• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان جاوید اُردو دنیا کے ایک موقر، ممتاز اور محبوب قلم کار ہیں۔ ان کا تخلیقی، تحریری سفر افسانوں سے شروع ہوا۔ بعد ازاں، شخصی خاکوں پرمشتمل خیال آفریں، فکر افروز تحریریں ’’دروازے‘‘ ، ’’سُرخاب‘‘ کے عنوانات سے اور تحقیقی و دانش افروز مضامین ’’عجائب خانہ‘‘ کے زیرِ عنوان شرمندۂ اشاعت ہوئے اور ان مضامین نے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں سلسلے وار اشاعت کے بعد کُتب کی شکل میں بھی عوام و خواص میں بےحد مقبولیت حاصل کی۔

اب عرفان جاوید کی تحقیقی و تخلیقی کاوشوں کا حامل یہ تازہ سلسلہ ’’آدمی‘‘ قارئین کی نذر کیا جارہا ہے۔ چند معروف، کم معروف، غیر معروف مگر نادر ونایاب شخصیات کے اِن خاکوں میں فاضل مصنّف کے مشاہدے کی توانائی اور بیان کی دل کشی بہ درجۂ کمال نظر آتی ہے۔ یہ کون، کہاں، کیوں اور کیسے، کیسے لوگ تھے۔ اس دل چسپ، زندگی آمیز سلسلے میں اِن اَن مول، ’’بے پناہ‘‘ صاحبان سے ملاقات کیجیے۔

چوتھا خاکہ ’’بَڈی ماموں‘‘ کا ہے، جو درحقیقت ایک سیلانی مزاج شخص کی آزاد رَوی، نکتہ رَس تجربات و مشاہدات، دل چسپ حکایات اور چشم کُشا احوال کی رُوداد ہے۔

سلسلے سے متعلق اپنی آرا سے آگاہ کرنا مت بھولیے گا۔ آپ اِن ای میل آئی ڈیز پر اپنی ہر طرح کی رائے یا ذہن میں آنے والا کوئی بھی سوال شیئر کر سکتے ہیں۔

sundaymagazine@janggroup.com.pk

irfanjaved1001@gmail.com

(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)

بَڈی ماموں نے علی الصباح اپنے معصوم مُنّے بیٹے کی پیشانی چُومی، گہری نیند سوئی آسٹرین بیوی کو دیکھا، کمرے سے باہر نکل کر اپنا سامان اُٹھایا اور ویانا میں واقع اپنے کاٹیج سے ایسے نکلے کہ کئی برس تک اپنی بیوی اور بیٹے سے رابطہ نہ کیا۔ ’’آپ کو ان برسوں میں کبھی اپناچھوٹا سا بیٹا یاد نہ آیا؟‘‘مَیں نے ماڈل ٹاؤن پارک، لاہور کے قریب واقع اُن کے بہنوئی کے بنگلے کے ورانڈے میں بید کے صوفے پر بیٹھے ہوئے اُن سے پوچھا۔ ’’کئی مرتبہ، بارہا یاد آیا، لیکن مجھے ڈر تھا کہ اگر مَیں نے اپنی بیوی اور بیٹے سے رابطہ کیا تو مجھے واپس جانا پڑجائے گا۔ 

مَیں آگے دیکھنا چاہتا تھا، آگے چلنا چاہتا تھا۔ زندگی مختصرہے، ہمیں آزاد رہنا چاہیے، جگہ جگہ کھونٹوں سے بندھ جانے سے زندگی جیسا قیمتی تحفہ ضائع ہوجاتا ہے۔‘‘اُن کے جواب کے الفاظ بعینہٖ یہ تو نہ تھے، مگر مفہوم کچھ ایسا ہی تھا۔ ’’آپ کا کیاخیال ہے کہ آپ کا بیٹا آپ کو یاد کرتا ہوگا، وہ بھی اچھے الفاظ میں؟‘‘مَیں نے اپنے لہجے کو تلخی سے بچاتے ہوئے استفسارکیا۔’’مَیں اُس کے سرہانے اس کی پسندیدہ چاکلیٹس کا ٹِن رکھ آیا تھا۔ 

زندگی کو ہر پابندی سے مُبرّا، اپنے ہی رنگ ڈھنگ سے جینے والا شخص

وہ اُٹھ کر یقینا خوش ہوا ہوگا۔‘‘اُنھوں نے سوال کے براہ راست جواب سے دامن بچاتے ہوئے گول مول بات کی۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ ایک روایتی انسان کی طرح سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ شاید ان کے فکرواحساس کا محور اُن کی اپنی ذات ہی تھی۔ وہ خود پرست، خودمگن تھے یا شاید قدرت نے اُنھیں ایسے ہی کسی سانچے میں ڈھالا تھا۔دہائیاں بیچ میں آجائیں تو یادداشت دھندلانے لگتی ہے، الفاظ تو شاذ ہی یاد رہتے ہیں، مگرکئی باتیں دل پر خُوب نقش ہو جاتی ہیں۔

……٭٭……

یہ میرے یونی ورسٹی کے دَور کی بات ہے کہ ایک روزمَیں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا، تو وہ ایک نازک نقوش، سُرخ وسپید رنگت، نسوانی ملائمت کی سی شفّاف جِلد اور بار بار بِکھرتے ریشمی بالوں والے صاحب کے ساتھ بیٹھا خوش گپیاں کرتے ہوئے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ اجنبی صاحب نے بالوں کے بیچ مانگ نکالی ہوئی تھی، سنہرے فریم والا نفیس چشمہ لگا رکھا تھا، چہرے پر دھیمی، دل آویز سی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔ ایک جاذبیت اور مانوسیت ان کے وجود سے لپٹی تھی۔ دوست نے تعارف کروایا۔’’یہ بَڈی ماموں ہیں، تیس سال یورپ اور یونائٹیڈ اسٹیٹس میں گزار کر واپس آئے ہیں۔‘‘ ’’بَڈی ماموں نہیں، صرف بَڈی۔ امریکا میں یہ آپ جناب نہیں چلتا۔‘‘یہ کہہ کر بَڈی ماموں نے جیب سے مارل برو ریڈ کی ڈبیا نکالی اور میری طرف بڑھادی۔ مَیں نے تردّد کیا، تو اُنھوں نے ہنس کرڈبیا واپس جیب میں رکھ لی۔’’میرابھانجا چُھپ کر سگریٹ پیتا تھا۔ 

مجھے پتا چل گیا، کیوں کہ وہ رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کے بہانے سگریٹ پینے گھر سے دُور چلا جاتا تھا۔ ایک دن مَیں اس کے ساتھ واک پرچلا گیا۔ وہاں اُسے سگریٹ دی تو اس نے لینے سے انکار کیا۔ چوں کہ مجھے پتا تھا کہ وہ سگریٹ پیتا ہے، اس لیے زبردستی اُسے سگریٹ پلائی۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘ مَیں نے حیرت سے پوچھا، تو بَڈی ماموں نے بنگلے کے کُھلے گیٹ کے سامنے سڑک سے گزرتے سائکل سوار ردّی فروش کو دیکھا (کولا مِلے دودھ سوڈے کی رنگت والی شام میں، جب فضا میں کوؤں، پرندوں کی چہکار بڑھ رہی تھی) اور اپنا فلسفہ کچھ یوں بیان کیا۔ ’’بھانجا میرے سامنے سگریٹ پیتا یا چُھپ کر، مگر وہ سگریٹ پیتا ضرور، سگریٹ ایک نقصان دہ چیز ہے اورمَیں بھانجےکا ہم درد ہوں، تومَیں نے سوچا، جب وہ میرے سامنے سگریٹ پیے گا، تو مَیں اس کی سگریٹ نوشی پر روک لگا سکوں گا کہ وہ ایک خاص تعداد سے نہ بڑھے۔ یوں یہ بے تکلفی اس کے فائدے میں رہے گی۔‘‘مَیں نےالجھنے کے بجائے خاموش رہنا بہتر جانا۔

ماموں کی ایک حرکت کی وجہ سے اُنھیں اپنے بہنوئی کے ہاں سے بھی رخصت ہونا پڑا۔ بہنوئی آزاد خیال اور جدید طور اطوار کا جرمن پلٹ آدمی تھا۔ اُس نے اپنے فریج میں بیئر کے ٹِن اور بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ ماموں چند ایسی تراکیب سے واقف تھے، جن کی مدد سے وہ اُن سے کچھ بیئر نکال کر اُن میں پانی بَھردیتے تھے اور نکالی ہوئی بیئر پی جاتے تھے اور وہ یہ کارنامہ تب ہی سر انجام دیتے تھے، جب گھر پر کوئی نہ ہوتا تھا۔ بہنوئی گرمیوں کی شاموں میں فریج سے ٹھنڈی بیئر نکال کر پیتا تو کچھ سُرور والی کیفیت نہ ہو پاتی۔ کچھ اثر ہوتا بھی تو معمولی سا۔ کچھ عرصے وہ سمجھتا رہا کہ اُس کے اعصاب اس درجہ مضبوط ہوگئے ہیں کہ اب بیئر اُن پر اثر نہیں کرتی۔ 

بعد ازاں اُسے شک ہوا کہ سپلائی لائن میں کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ وہ سامانِ خمرکو خوب اُلٹ پلٹ کر دیکھتا رہتا۔ تجسّس وشکوک کے معاملات تب تک چلتےرہے، جب تک اُس نے ماموں کو بیئر کی جگہ پانی بَھرتے رنگے ہاتھوں پکڑ نہ لیا۔ پس، ماموں کو وہاں سے رخصت ہونا پڑگیا۔ مَیں ناواقف ِحقیقت تھا، سَو جب بَڈی ماموں سے رخصت کی وجہ پوچھی تو انھوں نے امریکی انداز میں کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ ’’غیرت اجازت نہیں دیتی تھی کہ بہن کے گھر پر بوجھ بن کر پڑا رہوں۔‘‘ بَڈی ماموں لاہور چھاؤنی میں جی پی او، کینٹ کے سامنے درختوں سے ڈھکی پرُسکون سڑک کے بنگلے کے بالائی حصّے میں کرائے پر منتقل ہوگئے۔ 

اُس پورشن میں گٹار بجانے والا ایک فیشن ایبل، امیر گھرانے کاچشم وچراغ جِمی نامی لڑکا بھی رہتا تھا۔ دونوں کے کمرے الگ تھے، البتہ لاؤنج اورکچن مشترک تھے۔ جِمی والدین سے ناراض تھا، اپنا عالی شان بنگلا چھوڑ کر اُدھر ایک کمرے میں منتقل ہوگیا تھا۔ بعد میں اُس کی ناراضی کی وجہ سامنے آئی کہ وہ اپنے سے بڑی عُمر کی ایک عورت سے محبّت میں مبتلا تھا اور اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اُس عورت کی اپنے پہلے شوہر سے اولاد تھی اور اُس کے چال چلن پر بھی اُنگلیاں اُٹھتی رہتی تھیں۔ جِمی سمجھتا تھا کہ ایک اکیلی اورخود مختار عورت پر اس معاشرے میں بے وجہ انگلیاں اُٹھتی ہی ہیں،جس بےلوث وارفتگی سے عورت اُس سے محبت کرتی ہے، وہ بے مثال ہے۔ جِمی کے والدین اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اور…یہ سب مجھے بَڈی ماموں نے بتایا۔

بتایا تو انھوں نے اوربھی بہت کچھ، اپنا احوال جہاں گردی، داستاں ہائے عشق و عاشقی، حُسن پرستی اور بوالہوسی کے بہت سے قصّے۔بَڈی ماموں کی ذات میں میری دل چسپی کی وجوہ میں ان کی رنگارنگ اور دل چسپ شخصیت کے علاوہ یہ تجسّس بھی شامل تھا کہ اُن لاابالی، مَن چلے لوگوں کا احوال جانا جائے، جو پچاس اورساٹھ کی دہائی میں جہاں گردی کو یورپ و امریکا نکل گئے تھے، جو ایک جمی جمائی ٹھیری زندگی گزارنے کے خلاف تھے اور لوٹ کرمُلک نہ آئے۔ ایک زمانہ گزرنے کے بعد اُن کا سفرِ حیات کہاں تک پہنچا تھا اور بیچ کی دہائیوں میں اُن کے شب و روز کیسے گزرے تھے۔ 

گو، بَڈی ماموں ان کی نمایندگی ہرگز نہ کرتے تھے کہ ان منفرد لوگوں میں سے ہر ایک کی زندگی کا رنگ اَور تھا، بہرحال وہ اُنھی میں سے ایک تھے اور سب سے بڑھ کر میری دست رس میں تھے۔ بَڈی ماموں کانام تو کچھ اورتھا، مگر وہ بَڈی یعنی یار کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اُن کا خاندان ایوب دَور کے نمایاں ترین خاندانوں میں سے ایک تھا، پھوپھا ایوب خان کے دست ِ راست اور افسر شاہی کا ممتاز چہرہ تھے، پڑھا لکھا اور متمول گھرانا، دوست یار مغربی فلموں، گانوں اور ملبوسات کے دل دادہ، بَڈی ان کے اثر سے کیسے محفوظ رہتے۔ 

سَو، ان پر بھی وہی رنگ چڑھ آیا اور سَرپہ کسی مغربی ملک جابسنے کا سودا سمایا۔ ماں کے لاڈلے تھے، جو ان کے لڑکپن ہی میں چل بسی تھیں۔ درجن بھر بہن بھائیوں کو سنبھالنا اور اُن کی پرورش کرنا روزگار کے معاملات میں الجھے والد کے لیے اِک کاردارد تھا بڈی بےمہار اورخودسر ہوتے چلے گئے۔ خوب رُو اورخوش لباس تھے، صنف ِ لطیف جلد مائل ہو جاتی تھی۔ خوش لباسی اس دَور میں ایک عام وصف تھا۔ اگر ساٹھ کی دہائی کی تصاویر دیکھی جائیں توشاعروں، ادیبوں سے لے کر اساتذہ تک سوٹڈ بوٹڈ، نک ٹائی میں ملبوس نظر آتے تھے، ملک کی جینٹری کے علاوہ عام گھرانوں کی پِک نِک وغیرہ کی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ خوش لباسی پر خاص توجّہ دیتے تھے۔

بڈی نے والد سے ضِد کی کہ وہ سیاحت کے لیے یورپ جانا چاہتے ہیں۔ تب ویزا ملنا اتنا بڑا مسئلہ نہ تھا، جتنا مشکل پاسپورٹ بنوانا تھا۔ اثر ورسوخ والا خاندان تھا، اُن کا پاسپورٹ با آسانی بن گیا۔ قیامِ پاکستان سے دو برس قبل پیدا ہونے والے بَڈی یورپ کو نکلے، تو بمشکل اکیس بائیس برس کے تھے۔ وہ ایران، ترکی، یونان اور اطالیہ سے ہوتے ہوئے آسٹریا جا ٹھیرے۔ ’’آسٹریا میں کیا خاص بات تھی؟‘‘ مَیں نے پوچھا، تو بَڈی ماموں نے اپنے لمبے ریشمی بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کچھ دیر توقف کیا۔ 

جی پی او، لاہور چھاؤنی کے بنگلے کی بالائی منزل کے بازو والے کمرے سے جِمی کی گٹار پر مشق کی آوازیں آرہی تھیں۔ ’’سچ پوچھو تو مجھے جاسوسی فلمیں پسند تھیں۔ اُن میں ایک اسرار، رومان، گلیمر، سردیوں کی دُھند کے بیچ ٹمٹماتی روشنیوں کا سا بھید ہوتا تھا۔ آسٹریا کا دارالحکومت، ویانا جاسوسی کا مرکز تھا۔ ابھی سردجنگ عروج پر تھی۔ آسٹریا، روس اور امریکا کی اس جنگ میں غیر جانب دار تھا۔ کمیونزم یورپ کے خاصے حصّے کو نِگل چکا تھا اور بقیہ کو نِگلنے کی تیاری کررہا تھا۔ ایسے میں ویانا میں سترہ ہزار سے زیادہ سفارتی نمایندے موجود تھے، اُن میں سے بہت سے جاسوسی پر مامور تھے۔ 

فلموں، ڈراموں، ناولوں میں یہ جاسوس ویانا کی قدیم گلیوں میں سایوں کی طرح چلتے یا لیمپ پوسٹوں کے قریب راتوں میں سروں پر ہیٹ تِرچھے کر کے چہرے چُھپائے کھڑے نظر آتے تھے۔ وہ ماحول میرے شوق کے بہت قریب تھا۔‘‘مَیں بَڈی ماموں کا مزاج خاصا سمجھ گیا تھا۔ معمولی شے پر بھی وہ گلیمر کا سنہرا روغن رنگ چڑھادیتے تھے۔ جِمی کا بے سُرا گٹار اور بَڈی کی قصّہ گوئی کی طوالت مجھے بےچین کررہی تھی۔ مَیں ’’اندر کی بات‘‘ جاننا چاہتا تھا، سو سوال کیا۔ ’’اِس کے علاوہ بھی کوئی وجہ ہوگی؟‘‘ ’’دراصل مجھے ویانا میں مفت ٹھیرنے اور دو گھڑی سانس لینے کا موقع مل گیا تھا۔ انیس بلوچ میرا ایک دوست تھا۔ 

ہم ناظم آباد کراچی میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے۔ اُس کے دوستوں کا وسیع حلقہ تھا، جس میں غیر ملکی دوست بھی تھے۔ اُس کا ایک قریبی دوست ویانا میں رہتا تھا۔ اُس نے وہاں نہ صرف میرے ٹھیرنے کا انتظام بلکہ میری جزو قتی ملازمت اور مفید تعلیم کا اہتمام بھی کردیا۔‘‘ ’’مفید سے آپ کی کیا مُراد ہے؟‘‘’’ایسی تعلیم، جس کا فوری فائدہ ہو اور آدمی کو یا تو فوری ملازمت مل جائے یا وہ اپنا ذاتی کام شروع کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمومی نوعیت کی گریجویشن سے زیادہ اہم تیکنیکی ڈپلوموں کو سمجھتا ہوں۔‘‘میری آنکھوں میں الجھن ملے استفسار کو پڑھتے ہوئے وہ بولے۔ ’’مَیں نے مختلف زبانیں سیکھنا شروع کردیں۔ 

اس کے علاوہ ویانا میں اتنے زیادہ سفارت کاروں کی موجودی کی وجہ سے بے شمار پرُتکلف دعوتیں اور فنکشنز ہوتے تھے۔ سو، مَیں نے ہوٹلنگ، مہمان داری اور کُکنگ سے متعلق کورس کرنا شروع کر دیے۔ ہوٹل تو دنیا کے ہر شہر میں ہیں اور لوگ کھانا بھی کھاتے ہیں۔ اِس شعبے کے ماہرین کی مانگ دنیا کے ہر کونے میں ہمیشہ رہے گی۔ جہاں تک ملازمت کاتعلق ہے، تو مَیں اقوامِ متحدہ کی مختلف اوقات میں ہونے والی کانفرنسز میں معاون مقرر ہوگیا۔ میرا کام مندوبین کی راہ نمائی کرنا، اُن کا خیال رکھنا اور کانفرنسز کے ضروری انتظامات میں معاونت کرناتھا۔ مجھے انگلش آتی تھی اور جرمن مَیں کراچی سے سیکھ کر گیا تھا۔ وہاں مَیں نے فرینچ، ٹرکش اور عربی میں بھی شُدبُد حاصل کرلی۔ ہندی تو قریباً اُردو ہی ہے، تو مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔‘‘

بَڈی ماموں کی گفت گو سے واضح تھا کہ گو اُن کے سَرپر سیاحت کا سودا سمایا تھا، مگر اپنے کیریر کے لبےبھی سنجیدہ تھے۔ وہ جلد ہی سمجھ گئے تھے کہ جہاں گردی اور سیاحت کے لیے اُن سے وابستہ پیشوں میں تربیت ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔ اگر آدمی ایسی خوبی، ہُنر اور تربیت اپنے ساتھ لےکر چلے تو گویا عمر وعیار کی زنبیل اُس کے پاس ہوتی ہے۔ بَڈی سے میری ملاقاتیں جاری رہیں۔ 

جِمی سے ملاقات ہوجاتی، تو کئی بار اُس خاتون سے بھی ملنے کا موقع بھی ملا، جس کی خاطر اس نے خاندانی ثروت ٹھکرا دی تھی۔ خوش شکل، ماڈرن، ذہین اور پارہ صفت خاتون تھی۔ اُس کی آنکھیں ہمہ وقت متحرک رہتی تھیں۔ اِس دوران بَڈی کو طفیل روڈ پر واقع ایک منظّم ادارے کے تجارتی کمپلیکس میں باعزت اور قابلِ قدر ملازمت مل گئی۔ وہاں مختلف نوعیت کے فنکشنز ہوتے تھے اور شادی ہالز بھی تھے۔ وہ بَڈی کے گھر کے نزدیک واقع تھا۔ (جاری ہے) 

سنڈے میگزین سے مزید