• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لافیئر آج کی ہائبرڈ جنگ کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کسی ملک کے قانونی نظام کو زک پہنچانے یا اسے غیر قانونی ثابت کرنے کے لیے قانون اور قانونی ضوابط کا غلط استعمال ہے۔ اس کی وجہ سےہدف بننے والے ملک کا وقت اور سرمایہ دونوں ضائع ہو جاتے ہیں۔

ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رول آف لا فہرست میں پاکستان کا درجہ 139 میں سے 130ویں نمبر پر ہے اس لیے پاکستان یا اس کے اداروں کے ساتھ کیے جانے والے عالمی معاہدوں پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوسکتا حالانکہ ان معاہدوں کی پاس داری پاکستان میں ہی ہو گی۔ کسی تنازع کی صورت میں بیرونی ثالث ہی حل نکالیں گے کیونکہ پاکستانی عدالتیں انصاف فراہم نہیں کرسکتیں۔ حتیٰ کہ ثالثی بھی کسی بیرونی ملک میں سرانجام پائے گی کیونکہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ثالثوں کو خوف زدہ کرکے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

لافیئر کے استعمال سے پیدا کی گئی محکوم ذہنیت کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ ہم نے نادانستہ طور پر 48 مختلف ممالک کے ساتھ 53دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔ 1965ء میں ہم نے ریاستوں اور دیگر ریاستوں کے شہریوں کے درمیان سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ جنکے تحت ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا کے ساتھ معاہدہ پاکستان (آرٹیکل 13 کا حوالہ دیتا ہے) کو کوئی بھی جوابی دعویٰ یا سیٹ آف کا حق یا یہ دفاع کرنے سے محروم کردیتا ہے کہ سرمایہ کار انشورنس یا گارنٹی کے معاہدے پر ہونے والے مبینہ نقصان کا معاوضہ وصول کرے گا، چنانچہ 1965ء کے معاہدے بہت سے قابل اعتراض پہلوؤں کے علاوہ یہ معاہدے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ پاکستانی عدالتوں کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے تنازعات براہ راست نیویارک میں واقع بین الاقوامی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات ( ICSID)کے آرٹیکل 36 کے تحت قائم کردہ ثالثی ٹربیونلز میں لے جا سکیں۔ ہمیں ان غیر مساوی معاہدوں کا درحقیقت کوئی فائدہ اس لیے نہیں ہوا کہ یہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بنائے ہی نہیں گئے۔ہم نے 2011ء میں انٹرنیشنل انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ ایکٹ پاس کیا تاکہ 1965ء کے معاہدے کے آرٹیکل 18 سے 24 کے اثر کو زائل کیا جاسکے جو کہ بین الاقوامی مرکز برائے سرمایہ کاری تنازعات اور اسکی جائیدادوں اور عملے کو پاکستان میں تمام قانونی عمل سے استثنیٰ دینے سے متعلق ہے۔ اسی سال ہم نے 1965ء کے معاہدے کے آرٹیکل 53اور54کو نافذ کرنے کیلئے شناخت اور نفاذ (ثالثی کے معاہدے اور غیر ملکی ثالثی ایوارڈز) ایکٹ نافذ کیا جو نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ تمام حلقوں کے خلاف ثالثی ایوارڈز نافذ کرسکتا ہے لیکن کیا عملاًایسا ہوا؟بورڈ آف انویسٹمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے بعد کے پانچ برسوں میں غیر ملکی نجی سرمایہ کاری سالانہ ایک ارب ڈالر سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ یہ 2016ء کے بعد بمشکل دو بلین ڈالر کا ہندسہ عبور کر سکی لیکن اس کی بڑی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری تھی۔ اگرچہ ہم نے 1989ء میں چین کے ساتھ دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائے ناکام رہے۔

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا بڑا حصہ چین، برطانیہ، امریکہ، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، یو اے ای، اٹلی، ہالینڈ، آسٹریا اور جاپان سے آیا لیکن کسی نےبھی ہمیں آئی سی ایس آئی ڈی ثالثی میں شامل نہیں کیا۔ امریکی شہریوں کی سرمایہ کاری دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے فریم ورک معاہدے 2003ء کے تحت آئی۔ یہ ”یو ایس پاکستان کونسل ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ“ مشترکہ مشاورت فراہم کرتا ہے۔بھارت نے 1965ء کے آئی سی ایس آئی ڈی کنونشن پر دستخط نہیں کیے تھے لیکن 83دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ بھارت کو ”وائٹ انڈسٹریز بنام کول انڈیا“ کیس میں ایوارڈ کا سامنا کرنے سے پہلے آئی سی ایس آئی ڈی کے بیس ثالثی مقدمات کاسامنا کرنا پڑا۔ انڈیا نے یک طرفہ طور پر 60معاہدوں کو ختم کر دیا اور مستقبل کیلئے ایک ماڈل دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدہ دستاویز 2016ء تیار کیا ہے۔ہمارے سامنے خواب غفلت سے جاگنے کیلئے ریکو ڈک کیس ہے۔ اس شرم ناک اسکینڈل میں چھ بلین ڈالر کا جرمانہ ہوا۔ ٹیتھیان کاپر کمپنی کی ریسرچ سرگرمیوں میں 200سے 250ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے مقابلے میں 6بلین ڈالر کا جرمانہ!!! ٹیتھیان کاپر کوئی آسٹریلوی اسٹیک ہولڈر نہیں تھا بلکہ مذکورہ کمپنی کے ذمہ داران نے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کیے گیے بین الاقوامی ثالثی معاہدے سے فائدہ اٹھانے کیلئے کمپنی آسٹریلیا میں رجسٹرڈ کروائی۔

ریکوڈک کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کار ہمیں دس دیگر معاملات میں بین الاقوامی ثالثی میں لے گئے ہیں۔ ثالثی کی کارروائی کے دوران سوئس ایس جی ایس، اور دو اطالوی امپریگیلو مقدمات خوش اسلوبی سے طے کیے گئے۔ کویت اجیلٹی کیس میں ذمہ داری تو پاکستان پر ڈالی گئی لیکن جرمانے سے گریز کیا گیا۔ برطانیہ کی الاوی اور اس سے منسلک ماریشس پروگاس انرجی ماریشس کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہوا۔ بے اندیرترکی کیس کا فیصلہ بھی پاکستان کے حق میں ہوا تھا لیکن بے اندیر نے ایک اور معاملے میں آئی سی ایس آئی ڈی میں ثالثی کی درخواست کی جو زیر التوا ہے۔ کرکی کارڈینیز ترکی کیس میں بری طرح سے نقصان ہوا۔ 1.2 بلین ڈالر کا جرمانہ ہوا لیکن پھر صدر اردوان ہماری مدد کیلئے آئے۔

ہم نے جن 53 معاہدوں پر دستخط کیے ہیں ان میں سے 5 کو ختم کر دیا گیا ہے اور 16 نافذ العمل نہیں ہیں کیوں کہ ہم نے ان کی توثیق نہیں کی ہے۔ ہمیں توثیق نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کی فوری معطلی کیلئے نوٹس جاری کرنا چاہئے۔مستقبل کیلئے ہمیں معاہدوں کیلئے ماڈل دستاویز تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے مطلع کیا گیا ہے کہ بورڈ آف انویسٹمنٹ پہلے ہی ایسا کر رہا ہے۔اس سلسلے میں بورڈ انڈین ماڈل سے کچھ دانائی مستعار لے سکتا ہے۔ ہمیں ایک ایسا قانون پاس کرنا چاہیے جو واضح طور پر یہ تجویز کرے کہ کوئی بھی شخص،(عوامی یا نجی) کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریگا جو پاکستان کے علاوہ کسی اور قانون کے نفاذ کا حق دے گا۔

تازہ ترین