سفرناموں کی دنیا کے شہنشاہ، مستنصر حُسین تارڑ نے جب شی آن (Xian) شہر کا ذکر کیا، تو ان کے لہجے میں کچھ تھا۔ ہم اور مستنصر صاحب ایک دوست کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ میں مدعو تھے۔ مستنصرحُسین تارڑ ہوں اور اُن کےارد گرد جم گھٹا نہ ہو، ایسا کہیں ممکن ہے۔ ہم بھی ان کے پاس جا پہنچے اوردھیرے سے کہا’’مارچ کے آخری ہفتے میں چِین جانے کا پروگرام ہے، کچھ رہ نمائی کر دیجیے۔‘‘ تو وہ مُسکرائے اور بولے’’شی آن ضرور جائیں‘‘پھر کچھ جاننے کے لیے اِدھر اُدھر ٹکریں مارنا ہماری فطرت کا حصّہ ہے۔ پہلے تو کتابیں ہوتی تھیں، جو کہتیں ’’آئو، اور ہمیں کھوجو‘‘ اب خیر سے کافروں نے گھر ہی میں علم کے دریا بہا دئیے ہیں، تو جب جی چاہے غوطے مارو، چھینٹیں اڑائو، تیراکی کرو، جتنی دیر چاہو لُطف اُٹھاؤ۔
عمران نے جب شی آن کا پروگرام ہاتھ میں تھمایا، تو ہماری تنقیدی نظروں نے لڑکی کے گھر رشتے لے کر جانے والی ساس کی طرح اس کا مشاہدہ کیا، جس میں ’’ٹیرا کوٹا‘‘ (Terracotta) درج تھا۔ بیٹی اور داماد بھی شی آن کی اہمیت سے آگاہ تھے، جب ہی انہوں نے یہاں جانے کا پروگرام بنایا۔ مرکزی چِین کا یہ شہر شاہ راہِ ریشم کے کنارے واقع ہے، جو صدیوں پر محیط اپنے تاریخی اور تہذیبی حوالوں سے سیاحوں کے لیے ناگزیر بن چُکا ہے اور ٹیرا کوٹا اسی شہر کا ایک عجوبہ ہے، صدیوں پُرانی ایک نو دریافت شُدہ جگہ کا عظیم تحفہ، جس سے ہمیں چند دن پہلے ہی گھر کے بچّوں نے متعارف کروایا تھا۔
طلحہ، فاطمہ اور مجتبیٰ جب اسکول سے آئے، تو مجتبیٰ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے، اسے دیکھنے پر زور دیا۔ ’’ارے میاں، جانے کا جی تو چاہتا ہے، پرتمہاری نانو کے گٹے گوڈے تو ادھار کے نہیں ہیں ناں‘‘ہم نے کہا۔ ’’نانو! ٹیراکوٹا تو ضرور دیکھنا ہے۔ شی آن جانا اور اس میوزیم کو نہ دیکھنا تو بہت زیادتی والی بات ہوگی۔‘‘مجتبیٰ نے کہا۔’’یہ تو وہی بات ہوگی کہ مصر جائیں اور اہرامِ مصر ہی نہ دیکھیں۔ نہیں نانو، پلیز ایسا مت کرنا۔‘‘ فاطمہ نے آنکھیں گھما کر کہا اور اتنی دیر میں لیپ ٹاپ کُھل چُکا تھا۔
دھڑا دھڑ تصویریں سرچ کی جا رہی تھیں، جنہیں دیکھ کر میری آنکھیں کُھلی رہ گئیں۔ نواسی، نواسوں نے ٹیراکوٹا سے میرا تصویری تعارف کروانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ چھوٹے والے نے تو اسے آٹھواں عجوبہ تک کہہ ڈالا۔ تو ہم نے بھی سوچا، دنیا کے بہت سے عجائبات کو اِن آنکھوں سے گزارا ہے،کتابی کیڑا بھی ہوں، تو یہ ہیرا آخر کہاں چُھپا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ اسے دیکھ کر حیرت زدہ ضرور ہوئی۔ مجتبیٰ اِس بارے میں کچھ زیادہ ہی جوشیلا تھا۔
مگر زندگی سے بھرپور، جوش و جذبے سے لیس، نئی چیزیں کھوجنے کے شوقین پیارے سے نواسے کو یہ کیسے سمجھاتی کہ اسے(ٹیراکوٹا) دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دینا ہرگز میرے اختیار میں نہیں۔’’سُنو مُجی! میرے خیال میں ابھی تک تو یہ دنیا سات عجوبوں ہی پر باہمی اتفاق و اتحاد سے متفق تھی۔اب اس میں یہ آٹھواں بھی شامل ہوگیا ہے۔ مگر اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ محض چینیوں کا خود ستائشی پہلو ہے کہ اپنی چیزوں کے گڈے باندھنے میں بڑے ہوشیار ہیں یا واقعتاً یہ جگہ قابلِ ستائش ہے؟‘‘ تاہم، بعد میں ہم نے تحقیق کی، تو پتا چلا کہ ایسی بھی بات نہیں ہے۔ اس حوالے سے بے چارے چینی حق بجانب ہی ہیں کہ ستمبر1987ء میں فرانسیسی صدر، جیکس چراک(Jacques Chirac) نے اِسے آٹھواں عجوبہ قرار دیا تھا۔ اب اگر ہم ہی بے خبر ے ہیں، تو اس میں قصور وار کون؟ بھئی، سو فی صد ہم۔‘‘
خیر، عمران نے دونوں جگہوں کے درمیان فاصلے کی طوالت اور ذرایع سفر سامنے رکھتے ہوئے ہماری پسند کو مقدّم جانا اور فیصلہ بھی ہم ہی پر چھوڑ دیا۔ 1089مِیل کی دُوری گویا کم و بیش لاہور اور کراچی جتنا فاصلہ تھا، بلٹ ٹرین سے سفر میں پانچ، جب کہ ہوائی جہاز سے سوا گھنٹا لگے گا۔ چِین میں ہوائی جہاز سستے ہیں۔’’سستے ہوں، مَیں کیا کروں…ٹرین کے سفر کی فینٹسی، ہائے! ہے اس کا کوئی مُول؟ ہرگز نہیں۔ زمین اور اس کا رنگا رنگ ماحول، لوگ،ان کے درمیان رشتوں کی قیاس آرائیاں، سنجیدہ اور کِھلکھلاتے چہرے، ان چہروں کا مطالعہ، کتنا دل چسپ شغل ہے۔پانچ کیا ،دس گھنٹے ہوں، تب بھی اسی پر سفر کروں۔‘‘
دل نے کہا اور مَیں نے ٹرین پر ٹِک لگا دیا۔ ٹکٹ لینے کے لیے ساس،داماد اور بیٹی کی تکون گئی۔ وہیں تھین آن من اسکوائر کے قریب ہی ریلوے اسٹیشن تھا۔ اُف خدایا! اتنا بڑا کہ دو منٹ کے لیے آنکھیں ہی پھٹی رہ گئیں۔کیبنز میں بیٹھی ٹکٹ کاٹتی لڑکیاں گو ڈھیلی ڈھالی ہرگز نہ تھیں، مگر پُھرتیلی بھی نہ تھیں اور انگریزی سے تو ان کا ذرا بھی یارانہ نہ تھا۔ ’’اے ہے نری بونگیاں، غلطیوں پر غلطیاں کیے جارہی تھیں۔ قطار میں چند پاکستانی، دو جاپانی اور ایک انڈونیشی بھی کھڑا تھا، ہم سمیت سب کے ٹکٹ غلط کٹے۔ شُکر کہ عمران کو خیال آیا، اُس نے چینی زبان میں تکرار کی اور ٹکٹ بدلوائے۔ مَیں اکیلی ہوتی، تو نقشے ہاتھ میں پکڑ کر ماسکو والے حربے استعمال کرتی، مگر اس میں کتنی خواری ہوتی۔
رات سونے سے قبل انٹر نیٹ پر اِس شہر کے ماضی بارے تھوڑا سا جانا۔یہ شان زی ((Shaanixi صوبے کا ایک بڑا شہر ہی نہیں ہے، بلکہ اپنے اندر تاریخ بھی سموئے ہوئے ہے۔ پہلے پہل کی بادشاہتوں کا یہی تو مرکز تھا کہ شاہ راہِ ریشم کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بھی عین عروج پر تھیں۔ پیسے دھیلے کی بھی فروانی تھی، جس کی وجہ سے خوش حالی بھی تھی۔چِین تو تب ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا۔
شہروں اور صوبوں کے ناموں کے ساتھ حکم رانوں کی من مانیاں اور کھلواڑ بھی تاریخ کا اہم حصّہ رہے ہیں۔’’شی آن‘‘ نام اسے منگ سلطنت نے دیا تھا، تیرھویں صدی میں مارکو پولو اپنے شہر، وینس سے چلا تو بذریعہ شاہ راہِ ریشم ہی یہاں تک آیا تھا۔ یہ یوان بادشاہت کا زمانہ تھا۔ اس نے پورے سترہ سال یہاں گزارے، انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہا اور ’’The Travels of Marco Polo‘‘ جیسی شہرۂ آفاق کتاب کا خالق بنا، جو آج بھی چِین کی مستند تاریخ کا اہم حوالہ ہے۔
31 مارچ کی صبح ہمارے ہاں کی جنوری کی یخ بستہ صبح جیسی ہی تھی۔ کوٹ اور مفلر پہنے ہاتھ جیبوں میں ٹھونسے اور سوں سوں کرتے چل نکلے۔ ہماری ہاں کی کیب سروسز کی طرح وہاں ’’دیدی‘‘ کا بڑا زور ہے۔ ہم نے کیب منگوائی اور ریلوے اسٹیشن کی راہ لی۔ جہاں ایک جہاں اُمڈ آیا تھا۔ بچّے، بوڑھے، نوجوان سب ہی نظر آرہے تھے، جیسے کوئی میلہ ہو۔ کسی کے ہاتھ میں کتاب تھی، تو کوئی اخبار بینی میں مصروف۔ پراموں میں سوتے، جاگتے بچّے بھی اسی منظر کا حصّہ تھے۔ ریلوے اسٹیشن بیجنگ کے جنوب میں تھا اور کیا شان دار تھا۔ اتنا وسیع اور جدید کہ بے اختیار ہی لب دُعا گو ہوگئے کہ ’’اے اللہ! ہمارے مُلک کو بھی اتنا ہی ترقّی یافتہ بنا دے۔
پروردگار! مَیں کیا کروں کہ میری تو حسد ہی ختم نہیں ہوتی، ہر وقت مقابلوں اورموازنوں میں لگی رہتی ہوں۔ لوگوں کی چیزیں دیکھ دیکھ کر جلتی بُھنتی ہوں کہ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں، اسی چکّر میں اپنی تفریح کا بھی بیڑہ غرق کرلیتی ہوں۔‘‘ شان دار پلیٹ فارم، جدید سہولتوں سے آراستہ ریل گاڑیاں…ریل میں بیٹھی تو مزہ ہی آگیا۔ ایک منٹ آگے، نہ ایک منٹ پیچھے۔’’ بھلا ایسی قومیں آگے نہیں بڑھیں گی، تو کیا ہم جیسی بڑھیں گی…‘‘ مَیں منہ ہی منہ بڑبڑائی۔ نظروں نے شیشوں کے پار کیا دیکھا، سوچوں کے پَروں کو ہوائیں لے اُڑیں۔ ’’ہائے! مَیں شاہراہِ ریشم پر سفر کر رہی ہوں۔
مولا! وہ بھی کیا زمانہ ہوگا، قافلوں کی لمبی قطاریں،اونٹوں کی گردنوں میں بندھی گھنٹیوں کی مسحور کن آوازیں، خیموں میں بیٹھے مردو زن، سرائے، آگ کے آلائو میں رقص کرتی حسینائیں۔ برسوں کے لیے گھرسے دُوری، خط نہ پتر، سب کچھ اللہ حوالے، تو اسلام ان علاقوں میں کب آیا، تاجروں کے ذریعے؟ تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی تو اوّلین دَور ہی میں آئے تھے۔‘‘ ہم سوچوں میں گُم تھے۔ شفّاف شیشوں سے باہر کی دنیا بہت دل کش اور بھلی لگ رہی تھی۔
اسی اثنا بیٹی چائے کا مگ اور سموسا نما پیٹی کیچپ کے ساتھ پلیٹ میں دھرا اور ٹرے پر سجادیا اور آواز دی کہ ’’امّی جی! نظارے کر لیے ہوں، تو ذرا پیٹ پوجا بھی کرلیں۔ ‘‘ تو دل سے بیٹی، داماد کے لیے دُعا نکلی اوپر وا لے کا شکر ادا کیا کہ جس نے اتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ حسین موسم، چائے اور مَن موہنے سے ساتھی۔ ’’مالک میرے شکریے کے الفاظ جذبات کی ادائی سے قاصر ہیں اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ میرا لُوں لُوں یہ پکار رہا اور کہہ رہا تھا کہ ’’یہ بندی کہاں اس قابل، بس نذرِ کرم ہے تیری۔‘‘
گاڑی صرف مرکزی شہروں ہی میں رکتی تھی۔ شہر کیا تھے، 20،25 منزلہ عمارتوں کے بار سے لدے پھندے مکمل اور کہیں کہیں تکمیل کے مرحلوں سے گزرتے، جھلکیاں مارتے اور دُہائیاں دیتے کہ ’’دیکھ لو، ہمارا ماضی تو سارا ملیامیٹ ہوگیا، لیکن کیسے ہماری کایا پلٹی ہے۔‘‘سُرنگیں آتیں جن کے اندھیروں سے گزر کر روشنیوں میں آتے ہی انسانی عزم کی کاری گری کے ستونوں پر اُٹھی فلک بوس بلند و بالا عمارتیں اور ایک دوسرے کو کاٹتی سڑکوں والے شہر نمودار ہوتے۔
شجیا زہوانگ(Shijia Zhuang) ایسا ہی ایک شہر ہے، جس کا اسٹیشن راڈز پر کھڑا ہے۔ ہاں، درختوں کی خوب صُورتی کہیں نہیں تھی۔ چھوٹے چھوٹے ٹنڈ منڈ سے درخت، سرو جیسے بوٹے اور بالشت بھر اُونچے پیلی سرسوں جیسے پودے ، سبزیوں کے کھیت تھے، جو سفید پلاسٹک کی شیٹس سے ڈھنپے تھے۔فطرت کا حُسن صفر نہیں تھا، مگر دو فی صد سے زیادہ بھی نہ تھا۔ اگر کچھ آنکھوں کو بھلا لگتا، تو وہ چھوٹا سا ٹوٹا جو کہیں کہیں بس تحفے کے طور پر ہی نمودار ہوتا۔ ہاں کہیں کہیں ماڈرن پسِ منظر میں قدامتوں کے رنگ بھی دکھائی دے جاتے۔
پرانی عمارتوں کے ڈھانچوں کے ٹوٹے پھوٹے سلسلے بتاتے کہ بس اُن کے تیا پانچا ہونے میں زیادہ وقت نہیں ہے۔ (چِین سے واپس آنے کے فوراً بعد مجھے اپنے بھتیجے کی شادی میں ملتان جانا پڑا تھا، اپریل میں وسطی پنجاب کا لینڈ اسکیپ دیکھا۔ اُف! کیا دل موہ لینے اور آنکھوں کو جکڑنے والے مناظر تھے۔یوں لگتا تھا، گویا تاحدّ نگاہ سبزے اور سنہرے رنگوں کے قالین بچھے ہوں۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں۔’’میرے اللہ! اِس مُلک کو تُو نے کیا کچھ نہیں دیا۔)خیر،ہائی اسپیڈ ٹرین 350 میل فی گھنٹا کی رفتار سے چل رہی تھی، لیکن پانچ گھنٹے تو پھر بھی لگے۔
شی آن شہر کا اسٹیشن خوب صُورت تھا۔ باہر جانے کے دو کشادہ راستے تھے، جن کے آخری سِرے پر دھرے جہازی سائز کے سُرخ گل دان میں مُسکراتے پھولوں نے ہمیں شی آن آنے پر خو ش آمدید کہا۔ ’’ہائے، اس پرتپاک سے خیر مقدم پر جی خوشی سے کپا ہوگیا۔ واہ! میری خود ستائشی کی بھی کیاہی بات ہے۔ داہنی طرف دیوار کے ساتھ باتھ رومز بنے تھے، سب میں جھانکا، لیکن ایک بھی کموڈ والا نہ تھا۔ ’’آفرین ہے بھئی تم چینیوں پر کہ تمہارے بڈّھوں کے گٹے گوڈوں پر تو سدا عالمِ شباب ہی رہتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)