتوں سے بےخبر گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھ کر فیڈر پینے میں مشغول تھا۔ صائمہ جانتی تھی کہ منال کا کھلونے لینے کا بہت دل تھا، لیکن وہ بچّوں کی بے جا خواہشات پوری کرنے کی قائل نہیں تھی۔وہ چاہتی تھی کہ اپنے بچّوں کی تربیت ایسے انداز میں کرے کہ وہ شُکر گزار بنیں۔ اس نے اپنی ننّھی پری کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے راستے سے اس کے پسندیدہ سویٹ کارنز دلوائے اور گھر کی طرف رواں دواں ہوگئی۔

گاڑی اپارٹمنٹس کے پارکنگ ایریا میں پارک کی اور دونوں بچّوں کو ساتھ لے کر گاڑی لاک کر کےفرسٹ فلور پر واقع اپنے فلیٹ میں داخل ہوگئی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی عباد کو گود سے اتار کر لاؤنج میں آئی اور صوفے پر آرام سے بیٹھ گئی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اسے اِک عجیب سی ٹھنڈک، فرحت اور سکون حاصل ہوا، اس نے آنکھیں موند کر صوفے کی پشت سے سر ٹکایا۔ ’’ممّا جی!گاڑی سے سامان تو نکالا ہی نہیں‘‘ منال کے سویٹ کارنز ختم ہو ئے، تو اسے یاد آیا۔’’جی بیٹا، ڈیڈی کے پاس گاڑی کی دوسری چابی ہے، مَیں نے ان سے کہہ دیا ہے، وہ آفس سے واپسی پر سارا سامان نکال کر اوپر لے آئیں گے۔‘‘ اس نے منال کو جواب دیا۔

انصر حسبِ معمول شام میں گھر لَوٹا، تو اس کے ہاتھ میں وہ سارے شاپرز موجود تھے جو صائمہ نے گاڑی میں چھوڑ دیئے تھے۔ اس نے انصر کے ہاتھوں سے سامان لے کر کچن میں رکھا اور کھانا لگادیا۔ جب وہ کھانے کے برتن دھو کر لاؤنج میں واپس آئی، تو منال اپنی تمام تر شکایات باپ کے گوش گزار کر رہی تھی۔اپنی ننّھی گڑیا کو دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اتنی سی بچّی میں اتنی سمجھ ہے کہ باپ کے آتے ہی روداد نہیں سنانی، بلکہ کھانے پینے کے بعد آرام سے اپنے بابا کے سامنے شکایتوں کا انبار لگانا ہے۔ 

اسے خوشی بھی ہو رہی تھی کہ اس کی پانچ سالہ بچّی میں موقع محل دیکھ کر بات کرنے کی سمجھ بوجھ ہے، جو بےشک اس کی تربیت ہی کا نتیجہ تھا۔ ’’کیوں بھئی، ہم نے سُنا ہے کہ آپ نے ہماری گڑیا کے ساتھ بہت ناانصافی کی ہے، خریداری کرنے گئیں اور اسے کچھ بھی نہیں دلوایا۔‘‘ڈیڈی کی عدالت میں ممّا کی طلبی پر منال جواب کے لیے ہمہ تن گوش تھی اور اس کی ممّا جی اپنی ہنسی روکے کھڑی تھیں۔ ’’نہیں، بالکل بے بنیاد الزام ہے مجھ پر۔ البتہ مَیں نے کھلونے لینے اور فضول خرچ کرنے سے ضرورگریز کیا کہ وہ پہلے ہی بہت ہیں۔ 

پھر ابھی دو ماہ پہلے ہی منال کی سالگرہ گزری ہے، اس میں جو کھلونے ملے تھے، ان میں سے بھی ایک، دوابھی تک نہیں کُھلے۔ لیکن مَیں نے ان دونوں کے کھانے پینے کی ساری چیزیں خریدی ہیں، بلکہ منال کو واپسی میں سویٹ کارنز بھی دلوائے تھے۔‘‘ ممّا نے ڈیڈی کی عدالت میں اپنا بھر پور دفاع کیا۔ ’’گڑیا! کیا ممّا درست کہہ رہی ہیں؟‘‘ڈیڈی نے منال سے پوچھا۔ ’’جی ڈیڈی‘‘ منال نظریں چراتے ہوئے مِنمنائی۔ ’’تو میری شہزادی، پھر تو ممّا کی کوئی غلطی نہ ہوئی۔ آپ کو سوچنا چاہیے کہ وہ دن بھر گھر میں کتنی مصروف رہتی ہیں، ہم سب سے پہلے اُٹھتی ، ناشتا بناتی، آپ کا لنچ باکس تیار کرتی ہیں، مجھے پریشانی نہ ہو، اس لیے آپ کو اسکول لے جاتی اور لے کر بھی آتی ہیں، ساتھ یہ بھی خیال رکھتی ہیں کہ گھر کا بجٹ آؤٹ نہ ہو۔ 

ہمیں تو ان کی مدد کرنی چاہیے، نہ کے شکایت۔ بلکہ آپ کو تو ان کا ہیلپنگ ہینڈ بننا چاہیے۔‘‘ انصر کی اتنی بڑی تمہیدی، بلکہ توصیفی گفتگو نےجہاں منال کو شرمندگی سے دوچار کیا، وہیں صائمہ کی آنکھیں بھی خوشی سے چمک اُٹھیں۔ اسے معلوم تھا کہ انصر کی یہی حوصلہ افزائی اور قدردانی، اسے تھکنے نہیں دیتی۔ یہی وہ ٹھنڈی چھاؤں تھی، جو ہر وقت اسے اپنے حصار میں لیے رکھتی تھی، یہی وہ اعتماد، حوصلہ تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچّوں کی بہتر تربیت کر پارہی تھی۔ جب بھی وہ انصر کے ساتھ ہوتی، اسے اپنے ارد گرد سکون سامحسوس ہوتا۔ یہ وہی احساس تھا، جو شادی سے پہلے اسے اپنے والدین کے ساتھ ہوتا تھا۔

صائمہ نے رخصتی کے وقت کہی اپنی ماں کی ایک بات پلّو سے باندھ لی تھی، جو شادی کے چھے سال بعد بھی اس کے کام آرہی تھی کہ ’’اب تمہاری چھاؤں انصر اور اس کے گھر کے سائے تلے ہے، اسے کبھی غصّے اور جذباتی فیصلوں کی تپش سے گرمی نہ دینا۔ سہولتیں اور آسائشیں تو وقتی آرام دیتی ہیں، جب کہ اعمال و افعال کے ذریعے ملنے والا سکون و اطمینان ابدی اور دائمی ہوتا ہے، جس کے اثرات حیات بعد از مرگ بھی ملتے رہتے ہیں۔ 

عورت کا کام صرف گھر داری نہیں، اولاد کی بہترین تربیت کرنا بھی ہے، اس میں کبھی کوتاہی مت برتنا۔‘‘یہ کہہ کر اس کی ماں نے اس کے ماتھے پر ایک الوداعی بوسا دیا،جس کی ٹھنڈک اور مٹھاس آج بھی اس کے ہم رکاب تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی زندگی پریشانیوں، مسائل، غلط فہمیوں سے آزاد تھی، وہ بھی عام عورت کی طرح سب مسائل سے دوچار ہوتی۔ لیکن مزاج کی نرمی اور خلوصِ نیت کی وجہ سے وہ ہر بار سرخ رو ہوتی۔

شوہر کی باتیں سُننے کے بعد صائمہ نےکچن کا رُخ کیا کہ ابھی کچھ کام باقی تھا اور انصر دونوں بچّوں کو دائیں، بائیں بٹھا کر کہانی سُنا نے لگا۔ ’’اللہ جی! میرے سر پر یہ ٹھنڈی چھاؤں ہمیشہ سلامت رکھیے گا۔ میرے بچّوں کو دین و دنیا کے علم سے نوازیے اور ہمارے گھر میں اپنی رحمتیں، برکتیں اور فضیلتیں نازل فرمایے۔‘‘ تمام کاموں سے فارغ ہو کر اس نے عشاء کی نماز پڑھی اور ہر روز کی طرح اپنے ربّ کے حضور شوہر اور بچّوں کی سلامتی کی دُعائیں مانگنے لگی۔