• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’جارحانہ رویہ‘ کسی ذہنی و نفسیاتی عارضے کی علامت بھی ہوسکتا ہے

جب کوئی فرماں بردار، قابل ماتحت اچانک اپنے باس کے کسی حکم کو ماننے سے انکار کر دے، تو یہ عمل جارحانہ رویّے میں شمار کیا جاتا ہے۔ درحقیقت، ایسا رویّہ اختیار کرنے والا فرد اپنے باس سے بظاہر خوش ہونے کے باوجود اندر سے شاکی ہوتا ہے اور اپنی پریشانی، ناتوانی اور غصّے کا اظہار دبے دبے الفاظ میں کرتا ہے۔ 

اگرچہ جارحانہ رویّہ مرض نہیں، مگر مشاہدے میں ہے کہ ذہنی طور پر بیمار افراد عموماً اپنے جذبات کے اظہار کے لیے جارحانہ رویّہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کے دو بڑے نقصانات ہیں، ایک تو کام کی جگہ پر تعلقات متاثر ہوجاتے ہیں۔ دوم، گھریلو اور معاشرتی تعلقات میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

جارحانہ رویّے کی بے شمار علامات ہیں، مثلاً مذکورہ افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں، اپنا کام تَن دہی سے کرتے ہیں اور ظاہراً وہ درست بھی ہوتے ہیں، مگر حقیقتاً دیگر افراد کی خواہشات کے خلاف کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ساتھی یہ کہے کہ وہ اپنا وزن کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور آپ اگلے ہی روز یا پھر چند دِن بعد کسی خوشی کے موقعے پر اُس کے لیے کیک یا مٹھائی لے آئیں، تو عین ممکن ہے کہ یہ عمل اُسے خوشی دینے کے بجائے دُکھی کردے۔ اور جواباً آپ بھی جارحانہ رویّہ اختیار کرلیں۔

 زیادہ تر جارحانہ رویّہ اختیار کرنے والے افراد اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے کام کی تعریف نہیں کی جاتی، مگر ساتھ ہی وہ دوسروں پر تنقید کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ ایسا رویّہ اختیار کرنے کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ غصّہ، مایوسی، نااُمیدی وغیرہ عام جذبات کا حصّہ ہیں، جن کا اظہار ہر فرد کرتا ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر افراد جس سے شکایت ہو، اُس سے براہِ راست بات کرنے کی بجائے دوسروں پر غصّہ اُتار دیتے ہیں۔ بعض افراد جارحانہ رویّہ اس لیے بھی اپناتے ہیں کہ انہیں جو کچھ چاہیے، وہ اپنے ناگوار رویّے کے ذریعے بآسانی حاصل کر لیتے ہیں، مگر ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔

بعض کیسز میں جارحانہ رویّہ کسی ذہنی بیماری کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے اینزائٹی ڈس آرڈر،اے ڈی ایچ ڈی (Attention Deficit Hyperactivity Disorder)، ڈیپریشن، نشے کے لیے ادویہ یا دیگر اشیاء کا استعمال (Substance Abuse Disorder)اور پرسنیلٹی ڈس آرڈر۔جارحانہ رویّے کے علاج کے کئی طریقے مستعمل ہیں، جن میں سب سے مؤثر طریقۂ کارکاؤنسلنگ ہے۔ اگر مذکورہ فرد کے قریبی ساتھی گاہے بگاہے محبّت و انسیت سے اُسے سمجھانے کی کوشش کریں، تو رویّے میں کچھ تبدیلی کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ جب کہ کئی افراد اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ ان کے مزاج میں جارحانہ پَن شامل ہے، تو وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کی گفتگو سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور ایسا نہ ہو کہ ان کی باتوں سے کسی کی ملازمت چلی جائے یا کسی کو شدید نقصان پہنچے۔

بعض اوقات کسی پریشانی کی وجہ سے بھی رویّہ جارحانہ ہوجاتا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آپ جو چاہتے ہیں، آپ کو جس چیز کی ضرورت ہے یا پھر کسی سے کوئی شکایت ہے، تو براہِ راست متعلقہ فرد سے نرم لہجے میں اس کا اظہار کردیں، کیوں کہ بعض اوقات ہم خود قصوروار ہوتے ہیں، مگر موردِ الزام دوسروں کو ٹھہراتے ہیں، تو آپس میں بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ 

اگر آپ غلطی پر ہوں، تو فوراً معافی مانگ لیں تاکہ معاملہ رفع دفع ہوجائے، لیکن اگر تمام تر کوششوں کے باوجود رویّے میں سدھار پیدا نہ ہو، تو کسی ماہرِ کاؤنسلر سے رجوع کریں اور اس کی ہدایات پر سختی سے عمل بھی کریں تاکہ باہمی، سماجی اور گھریلو تعلقات خراب ہونے سے بچ جائیں گے۔ (مضمون نگار، ڈاؤ یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ رہ چُکے ہیں)